سرگرم ماہ و مہر۔۔۔۔سفر زندگی

جمعہ 18 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

زندگی امید، جدوجہد اور استقامت کا نام ہے، انسان کو زندگی و آخرت کا مفہوم سمجھانے کے لیے قرآن مجید کی واشگاف ہدایت کے ساتھ ،اللہ تعالیٰ نے مظاہرے فطرت کو بھی عیاں کر رکھا ہے، جب یہ سفر شروع کیا جاتا ہے تو زندگی میں کئی طرح کی نفیساتی، روحانی، ظاہری اور دیگر مشکلات درپیش رہتی ہے، وہ بھی لمحات آتے ہیں کہ انسان اداس، مایوس، بے تاب اور شش وپنج کا شکار ہو جاتا ھے ایسے میں اللہ کی رحمت، مظاہرے فطرت اور شکر گزاری بڑی معاون ثابت ہوتی ہے، مظاہرے فطرت میں  اگرچہ کہ اللہ تعالیٰ  ہرچیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے کہ وہ سورج اور چاند کا طلوع ہونا بند کر دے ، لیکن انسان کو بڑا پختہ یقین ھوتا ھے کہ کل سورج طلوع ھو گا، صبح ھو گی، رات کے بعد دن ھوگا، اسی طرح انسان اگر زندگی کی مشکلات، پریشانیوں، مصائب و الام اور اداسی و مایوسی پر نظر ڈالے تو یہ بھی فطری عوامل ہیں اور بدل جاتے ہیں جیسے رات کے بعد دن آنا فطرت ھے، ویسے ہی دکھ کے بعد، تکلیف کے بعد آسانی بھی، فطرت ھے، وہ بھی آتی ہے، صبر کو اپنے مفہوم کے ساتھ سمجھنا ھو تو وہ  صرف زندگی کی بحالی کا نام ہے کہ آپ خوشی کے ساتھ پھر سفر پر رواں دواں ھو جائیں، سورج کے طلوع ہونے کا یقین ھے، تو اس کی اب وتاب کے ساتھ، مستقل مزاجی سے سفر جاری رکھنے کے عمل کو دیکھیں،  منزل ملتی اور پیچھے بھاگتی رہتی ہے،  چلنے کا نام زندگی ھے اور یہ سفر ازل سے شروع ھے، ایک منزل سے دوسری منزل اور پھر حشر تک کا سفر ایک تسلسل ہے، انسان اسی لیے۔

(جاری ہے)

عظمت اور فضیلت کے مقام پر ھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وہ تخلیق ہے جو خالق کے حکم پر محو سفر ھے، اس سفر میں استقامت ھے، صبر ھے اور شکر ہے، یہ معمولی عمل نہیں ھے بلکہ بجا طور پر اصل اور بڑا عمل ھے بعض دفعہ ھم یقین کا مفہوم نہیں سمجھ پاتے، جس کے لیے مثال موجود ہے کہ جس طرح سورج نکلنے اور صبح ہونے کا یقین ھے کم از کم اتنا یقین تو رکھا جائے گا پھر ازل سے یہ چاند، سورج، ستارے، سورج اور دن و رات اللہ کے حکم کے مطابق محو سفر ہیں تو انسان کیوں نہیں اس سفر کو اسی استقامت سے جاری رکھ سکتا ،  اگر چہ اندھی ھو،  طوفان ھو، درد اور تکلیف ھو خوشی ھو اپنے مالک کے حکم کے مطابق سفر کیوں نہیں جاری رکھ سکتا؟ خاص کر اب سال ہا سال گزرنے کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا، ارد گرد رہنے والے کمزور مسافروں کو ساتھ لے کر چلیں گے تو یہی چیز انسان کو دوسرے مظاہرے فطرت سے ، دوسری مخلوقات سے اور خاص کر صرف اپنے لئے رہنے والے جانداروں سے ممتاز کرے گی، نماز کو ہی لے لیں اس میں بھی استقامت اصل عمل ھے، تکلیف میں صبر اور عظیم بناتا اور شکر کرنے سے عظمت کے مینار پر فائز کرتا ہے، جتنا انسان اپنے مالک کے سامنے جھکتا جاتا ہے، اتنا وہ عظیم ھوتا جاتا ہے، بدقسمتی سے انسان اپنی فطرت کے مخالف چلتے ہوئے تکبر اور غرور کا شکار ھو جاتا ھے جو اسے اور پست سے پست تر کرتا رہتا ہے، یہی عمل آج انسان کا بڑا چیلنج بن چکا ہے، تکبر نے انسان سے اس کی عظمت چھین لی، حسد نے نیک عمل جلا دیا، بغض و کینہ نے محبت کی جگہ نفرت اور تعصب کا بیج بو دیا، انسان تقسیم در تقسیم ہوتا گیا، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا، جو اسے کمزور کرتے کرتے  تنہا کرتا جاتا ہے، ایسی صورت میں وہ شیطان کا  آسان ھدف ھوتا ھے،  وہ اس کے مختلف حیلے بہانوں سے سہارا دینے کی رغبت دیتا ہے، مایوس اور دل برداشتہ انسان کوئی بھی قدم اُٹھانے لگتا ہے، ایسے میں توبہ کے دروازے پر دستک ضروری ہوتی ہے انسان دستک دینے کی۔

بجائے عارضی سہارے تلاش کرتا ہے جو اسے کچھ دے نہیں پاتے مایوسی اس کی نعمت زندگی چھین لے جاتی ہے، انسان جو سرگرم ماہ و مہر کا عکاس ہوتا ھے، وہ ٹھہر گیا، رک گیا، سکون ڈھونڈتے ڈھونڈتے ، بے سکون ھو گیا، مایوسی اور بے یقینی نے جنم لیا، زندگی کا یہ سفر رک گیا جاتا ہے۔۔۔ اس زندگی میں امید کا دامن کبھی ھاتھ سے نہ جانے دیں، یقین اپنائیں، اور صبر و استقامت کے ساتھ سفر جاری رکھیں، تسلسل سفر ھی زندگی ھے، کاش ھم یہ سیکھ لیں ، سمجھ لیں، " کون ہے جو دن کے بعد رات، اور رات کے بعد دن لاتا ہے" اس مالک کو پہچانیں، وہ آپ کا ھے، قریب ہے پکاریں، وہ پکار سنتا ہے، وہ ستر ماؤں کی محبت  سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، اس کو چھوڑ کر ھم کہاں جا سکتے ہیں۔

مہار اس کے ھاتھ میں ھے، اللہ تعالیٰ ھمارا حامی وناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :