ترقی کا زینہ قومی زبان

پیر 26 جولائی 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

آپ پوری دنیا کی ترقی یافتہ ممالک پر نظریں ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب ممالک نے ترقی بہترین نظام تعلیم کی وجہ سے کیے ہیں اور بہترین نظام تعلیم میں سب سے اہم وجہ تعلیم اپنی مادری یا اپنی قومی زبان میں دلانے سے ہوئی۔
جیسے جاپان،چائنہ، جرمنی،فرانس اور رشیا یہ سب ممالک تعلیم اپنے ہی زبان میں دیتی ہیں وہ دیگر اقوام کی زبانیں پسند نہیں کرتے خاص کر انگریزی زبان سے وہ نفرت کرتے ہیں اور جو بولتے ہیں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیوں کہ ترقی اپنے ہی زبان میں  ہو سکتی ہے دوسروں کی زبانیں ترقی میں روکاٹ ہوتی ہیں۔


تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں نے سپین فتح کیا تو وہاں تمام سائنسی علوم لاطینی زبان میں تھے مسلمانوں نے وہ تمام علوم لاطینی سے عربی زبان میں ترجمہ کیے پھر جب مسلمان مغلوب ہوئے تو وہ کتابیں انگریزوں کے کنٹرول میں آئیں اور انہوں نے یہ کتابیں عربی سے انگریزی زبان میں منتقل کیں۔

(جاری ہے)


برصغیر پر انگریز قوم نے تین سو سال سے زیادہ  حکومت  کی تھی اب وہ موجود نہیں لیکن ان کی سوچ والے افراد ابھی تک موجود ہیں وہ انگریزی بولنے اور لکھنے والے کو بہت معقول  افراد میں  شمار کرتے ہیں ان لوگوں کی مادری زبان اور قومی زبان اردو سے نفرت ہوتی ہے یہی سوچ رکھنے والے مخصوص ٹولے ملک کے اعلی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں وہ اپنے مفادات کی خاطر ہروقت ملک کو ترقی کی طرف گامزن نہیں ہونے دیتے انہوں نے اس ملک میں پر طبقاتی نظام تعلیم مسلط کیا ہے  یہاں امیر لوگوں کے لیے الگ سکولز وکالجز  جبکہ غریب لوگوں کے لیے الگ ادارے دونوں کے نصاب میں زمین وآسمان کا فرق موجود ہیں۔

غریب کے بچے اردو میڈیم میں پڑھتے ہیں یہی بچے میٹرک کرنے کے بعد انگلش میڈیم  میں چلے جاتے ہیں تو وہاں  اردو انگریزی دونوں زبانوں کی تعلیم میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے۔
سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم سے ترقی ممکن ہوتی ہے ہمار ی سائنس کی کتابیں انگریزی میں ہیں اس میں طلبہ کےلیے  بہت مشکلات  ہوتی ہیں کیونکہ انگلش زبان پر عبور حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم جس علم کے بارے میں ہوتی ہے وہ ادھوری  رہ جاتی ہے ۔

 
یہی وجہ ہے کہ ہم دیگر اقوام سے ترقی میں پیچھے ہیں کہ ہماری تعلیم اپنی مادری یا قومی زبان  میں نہیں۔  
ہر حکومت یکساں نصاب تعلیم اور اردو کی ترویج و ترقی کے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقی جامہ کوئی نہیں پہناتا  فقط دعوے ۔
کچھ دن پہلےوزیر اعظم آفس کے اعلامیے کے مطابق ایسی تمام تقریبات جس میں وزیراعظم شریک ہوں اردو زبان میں منعقد کی جائے گی۔

۔
ہماری ترقی اردو کے ساتھ وابستہ ہے ابھی دیکھا جائے گا کہ اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا یا پہلے کی طرح یہ حکم نامے پس پشت ڈال دیے جائیں گے۔
سنہ2003 میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت تھی انہوں نے تمام سرکاری اداروں کو حکم نامہ جاری کیا تھا کہ تمام دفاتر میں خط وکتابت اور حکم نامے اردو زبان میں لکھے جائیں گے ۔ مجھے یاد ہے اس وقت اس پر عمل بھی شروع ہوا تھا لیکن جب ان کی حکومت  ختم ہوئی تو دوبارہ انگلش پر عمل درآمد شروع ہوا ۔


سنہء2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اردو کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ تمام فیصلے اردو میں لکھے جائیں گے لیکن آفسوس  کہ سپریم کورٹ خود اس پر عمل نہیں  کرتی ۔
پاکستان میں مختلف قسم کی زبانیں بولی جاتی ہیں  جن میں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی،ہند کو، کوہستانی،چترالی، گوجری اور کشمیری زبانیں شامل ہیں لیکن ہر شخص کے لیے اتنی زیادہ  زبانیں سیھکنا ایک مشکل امر   ہے۔

اسی لئے لوگ  اردو زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بوقت ضرورت  ایک دوسرے کے ساتھ کلام کرسکیں۔
اردو کی اہمیت  اس وقت معلوم  ہوتی ہے جب آپ  علمی کتابوں کی دکان پر جائیں وہاں بڑی تعداد میں یعنی  ہر موضوع پر  اردو زبان  میں کتابیں دیکھنے کو ملیں گی۔
اُردو دنیا کے مختلف ممالک میں بولی جاتی ہے جیسے پاکستان ،بنگلہ دیش ، ہندوستان ،متحدہ عرب امارت، مسقط سعودی عرب اور یورپی ممالک میں کافی لوگ  اردو بولتے ہیں اسی طرح مختلف ممالک میں اخبارات، رسائل وجرائد شائع  ہوریے ہیں اور سیکڑوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز  بھی اپنی نشریات باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگ اس سے  مستفید بھی ہو رہے ہیں۔


لہذا میں اپیل کرتا ہوں پاکستان کے ہر طبقے سے کہ خدا را اس ملک پر رحم کریں اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر قسم کی محنت کی جائے اردو ہماری قوم زبان ہے اسی وجہ سے اس کو ترقی دی جائے ۔  اردو کو عملی طور پر سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرکے تمام خط وکتابت اور حکم نامے اردو ہی میں جاری کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ اس ملک کی ترقی کا سفر شروع  ہوسکے ۔ اردو فنی وغیر فنی سب تعلیمی اداروں میں اول جماعت سے لے کر ماسٹر تک اسے لازمی  مضمون  کا درجہ دیا جائے  تمام تعلیمی اداروں کا نصاب  اردو میں کیا جائے تاکہ طلبہ صحیح طور سے سمجھ بوجھ حاصل کرکے ملک کی ترقی کا ذریعہ بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :