کالجز میں BS پروگرام اصل حقائق

بدھ 14 جولائی 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

اقوام کی ترقی اچھی تعلیم میں مضمر ہے ۔ آپ پوری  دنیا پر نظریں ڈالیں ۔ آپ کو جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک نظر آتے ہیں ان سب نے تعلیم کی وجہ سے ترقی کی ہے۔ تعلیم  کے ذریعے صحیح قومیں بنتی ہیں۔ اور جو اقوام پیچھے ہیں دراصل وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے پیچھے ہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک تعلیم کی ترقی پر بجٹ کا خطیر رقم مختص کرتے ہیں اور ساتھ ہی نئے نئے اقدامات اور منصوبے تیار کرتے  ہیں۔


افسوس ہے کہ پاکستان میں ہر حکومت تعلیم کی ترقی کے لیے بلند وبالا دعوے تو کرتے ہیں  لیکن عمل اس کے برعکس ہے۔
یونیورسٹیاں  کئی  سال سےمالی بحران کی شکار ہیں ۔ان کو حکومت کی طرف سے دیا ہوا بجٹ کم اور ناکافی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یونیورسٹیاں اپنے خرچے پورا کرنے کے لیے مختلف قسم کے طریقے  ڈھونڈتی ہیں۔

(جاری ہے)


تین دن پہلے مختلف اخبارات میں ایک خبر  شائع ہوئی تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC) نےملک کے 150 یونیورسٹیز  کے وائس چانسلرز کے ساتھ مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں  سے BS اور اور ایسوسی ایٹ ڈگری نظام ختم (موخر) کیا گیا اوراس کی جگہ سابقہ BA/BSC اور MA/ MSC بحال کرنے کی سفارش کی ہے ۔

اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جلد جاری ہو جائے گا۔
یہ BS نظام بیرون ممالک میں عرصہ دراز سے نافذ العمل ہے تو پاکستانی طلباء جب بھی بیرون ممالک ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے جاتے ہیں تو وہاں دوبارہ ماسٹر کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہمارے ملک کے MA/MAC ان کے بی ایس کے مساوی نہیں تو اس وجہ سےہمارے ملک نے قومی تعلیمی پالیسی " 2009۔2010 میں ملک کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز سے  BA/BSC اور MA/MSC کی جگہ چارسالہ BS پروگرام کو لازم کردیا ۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس چار سالہ ڈگری پروگرام کا بہترین آغاز ہوا۔ اس میں کالجزبہت کٹھن حالات سے گزرے ہیں ۔تاہم بی ایس پروگرام کو جاری رکھا۔حالانکہ  کالجز میں بلڈنگ کی کمی،سٹاف کی کمی جیسی  مشکلات بھی سامنے آئیں۔  گذشتہ دس سال کے مُختصر عرصے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے118 میل اورفیمل کالجز نے BS میں اور 147 کالجز نے ایسوسی ایٹ ڈگری میں شاندار نتائج دیے۔


۔ BS کیا ہے ؟ اس کے فوائد کیا ہیں ؟
۔۔BS مخفف ہے بیچلر آف سائنس  یابیچلر آف سٹڈیز سے۔بی ایس FA اورFSC کے بعد چار سالہ
پروگرام ہے اس میں کل آٹھ سمسٹرز ہیں
یہ نظام تعلیم کافی  بہتر ہے  اس کی کئی وجوہات ہیں۔
یہ ریگولر تعلیم ہے اس میں پرائیویٹ امتحان کی کوئی گنجائش  نہیں اس میں طلباء وطالبات کو پرچوں کے علاوہ مختلف قسم کی سرگرمیاں جیسے حاضری، اسائنمنٹ ، کوئز  پرزینٹیشن سے گزرنا ہوتا ہے۔

کل چالیس نمبرات اپنے استاد کے پاس ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے طلباء اپنے اساتذہ کا احترام  کرتے ہیں۔
باقی ساٹھ فیصد متعلقہ یونیورسٹی جس کے ساتھ کالج کا الحاق ہوا ہے  کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ہر سمسٹر میں دو امتحان ہوتے ہیں پہلا امتحان جو کالج خود لیتا ہے اس کو مڈ ٹرم امتحان کہتے ہیں۔ دوسرا فائنل ٹرم امتحان جو متعلقہ یونیورسٹی خود لیتی ہے
گورنمنٹ کالجز میں غریب طلباء و طالبات کے لیے BS بہترین نظام تعلیم ہے ایک طالب علم کے  BS کے تمام سمسٹرز پر چالیس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

جبکہ ہاسٹل کے اخراجات کی بجت ہوتی ہے۔ وہیں  تعلیم یونیورسٹیوں میں بغیر ہاسٹل اور خوراک اس پر تقریبا تین لاکھ روپےخرچ ہوتے ہیں۔
کالجوں کی کثرت کی وجہ سے ہر علاقے میں طلباء وطالبات آسانی کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے تعلیم کی  شرح میں نمایاں  اضافہ ہوا ہے ۔ خصوصا طالبات کی تعلیم میں والدین بہت دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ زیادہ والدین چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں ہماری نگرانی ہی میں تعلیم حاصل کریں۔

اور اپنے ہی علاقے کے کالجوں آسانی سے یہ سہولت دستیاب ہوتی ہے۔
 اپنے ہی علاقے میں تعلیم حاصل کرنے میں ٹرانسپورٹ کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیاں لوکل علاقہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے طلباء و طالبات پر ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کا خرچہ اضافی بوجھ ہوتی ہیں تو کالجز میں BS نظام تعلیم غریب عوام پر اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بڑا انعام اور تحفہ ہے ۔


۔ BS نظام تعلیم طلباء و اساتذہ دونوں کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ اس میں دونوں  ہر وقت علمی کاموں میں مصروف رہتے ہیں BS میں ہر ٹیچر لیکچر کی تیاری کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے وہ مختلف کتابوں سے اپنا لیکچر تیار کرتا ہے۔ ٹیچر کے ذمہ کورس ختم کرنا ہوتا ہے ۔لہذا تو وہ روزانہ کلاس لینے کے لیے حاضر باش رہتا ہے یعنی BS  میں اساتذہ اور طلباء ہر وقت علمی مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔

  بی ایس کا نصاب بہترین نصاب ہے یعنی بہت علوم کا مجموعہ ہے۔ جیسے ہر ڈسپلن میں اپنے سبجیکٹ  کے علاوہ کچھ سمسٹر میں کمپیوٹر، انگلش،  میتمٹکس اور اسلامیات موجود ہیں۔
 دس سال پہلے BA/BSC اور MA/MSC دوران کالجوں میں جاب کرنا انتہائی آسان کام تھا کیونکہ اکثر چھٹیاں ہی چھٹیاں تھیں۔ طلباء پورے  سال دو تین مہینے حاضر ہوتے اور پھر کالجوں سے غیر حاضر رہتے تھے۔


آخر میں۔ میں اپیل کرتا ہوں خیبر پختونخوا کےسیکرٹری ہائر ایجوکیشن ،وزیرتعلیم کامران بنگش صاحب، وزیراعلی محمود خان صاحب ، چئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن،  وفاقی منسٹرہائیرایجوکیش جناب شفقت محمودصاحب اور جناب عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستانسے کہ خدا را تعلیم کی ترقی کے لیے سب متفق ہوکر پائیدار فیصلے کریں صوبہ خیبر پختونخوا کے اکثر کالجز میں حکومت نے BS کے لیے علیحدہ بلڈنگ،کمپیوٹرز لیب، ہر ڈیپارٹمنٹ کے لیے ضروری سازو سامان اور 19 سو لیکچررز بھرتی کرنے کے لیے اشتہار دیا ہے۔

آب ان سب مراحل طے کرنے کے باوجود BS نظام ختم کرنا اور اس کی جگہ پرانا پرسودہ نظام نافذ کرنا کیا عقل مندی ہے تو لھذا  BS ختم کرنے کا فیصلہ فی الفور واپس لیا جائے تاکہ طلباء، طالبات، والدین اور اساتذہ کی تشویش دور ہوجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :