بی او جی (بورڈ آف گورنرز) اور کالجز

جمعرات 9 ستمبر 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

اللہ تعالی نے ہمیں ایک پیارا ملک  عطاء فرمایا ہے لیکن آفسوس کہ ہمارے ساتھ اس نعمت عظمیٰ کی قدر  نہیں ہے۔  جغرافیائی لحا ظ سے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے اس کی آب و ہوا معتدل ہے ، ،پہاڑ سر سبزو شاداب ہیں  ،ہرے بھرے کھیت  ،میٹھے ٹھنڈے پانی کے چشمے، زیادہ دریا اور معدنیات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔  ان سب چیزوں  کے باوجود ہم ترقی سے محروم ہیں بلکہ قرض کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں سوال  یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟
ہر ملک کا عروج و زوال اس قوم کی تعلیم پر ہے  جس ملک کی قوم تعلیم یافتہ اور محنت کش ہو تو وہ ملک ضرور ترقی یافتہ ہوگا
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ بہترین نظام تعلیم کا فقدان ہے  مختلف نصاب تعلیم رائج ہے  نصاب جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہے نصاب تعلیم مادری زبانوں میں نہیں۔

(جاری ہے)

تعلیم کے ساتھ تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔
امتحانی نظام شفاف نہیں ہے جس میں نقل اور پرچے اپنے وقت سے پہلے اوٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں
کالجز  اساتذہ کے تبادلوں میں انصاف نہیں۔ بعض پرکشش کالجز میں سر پلس اساتذہ موجود  ہیں لیکن غیر پرکشش کالجز میں بعض سبجیکٹس میں سنگل ٹیچر بھی نہیں ہوتا  حالانکہ  اس کا نظام ڈائریکٹ اور سیکرٹریٹ ہائر ایجوکیشن  چلا رہا ہے جس میں سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین اور آفیسرز کام کر رہے ہیں پھر بھی میرٹ پر فیصلے نہیں ہوتے۔

ہر چیز کے لیے حکومت کی طرف سے واضح قوانین موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا قانون کا احترام نہ کرنے والوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ ان  وجوہات کی وجہ سے ہم تعلیمی ترقی سے محروم ہیں
یکساں نصاب تعلیم اور ادارے نہ ہونے کی وجہ سے مختلف طبقاتی ذہن کے افراد تیار ہو رہے ہیں حکومتی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں پھر وہ افراد پالیسیاں بناتے ہیں جس میں غریب لوگ کا خیال نہیں رکھا جاتا ان تمام مسائل کا حل ضروری ہے لیکن حکومت مزید مسائل پیدا کررہی ہے آج کل خیبرپختونخوا حکومت گورنمنٹ کالجز کو بی او جی کے تحت لانے کے لیے قانون بنا رہا ہے اس پر باقاعدہ کام شروع کیا گیا ہے وہ سب سے پہلا تجربہ جہانزیب کالج سوات پر کرنا چاہتا ہے حالانکہ سوات کے لوگوں کی برکت سے وزیر اعلیٰ کو یہ منصب ملا ہے۔


بی او جی ( بورڈ آف گورنرز) کو لاگو کرنا عوام کے مفاد میں نہیں اس سے غریب طلباء، اساتذہ اور دیگر ملازمین متاثر ہوں گے۔ کالجز میں  بی ایس پڑھنے والے طلباء جو ہر سمسٹر تقریبا چار ہزار فیس میں پڑھتے ہیں بی او جی کے بعد وہ کم از کم پچاس ہزار میں  پڑھیں گے ۔
گورنمنٹ کالجز میں ایسے غریب طلباء پڑھتے ہیں کہ وہ اپنے لیے نئے کپڑے، جوتے اور کتابیں تک خرید نہیں سکتے۔


   اس ملک میں کوئی بھی فرد ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام نہیں کرتا بلکہ ہر شخص کی کوشش ہے کہ  بس ملک کے خزانے اس ذاتی استعمال میں ائیں ہر ادارے میں پالیسیاں ساز جو پالیسیاں بناتے ہیں وہ عوام کے مفاد میں نہیں ہوتے بلکہ خاص افراد اس سے مستفید ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ  تعلیمی ادارے روز بروز زوال کی طرف جارہے ہیں ان کی پالیسیوں میں بہت نقائص پائے جاتے ہیں ۔

آب گورنمنٹ کالجز میں مفت تعلیم طلبہ حاصل کررہے ہیں بی او جی ہونے کی صورت میں طلبہ اداروں میں زیادہ فیس ادا کر یں گے جو غریب طلباء کے دسترس میں نہیں ہونگے اور ان پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ادارہ اپنا بجٹ خود پیدا کرے لیکن یاد رہے ہر ادارہ منافع کے لیے نہیں بلکہ بعض اداروں پر حکومت اپنے بجٹ کی خطیر رقم خرچ کرتی  ہے  اور وہ ادارے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں تاہم اگر وہی ادارے لوگوں کا خون چوسیں تو یہ حکومت کے لیے اچھی بات نہیں۔

حکومت ہر ادارہ عوام کے ٹیکس سے چلاتا ہے تن خواہیں ٹیکس سے ادا ہوتی ہیں سوال یہ ہے کہ اگر ہر ادارہ اپنا پیسہ خود کمائے تو پھر عوام سےبجلی بل،گیس بل،ادویات ،موبائل کارڈ، صابن ،شیمپو،اور دیگر ضروریات زندگی میں لیا گیا ٹیکس کہاں جارہاہے؟ یاد ماضی کے حوالے سے ایک اہم یاد دہانی یہ کہ حکومت وقت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس،گورنر ہاؤس،اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں عوام کے لیے یونیورسٹیاں بنیں گی  تو کہاں گئے  وہ وعدے؟ یہ وہ سوالات ہیں جسے حل کرنا ہر ذی شعور آدمی کے بس کاکام نہیں ہے  حکومتوں کی غلط پالیسوں اور بی او جی کی وجہ سے منافع بخش ادارے بھی نقصان کی طرف چلے گئے ۔


خیبرپختونخوا پروفیسرز لیکچررز کے زیر اہتمام  مختلف کالجز نے جہانزیب کالج سوات کو بی او جی میں دینے کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں۔
اس سلسلے میں مٹہ سوات میں  وزیراعلی محمود خان صاحب  کے گھر کے سامنے بھی ایک بڑا احتجاج  ہوا جس میں ملاکنڈ ڈویژن کے پروفیسرز ولیکچررز  شریک ہوئے ۔
ان سب ملازمین نے بی او جی کے خلاف نعرے بازی کی ۔

ان احتجاجوں میں کپلا کے مختلف عہدا داروں نے تمام کالجز کو پیغام   دیا کہ جب تک حکومت  بی او جی کا فیصلہ واپس نہیں لیتی تو صوبے کے تمام کالجز میں کلاسز سے بائی کاٹ ہوگا۔ ان خبروں کو تمام اخبارات، سوشل میڈیا اور خصوصا روزنامہ مشرق نے بہت کوریج دی۔
لہذا حکومت کو چاہئے کہ جہانزیب کالج اور دوسرے کالجز میں بی او جی دینے سے اجتناب کرے طلباء ، اساتذہ اور دیگر عملے کی  ذہنی پریشانی دور کی جائے ۔

کئے روز سے کالجز اساتذہ احتجاج پر ہیں حکومت کی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔  صوبائی اسمبلی میں ایم پی اے اختیار ولی صاحب نے بی او جی کو رکنے کےلئے تحریک التوا پیش کیا جو سپیکر صاحب نے بحث کے لیے منظور کیا تفصیلی بحث ان شاءاللہ دس ستمبر کو ہوگی لہذا میں اس کالم  کے ذریعے حکومتی اور اپوزیشن کے تمام ایم پی ایز سے التجا کرتا ہوں کہ غریب عوام کی خاطر کالجز میں  بی او جی کے خلاف متحد ہو کر اسمبلی فلور پر اس کو رجیکٹ کریں تاکہ غریبوں کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں
الحمد للّہ کالجز میں تعلیمی نظام  بہترین طریقے سے چل رہا ہے
صوبائی حکومت کالجز کی کار کردگیاں کو چیک کرے کہ وہ کم وسائل سے کتنے بچوں کو بہترین تعلیم دے رہے ہیں کتنے طلباء وطالبات میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کو چلے جاتے ہیں پھر ملک کے مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔


  اس لیے حکومت کالجز کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے مثلآکالجز میں سٹاف، فرنیچرز،لیب کا سازوسامان اور عمارتوں کی کمی فی الفور حل کی جائے تاکہ تعلیمی مسائل حل ہوں تب ہی موجودہ نوجوان علم حاصل کرسکیں گے حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی نظام کو مزید سستا کرے تاکہ علم حاصل کرنا بنایا جائے جس سے تعلیم کے دروازے بند ہوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :