لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!

منگل 8 فروری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

 ایک سحر تھا، سات سر تھے اور لتا کا گلہ تھا جس نے اربوں انسانوں کو اپنی آواز کا دیوانہ بنا  دیا لتا نے 100 سالہ بھارتی فلم کی صدی پر کہا تھا کہ"ان سو سالوں میں 70 سال میرے یعنی لتا کے ہیں" سات آسمان، سات سر  باقی مگر سات دہائیوں کا یہ سفر  جاری  ہے مگر لتا کا ایک سفر  6 فروری 2022ء کو اختتام پذیر ہوا، لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء میں پیدا ہوئیں اور  13 سال کی عمر سے اداکاری اور گلوکاری شروع کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے گانے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا، کلاسیکی موسیقی اپنے والد سے سیکھی، لتا کی دوسری بہنیں بھی موسیقی سے وابستہ ہیں مگر لتا کا متبادل کوئی بھی نہیں، لتا کی زندگی میں نوشاد اور میڈم نور جہاں سے گہرا رشتہ تھا، نوشاد نے لتا جیسے ھیرے کو تراشا تو سند میڈم نور جہاں نے عطا کی، انہوں نے پہلا تعارف میڈم نور جہاں سے کرایا ، بچپن میں نور جہاں نے ان کا گانا سن کر کہا کہ اچھا گایا ہے، ریاض جاری رکھیں، بڑی گلوکارہ بنیں گی، خود لتا کہیتی تھیں کہ میرے والد نے میری کنڈلی دیکھ کر کہا تھا کہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچو گی، لیکن تمھاری شادی نہیں ھو گی، یہ پیشگوئی سچ ثابت ھوئی، لتا نے شہرت پائی مگر شادی نہیں کی، کہتی تھیں شادی کے بغیر زندگی مکمل نہیں ھوتی لیکن ذھنی ھم آہنگی کے بغیر شادی نہیں کرنی چاہیے،
  اکثر یہ بحث ھوتی ھے کہ موسیقی روح کی غذا ھے کہ نہیں، مگر لتا، محمد رفیع، میڈم نور جہاں اور مہندی حسن نے یہ بحث ختم کر دی اور ایسا گایا کہ روح کی غذا ماننے والے ھوں یا نہ ماننے والے ان کو ضرور سنتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روح کی غذا میں موسیقی کا گہرا اثر موجود ہے، اچھی موسیقی کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی بڑی تحقیق اور موقف موجود ہیں، سریلی آواز، اور فطرت کے قریب تر کرنے والے اشعار تخیل کی وہ دنیا ھے جہاں انسان اصل سے قریب تر محسوس کرتا ہے، امیر خسرو کے دیس میں سر بکھیرنے والے ان گنت افراد آئے اور کلاسیکل رنگوں کو اپنی سریلی آواز سے مدھر گیتوں میں بدل دیا، اس شور اور ھنگامے میں لطیف احساسات کی ترجمانی کرنے والوں میں لتا منگیشکر کا نام بلندیوں پر ھے اور صدیوں اس کے اثرات معاشرے میں رہیں گے، انکار کرنے والے بھی محبت سے سنتے اور گاتے ہیں، نور جہاں ،استاد بڑے غلام علی خان اور نوشاد سے اکتساب فیض حاصل کرنے والی لتا منگیشکر نے ساری زندگی ان سروں کو دے دی، لتا اسم با مسمی بھی ہیں، لتا سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ایک ایسی بیل کے ہیں جو زمین کو گھیر لیتی ہے، اس کی عکاسی لتا نے خوب کی اور اس اکاس بیل سے برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کو گھیر لیا، بلکہ اس کا ڈنکا چار وانگوں بجتا رہا جس کے اثرات ایک صدی سے زیادہ رہیں گے، شرمیلی اور سادگی کا پیکر لتا غربت میں آنکھ کھولنے کے باوجود شہرت کی بلندیوں پر پہنچی یہ دوسروں کے لیے مثال اور رہنمائی ھے، فن اور فنکار کو کسی دیوار میں قید نہیں کیا جا سکتا،
اے میرے دل ناداں تو غمِ سے نہ گھبرانا۔

(جاری ہے)

۔
بنتی ھے تو بن جائے یہ زندگی افسانہ۔
نور جہاں نے گایا تو لتا نے بھی اسے چار چاند لگا دئیے محمد رفیع، نوشاد اور اکیلے بھی گا کر فلمی دنیا، کلاسیکل موسیقی سننے والوں اور نئے گانے والوں کو بڑا اثاثہ عطا کیا،  یہ سفر ، یہ سر اور 70 سال سے زائد ھزاروں بے مثال گیتوں کی ملکہ 92 سال کی عمر میں عدم کے سفر پہ روانہ ھوئی جس کو صدیوں یاد رکھا جائے گا، ان کے ساتھ ہی بڑے گانے والوں کا آخری مسافر بھی رخصت ہوا، مگر اس کے گیت ھمیشہ کانوں میں رس گھولتے رہیں گے، اور فطرت کے احساسات کے قریب تر رکھیں گے۔
تجھ سے ناراض نہیں ہوں زندگی حیران ھوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ھوں میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :