باجوڑ ڈیم میں کشتی ڈوبنے کا سانحہ

بدھ 28 جولائی 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

عیدالضحی کے پہلے روز  راغگان ڈیم ضلع باجوڑ  میں کشتی ڈوبنے سے کئے افراد موت کے منہ میں چلے گئے  یہ خبر سن کر  علاقے  کا فرد فرد اشکبار اور غمزدہ ہوا عید کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوگئیں کئی روز گزرے کے باوجود بعض لاشیں ابھی تک لاپتہ ہیں ریسکو کے تجربہ کار  غوطہ زن ٹیمیں تشکیل دی گئیں جنہوں نے باقاعدہ آپریشنز کئے لیکن تاحال ان کو کام یابی نہیں ملی۔

غم زدہ گھرانے  لاشوں کے حصول کے لیے تڑپ رہے ہیں اسی طرح عید سے ایک روز پہلے ڈیرہ غازی خان میں ایک بس اور ٹرک کا خوفناک تصادم ہوا جس سے پنتیس مسافر فوت ہوئے وہ بد قسمت مسافر  عید کی خوشیاں منانے کے لیے اپنے پیاروں کے پاس جارہے تھے
سوال یہ ہے کہ یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ان واقعات میں کون قصور وار ہے ؟ آئندہ ہم اس طرح کے واقعات سے  کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
ہر واقعہ کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں  لیکن ان تما م  واقعات میں ایک سبب مشترک ہے اور وہ بےاحتیاطی ہے دو سال پہلے جولائی 2019 میں تربیلہ ڈیم میں کشتی ڈوب گئی تھی  اس میں بھی پنتیس افراد لقمہ اجل بنے تھے باجوڑ  اور تربیلہ دونوں  میں ایک جیسے اسباب موجود ہیں یعنی دونوں  کشتیوں میں اپنے مقررہ حد سے زیادہ افراد سوار تھے ۔

(جاری ہے)

اسی طرح عید سے ایک روز پہلے ڈیرہ غازی خان میں دو بڑی گاڑیوں کا تصادم  ہوا میرے خیال میں وہ بھی زیادہ لوڈنگ اور سپیڈ کی وجہ سے ہوا  سوال یہ ہے کہ حکومت نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات و قانون سازی کی ہے تربیلہ ڈیم کا سانحہ کے بعد حکومت نے کشتی مالکان اور ملاحوں  کے لیے کیا کیا ہدایات و اصول اور قواعد جاری کئے؟ کیا یہ اصول نافذ العمل  ہیں؟۔

بے ہنگم ٹریفک، سپیڈ اور زیادہ لوڈنگ کے لیے حکومت نے کون کونسے قوانین بنائے ہیں؟ اگر بنائے ہیں تو نافذ العمل کیوں نہیں ہیں۔ اس ملک میں ہر سانحے کے بعد حکومتی اہلکار  آکرالفاظ سے متاثرین کے ساتھ اظہار غم  کرکے چلے جاتے ہیں بس رات گئی بات گئی۔ اور بعض اموات میں ورثا کے ساتھ مالی امداد کی جاتی ہے۔لیکن اس کی روک تھام کے لیے کوئی بھی مستقل حل تلاش نہیں  کیا جاتا۔

  سارے پاکستان میں ایک ایک دن میں کتنی اموات بے احتیاطی سے ہوتی ہیں۔اب ان اموات سے ان کے خاندان کے لیے کتنے مسائل جنم جاتا ہے ان واقعات سے کتنے بچے یتیم اور خواتین بیوہ  ہوئیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس میں غلطیاں کس کس کی ہوتی ہیں؟ ایسے واقعات و سانحات میں زیادہ لوگ شریک ہوتے ہیں سب سے پہلے ہمارے نظام تعلیم میں تربیت کا فقدان  ہے نصاب میں قوانین کے احترام، اداروں کے احترام،  حکومت اور عوام کے احترام کے بارے میں کوئی صحیح مضامین موجود نہیں اور نہ اساتذہ بچوں کو  نصاب کے علاوہ اس طرح کی رہنمائی اصول اور قوانین  بیان کرتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہر شخص ملک کے قوانین اور اصول کا احترام کرتا ہے اگر کوئی شخص قانون توڑے  تو دوسرے افراد حکومتی ادارے کو اطلاع دیں  کہ فلاں شخص نے فلاں غلط کام کیا ہے مثلاً کشتی میں بٹھانے سے پہلے اس کے جیکٹ دیئے جائیں اگر ایسا نہیں کیا جائے تو حکومتی ادارے فورا اس کی گرفتاری کے لیے سرگرم عمل ہوں اور سزا دی جائے ۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ قوانین  اعلی عہدوں پر فائز افراد توڑتے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں بڑے لوگوں کے خلاف پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتے اگر ایف آئی آر درج ہوجائے تو کوئی اس کو پکڑتا نہیں اس ملک میں قوانین کا احترام غریبوں کے لیے ہوتا ہے۔

  یہاں عوام میں شعوروآگہی موجود نہیں۔ والدین کی طرف سے بھی بچوں کی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی عادات واخلاق  متاثر  ہیں  ہر سال پندرہ سے پچیس سال کے بچے ہزاروں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں کے حادثات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں پھر بھی والدین اپنے چھوٹے بچوں کے لیے بہ وجہ محبت موٹر سائیکلیں خریدتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے واضح قوانین موجود نہیں اگر موجود ہیں تو اس پر عمل درآمد نہیں حکومت کو چاہیے کہ ہر ادارے کے لیے واضح پیغام جاری کرے کہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں لوگوں کو شعور و آگہی دے باقاعدہ  تربیت کے حوالے سے جگہ جگہ بڑے بڑے سیمنارز کا انعقاد کیا جائے۔

  اس میں لوگوں کو شعور و آگہی دی جائے۔
ہرشہری،  ہر ادارہ اور حکومت کو چاہئے کہ مشترکہ طور پر   اپنی اپنی  ذمہ داری پہچان لیں۔ والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت کر یں سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں حکومتی قوانین کا احترام کا درس دیا جائے۔
حکومت  کو چاہیے کہ تمام محکموں کو حکم نامہ جاری کرے  کہ ہر محکمہ اپنی اصلاح خود کرے ۔

محکمہ ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ فعال کیا جائے  پرانے بوسیدہ گاڑیوں کا معائنہ کیا جائے جو گاڑیاں قابل استعمال نہ ہوں تو ان کو روڈ پرچلنے کی اجازت نہ دی جائے زیادہ تر پرائیویٹ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں  کی بسیں بہت پرانی ہو چکی ہیں وہ حادثات کا باعث بنتی ہیں ان پر پابندی لگائی جائے۔ کشتیوں کے مالکوں اور ملاحوں کے لیے قانون سازی کی جائے کہ کشتیوں میں مقررہ کردہ افراد سوار کرنے کا پابند بنایا جائے  زیادہ افراد سوار کرنے پر سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔

ہر قسم کے ٹرکوں کو مقررہ وزن لے  جانے کا پابند بنایا  جائے۔ ماربل کے بڑے بڑے پھتر بغیر باڈی کے ٹرکوں میں لے جانے پر پابندی لگائی جائے۔ اس سے بھی بہت حادثے پیش آتے ہیں۔ گاڑیوں کی تیز لائٹس پر پابند لگایا جائے وہ بھی حادثوں کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان لائٹوں  کے فروخت  پر پابند لگائی جائے ۔ گاڑیوں کی باڈیوں کے باہر چیزیں نکالنے  پر پابندی لگائی جائے۔

کم عمر بچوں کے موٹرسائیکل چلانے پر پابندی لگائی جائے۔
بڑے بڑے روڈوں  کے  قریب گھروں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے اور جو پہلے سے موجود ہوں تو روڈ کے کناروں پر حفاظتی باڑ لگائی جائے تاکہ جانور، بچے، اور دیگر افراد گاڑیوں کی ٹکر سے محفوظ ہوں  ۔جہاں گنجان آباد علاقے ہوں تو وہاں پر روڈ کراس کرنے کے لیے ہوائی پل تعمیر کیا جائے۔ ان شاء اللہ ان تجاویز پر عمل درآمد ہوجائے تو ہم بہت سےحادثات سے محفوظ  ہو سکیں گے۔ اللہ تعالی  ہمارے حامی اور ناصر ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :