خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن

ہفتہ 29 مئی 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

آپ پوری  دنیا پر نظر ڈالیں آپ کو جتنے ترقی یافتہ ممالک نظر آتےہیں ان سب نے تعلیم کی وجہ سے  ترقی کی ہے، اچھی تعلیم کے ذریعے سے صحیح قومیں بنتی ہیں  ۔
دنیا کے اکثر ممالک تعلیم کی ترقی کے لیے نئے نئے اقدامات اور منصوبے تیار کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ پاکستان میں ہر حکومت تعلیم کی ترقی کے لیے بلند وبالا دعوے تو کرتی ہے، لیکن عمل اس کا برعکس ہی ہوتا ہے. اچھی تعلیم  کے حصول کے لیے اچھے اور قابل اساتذہ  کی اشد ضرورت ہوتی ہیں،
اس وجہ سےمجھے میرے دوست برادرم پروفیسر عمادالدین صاحب سخاکوٹ نے میری توجہ ایک اہم موضوع پر کالم لکھنے کی طرف مبذول کر دیا۔


وہ یہ کہ پبلک سروس کمیشن خیبر پختونخوا نے 1900 میل اور فیمل لیکچررز تعیناتی  کے لیے  اشتہار شائع کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اتنی زیادہ لیکچررز کی خالی اسامیاں مشتہر کی گئی.
یہی وجہ ہے کہ بے روزگار اعلی تعلیم یافتہ  نوجوانوں نے اس پر بہت خوشی منائی، جو وہ کئی سالوں سے اس کے لیے منتظر  تھے .
عرصہ دراز سے گورنمنٹ کالجز میں اساتذہ کی کمی محسوس کی جا رہی تھی،اپنی ضرورت ایڈھاک  سے پوری کی جاتی تھی، جو ملازمین کے لیے ہر وقت باعث تشویش ہوتی ۔

(جاری ہے)

پبلک سروس کمیشن کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس اہم ادارے کی افادیت سے کوئی انکار نہیں، ان کی خدمات ہر وقت ملک اور قوم کے لیے اس کی خدمات یاد کی جائیں گی، پبلک سروس کمیشن کی طرف سے امیدواروں کے انتخاب کےلیے  وقتاً فوقتاً اپنے قوانین میں ترامیم کی جاتی ہیں ۔  ابھی نئے بھرتی ہونے والے لیکچررز کےلیے کمیشن کی طرف سے سکریننگ ٹسٹ ختم کرنے کا اصولی کیا گیا ہے  کہ ہر سبجیکٹ میں ایکیڈیمک کی بنیاد پر زیادہ مارکس حاصل کرنے والے افراد کو انٹرویو کے لیے بلایا جا ئے گا  ۔


جو کئی وجوہ سے ٹھیک نہیں ان کی وجوہات میں دلائل کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں امید ہے قارئین  سمجھ سکیں اور پبلک سروس کمیشن اپنےفیصلہ پر نظرِ ثانی کر کے اپنی پرانا طریقہ کار بحال کرے ۔
مشاہدے سے ثابت ہے کہ ہر اہم پوسٹوں کی تعیناتی کے لیے مختلف ادارے ٹیسٹ لیتے ہیں جیسے پی ایم ایس ، سی ایس ایس ، آرمی میں سیلکشن سےپہلے، سکولوں کے تمام اساتذہ سے اور میڈیکل کالجز میں سٹوڈینس کے داخل ہونے کے لیے باقاعدہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے.
اگر ٹیسٹ ضروری نہیں تو ان سب اداروں میں ملازمین اور طلبہ کی تعیناتی کے لئے  ٹیسٹ لینا ختم کیا جائے۔


تعلیم سب سے اہم شعبہ ہے یہ سب اداروں کے لیے افراد تیار کر کے فراہم کرتے ہیں لہذا ٹیسٹ لینا بہت ضروری ہے۔
ان سب دلائل سے ٹیسٹ کی اہمیت ٹابت ہوئی  ابھی لیکچررز کی بھرتی کے لیے ٹسٹ کا  خاتمہ کیا گیا شاید کہ پبلک سروس کمیشن پر بوجھ زیادہ ہو اس نے اپنی آسانی کے لیے یہ کام کیا ہو یا کورونا وائرس کی وجہ سے ٹسٹ نہیں لیتے ہو، اس سے پبلک سروس کمیشن کا  اپنے فیصلے میں بہتری کی سوچ ہو لیکن یہ کھبی بہتر ثابت نہیں ہوگا۔


اس سال حکومت نے انٹر اور انٹرمیڈیٹ میں امتحانات لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس میں لاکھوں طلباء وطالبات امتحان دینا دینگے.
تو اس طرح لیکچرارز سے ٹیسٹ ایس او پیز کے اصول کے تحت  ہر مضمون کے لیے علحیدہ علحیدہ دن  مقرر کرکے اس کا انعقاد مختلف اضلاع میں  ایٹا کے زیر نگرانی میں کیا جا ئے۔
اس ملک کے ناقص امتحانی سسٹم کی وجہ سے زیادہ نمبرات لینے والے افراد کو یقنی طور پر قابل نہیں کہہ سکتے ہیں۔

مشاہدے میں ایا ہے کہ ایف ایس سی کےامتحانات میں پوری بورڈز ٹاپ کرنے والے طلباء میڈیکل کالجز کے انٹری ٹسٹ میں ناکام ہوئے ہیں اور دوسری طرف  کوئی بھی ادارے کے نارمل طلباءکم نمبرات لینے والوں نے انٹری ٹسٹ میں کا میابی حاصل کی ہیں۔ کیونکہ ہمارے سسٹم میں سقم موجود ہے بعض امتحانی ھالوں میں امتحانی عملہ سٹوڈنٹ کے ساتھ نرمی کرتے اور بعض کے ساتھ سختی ۔

بعض بورڈز اور یونیورسٹیاں طلباءکو اپنی قابلیت سے زیادہ نمبر سے نوازتے ہیں۔ اور بعض بخل سے کام لیتے ہوئے طلباء کو اپنا حق بھی نہیں دیتے تو اس وجہ سے بعض سٹوڈنٹ  جو اتنے قابل نہ ہو وہ زیادہ نمبرات لیتے ہیں اور جن کے ساتھ سختی ہوئی  ہیں وہ اپنی اپنی اہلیت کے مطابق نمبرات لیتے ہیں لیکن وہ پہلی صورت والے سے ضرور کم ہونگے کیونکہ انہوں نے زیادہ نمبرات نقل یادوسرے ناجائز طریقے سے لیے ہونگے۔

پبلک سروس کمیشن ایک اہم ادارہ ہے یہ کیوں اتنے غیر سنجیدگی کا مظاہر کرتا رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے اکثر اسامیاں پر ٹیسٹ لیا جاتا ہے اس میں بھی شفافیت نہیں رہا سوالیہ پرچوں  میں کافی خامیاں موجود رہے جن میں بعض کنڈیڈیٹس نے کورٹ سے حکم امتناعی بھی لیے تھے۔ اکثر پرچوں میں سوالات غلط تھے اور جو ٹھیک تھے وہ بھی علمی قسم کے نہیں تھے۔
لھذا کمیشن کو چاہیے کہ وہ اپنے کیے ہوئے  فیصلے پر نظر ثانی کرکے پرانا طریقہ کار یعنی سکریننگ ٹیسٹ لیا جائے اور زیادہ نمبرز لینے والے کنڈیڈیٹ کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے۔


دوسرا مسئلہ  ہر سبجیکٹ کا ایکولنسی کا ہے جس میں بعض سبجیکٹ میں کافی زیادہ دوسرے سبجیکٹ کے امیدوار کو ایکولنسی کی وجہ سے درخواست دے سکتا ہے جو ان کے ساتھ دور کے تعلق بھی نہیں ہوتا ہے۔
لھذا پبلک سروس کمیشن ایکولنسی پر دوبارہ نظر ثانی کرکے غیر متعلقہ سبجیکٹ کے ایکولنسی منسوخ کیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہونے والے سبجیکٹ میں صرف ایکولنسی کا اجازات دی جائے۔

  تاکہ صحیح قابل افراد کے تعیناتی ہو جائے۔
میں وزیرتعلیم اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کے بارے میں  واضح ہدایت پبلک سروس کمیشن کو دیا جائے کہ لیکچررز انٹرویو سے پہلے کنڈیڈیٹ سے سکریننگ ٹیسٹ ضرور لیاجائے۔
تاکہ قابل لیکچرارز کی تعیناتی ہو جائے جس سے کالجز کے  طلباء مستفید ہوکرملک اور قوم کی ترقی میں اپنا اپناکردار ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :