کالجز کی نجکاری اور لاحق خدشات

ہفتہ 21 اگست 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

روئے زمین پر تقریباً دو سو ممالک آباد ہیں اس سارے ممالک کا اگر  جائزہ لیا جائے تو ترقی اور خوشحالی کے لحاظ سے وہ ممالک آگے ہیں جو علم و تعلیم میں آگے ہیں۔ کمزور ممالک تعلیم کی کمی کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔ اد کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم  سب سے بڑا سرمایہ اور ہتھیار ہے۔
آمریکہ سائنس وٹیکنالوجی،  میڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں اعلی پائے کی ترقی کر چکا ہے جو یہ سب تعلیم ہی کی مرہون منت ہے اور اسی وجہ سے دنیا کےسب سےطاقتور اور ترقی یافتہ ملک ہونے کا اعزاز اس کو حاصل ہے۔


ترقی یافتہ ممالک ہر قسم کی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں ان کی تعلیم میں یکساں نصاب ، تعیلم مادری زبان میں ، قابل اساتذہ ، بہترین ادارے اور سب سے اہم وجہ حکومت کی طرف سے زیادہ بجٹ مختص کرنا ہوتی ہے اور  ہر کام کے لیے  قابل منصوبہ ساز منصوبے تیار کرتے ہیں ہمارے ملک میں تعلیمی پالیساں عارضی بنیادوں پر بنے جاتے ہیں مستقل اور پائیدار منصوبے کسی بھی حکومت  نے نہیں بنائے ہیں۔

(جاری ہے)


خیبرپختونخوا کی پچھلی اور  موجودہ حکومت نے کالجز کو بورڈ آف گورنرز کے تحت لانے کے لیے  کئے دفعہ کوشش کی لیکن کالج اساتذہ نے بھر پور احتجاج کرکے وقتی طور پر حکومت نے بی او جی کو ملتوی کر دیا۔ بی او جی کیا ہے؟ اس سے طلباء، عوام اور اساتذہ کو کونسے نقصانات لاحق ہیں؟
بی او جی بورڈ آف گورنرز سا مخفف ہے یعنی تعلیمی اداروں میں بورڈ بنانا جو ادارے کو مالی،انتظامی اور تعلیمی لحاظ سے خودمختار بنا کر چلایا جاتا ہے۔


بی او جی خیبرپختونخوا کے کچھ بڑے بڑے ہسپتالوں میں کئی سال سے نافذالعمل ہےجس کی وجہ سے سینئر ڈاکٹرز نے استعفی دے دیا ہے۔ ان کی جگہ جونیئر ڈاکٹرز کو تعنیات کیا گیا۔ اس وجہ سے مریضوں کے علاج معالجے پر بہت اثر ہوا ہے ۔ اداروں کے بارے میں حکومت کی صحیح اور درست  پالیسی نہیں ہے وہ ہر ادارے کو پرائیویٹ کرنا چاہتی ہے پرائیوٹ کرنے کے بہت نقصانات ہوتے ہیں اس کی وجہ سے چند مخصوص افراد کو فائدے ہونگے باقی لوگوں کو سخت نقصان ہوتا ہے۔

حکومت ہر ادارے کو منافع بخش کرنا چاہتی ہے جو کہ ٹھیک پالیسی نہیں ہے ریاست میں تعلیمی ادارے منافع کے لیے نہیں بلکہ اس پر حکومت کو اپنے بجٹ سے خطیر رقم خرچ کرنا ہوتا ہے حکومتوں کے غلط پالیسوں اور نجکاری کی وجہ سے منافع بخش ادارے بھی نقصان کی طرف چلے گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں اہم پالیساں  بیرونی ممالک کے لوگ بناتے ہیں وہ کھبی یہ نہیں چاہتے  کہ پاکستان تعلیمی میدان میں ترقی کر سکے ۔

بی او جی کی وجہ سے ادارے زوال کی طرف گامزن ہوئے ہیں آپ ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کی طرف دیکھئے وہ روز بروز زوال کی طرف جارہی رہی ہیں ان پر حکومت نے اپنی گرانٹ بند کی ہیں اس وجہ سے یونیورسٹیاں مالی بحران کی شکار ہیں ان کے ملازمین  تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے اکثر احتجاج  کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں  حکومت  نے ان کو آزاد چھوڑے ہیں جس طرح طلباء سے فیس لیتے رہو  لیکن اپنے بجٹ کا انتظام خود کر تے رہو تو یونیورسٹیاں  طلباء سے دن بدن اپنی فیسوں  میں اضافہ کرتی رہی ہیں۔

یونیورسٹیاں مختلف طریقوں سے اپنے فنڈز میں اضافہ کرتی رہی ہیں چاہئے ٹھیک ہو یا غلط لیکن ان کی مجبوریاں ہیں آب ایچ ای سی نے ملک کے تمام یونیورسٹیوں کو حکم نامہ جاری کیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں بی ایس کے داخلے لینے کے لیے طلباء انٹری ٹیسٹ دینگے جن کا داخلہ فیس بارہ سو روپے ہیں تو اس سے ساڑھے دو ارب روپے آمدن ہونے کا تخمینہ ہے۔
اب حکومت نے صوبے کے تیس بڑے کالجز کو ماڈل کالجز میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے  بجٹ میں اس کے لیے رقم بھی مختص کیا ہے میرے خیال میں ماڈل کالجز بنانا بی او جی کی طرف قدم ہے حکومت یہ تجربہ جہانزیب کالج سوات پر کر نا چاہتی ہے۔

اس سلسلے میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے 16 اگست کو جہان زیب کالج کے پرائیویٹائزیشن کے لیے میٹنگ بلائی تھی معلوم  نہیں کہ انہوں نے کیا فاصلہ کیا ہے ۔ جہانزیب کالج سوات صوبے کا سب سے بڑا اور  ایک تاریخی کالج ہے اس میں ہزاروں کی تعداد طلباء و طالبات پڑھتے ہیں اس کے فارغ التحصیل افراد ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں جو عوام کی خدمت کر رہے ہیں اس کالج اور دوسرے سرکاری کالجز میں اکثر غریب طلباء و طالبات پڑھتے ہیں ۔

اگر حکومت نے جہانزیب کالج کو بی او جی دے دیا تو اس سے غریب عوام پر بہت برا اثر ہوگا  کالج کا انتظام ماہرین تعلیم کے بجائے غیر ماہرین تعلیم کے پاس چلا جائے گا جو کہ تعلیم کے لیے زہر قاتل ہونگے۔  طلباء و طالبات کی فیسوں میں اضافہ ہو جائیگا جس سے غریب طلباء وطالبات  پر تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے کیونکہ ابھی کالجز میں ہر سمسٹر کی فیس چار ہزار روپے ہیں نجکاری سے وہ فیس چالیس پچاس ہزار فی سمسٹر ہو گی جس کی ادائیگی غریب طلباء کے لیے بہت مشکل ہوگی۔

تمام ملازمین ریگولر سے کنٹریکٹ ہوجائیں گے اس وجہ سے قابل اور سنیئر ملازمین ریٹائرڈ ہوجائیں گے یا دوسرے ادارے کو چلے جائیں گے ۔ نجکاری سے ملازمین کے استحصال شروع ہونگا اور اس سے کوالٹی ایجوکیشن متاثر ہو جائیگا۔ جہانزیب کالج میں بی او جی لانے کی وجہ سے  صوبے کے تمام کالجز نے اس کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں۔ ان سب ملازمین نے بی او جی کے خلاف نعرے لگا دئیے ۔

خیبرپختونخوا پروفیسرز لیکچررز کی مرکزی صدر کے زیر اہتمام  جہانزیب کالج سوات سے احتجاجی ریلی نکال دی گئی جس نے پریس کلب سوات تک واک کیا اور وہاں پر صدر نے بی او جی کے خلاف پریس کانفرنس بھی کیا ۔
بعد میں کپلا کے صدر نے صوبہ کے تمام کالجز کو پیغام  دے دیا جب تک حکومت  بی او جی کا فیصلہ واپس نہیں لیتی تو صوبہ کے تمام کالجز میں مرحلہ وار احتجاج ہوگا  اس سلسلے میں 21 اگست کو وزیراعلی محمود خان کے گھر کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا ہے جس میں ملاکنڈ ڈویژن کے میل فیمل پروفیسرز ولیکچررز  شریک ہونگے ۔

لہذا حکومت کو چاہئے کے اس حساس مسئلے کو  مزید نہ چیڑا جائے۔ چونکہ  تمام تعلیمی اداروں میں دو سال سے کرونا وائرس کی وجہ سے طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اب آگر کالجز ملازمین نے  بی او جی پر احتجاج شروع کیا تو تعلیم نظام بلکل ویران ہو جائے گا ۔ حکومت کو چاہئے کے کالجز میں تعلیم بہت بہتر چل رہا ہے اس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کالجز میں سٹاف، فرنیچرز،لیب کے سازوسامان اور عمارتوں کی کمی فی الفور حل کرے تاکہ تعلیم کی کمی پوری ہوکر یہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :