
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022

پروفیسرخورشید اختر
معیشت کی تباہی اور مہنگائی کی وجہ سابق حکومت ھے یا موجودہ، یہ سوال اہم نہیں، سوال اہم یہ ہے کہ یہ کیسے ختم کی جا سکتی ھے اور کون ختم کرے گا؟ اس سوال کا جواب آج اپوزیشن بھی بتائے اور حکومت بھی؟ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ تیل کی قیمتیں اور درآمدات ہیں، ان دو کو کیسے اور کس نے ختم کرنا تھا ؟، حکومتوں کا کام ھوتا ھے کہ برآمدات ، سرمایہ کاری اور تجارت کو بڑھائے اور چوتھا بڑا کام ، ملکی ذخائر کی دریافت ھوتا ھے، یہ چار چیزیں سامنے رکھ کر تمام حکومتوں کا تجزیہ کر لیں سب کو سمجھ آ جائے گا کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے، اور کس کا کیا قصور ہے،
پاکستان میں حکومتوں کی نااہلی یہ ہے کہ انہوں نے 1960ء کے بعد درآمدات کو فروغ دیا اور برآمدات کے لیے ملکی زرعی، صنعتی اور کاروباری ترقی میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا، اور نہ ہی توانائی کے حصول کے لیے، سستی بجلی ، ڈیم بناننے اور متبادل ذرائع پر کوئی منصوبہ بندی کی گئی، جو معاہدے آئی پی پیز سے کیے یا منصوبے لگائے، ان منصوبوں سے آئی پی پیز سود سمیت منافع بٹور رہی ہیں، ڈیمز بنانے کو تو چھوڑیں، ایک لائنسنس تک توانائی کی دریافت کے لیے نہیں دیا گیا مقصد یہ تھا کہ چیزیں باہر سے لی جائیں اور اپنا کمیشن نکالا جائے، اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر عوام کو سبسڈی دی جائے، تاکہ سیاست بھی باقی رہے! یہ سب کس لئے تھا کہ سیاست بھی چلتی رہے اور اپنا کاروبار بھی کیا اس طرح مہنگائی دور ھو سکتی تھی؟ جب ہر چیز درآمد کرنی ہے تو پھر مہنگائی تو ھو گی، جب یہ سب آپ نے کر دیا چلیں ٹھیک ہے اس صورت میں حکومت کا کام ھوتا ہے کہ فی کس آمدنی بڑھائے، صحت، تعلیم اور روزگار میں اضافہ کرے تاکہ عوام مہنگائی کا بوجھ برداشت کر سکیں، یہ کس نے نہیں کیا؟ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں،
کورونا کے بعد تو یہ سب مشکل تر تھا کہ کاروبار، روزگار اور تجارت بڑھے مگر اس کے باوجود پاکستان کی برآمدات میں 26 فیصد تک اضافہ ھوا، ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے کے لیے لائنسنس جاری کیے گئے ، بڑے ڈیموں پر کام شروع ھے اور آئی پی پیز سے تمام معاہدوں کی تجدید کی گئی ہے، ان بڑے کاموں کو صبر کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اس کے علاؤہ مہنگائی کا کوئی حل نہیں، اگر اپوزیشن یا کسی فرد، دانشور، معیشت دان اور کسی ارسطو کے پاس ھے تو آئے ھم کندھوں پہ اٹھا دیں گے، بلکہ پوری قوم آپ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے، دیر نہ کریں،
پورے ملک میں کاروبار، کارخانے اور حتی کہ بجلی بھی تیل سے بنائی جاتی ہے، ہر قیمتی چیز درآمد کی جاتی ہے، جن میں سب سے آمدنی چلی جاتی ہے، اب اس علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ قرض یا مہنگائی سے ملک چلایا جائے اور ساتھ مشکل فیصلوں سے برآمدات، پیدوار اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے آخری تین کام تیزی سے گو رہے ہیں، جن کے لئے نقصان تو اٹھانا پڑے گا، میں ہرگز حکومت کی حمایت میں بات نہیں کر رہا یہ میرا مشاہدہ اور دیکھ کر اظہار ھے، کیا ھم مہنگائی سے متاثر نہیں ھو رہے، 2008ء میں اسی تسلی کے ساتھ میاں نواز شریف صاحب کو ووٹ دئیے تھے، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ اتنے سنگین معاہدے، اور ڈھیروں قرضے لیں گے!
ھماری ساری معیشت کا دارومدار تیل پر ھے جو اس وقت عالمی منڈی میں 94 ڈالر فی بیرل ھے، ایک بیرل میں 159 لیٹر ھوتے ہیں، جس کو آپ کلکولیٹ کر لیں، یہ یاد رہے کہ یہ تیل جو ھم درآمد کرتے ہیں ، کروڈ شکل یعنی خام تیل ھوتا ھے جسے ریفائن بھی کرنا ہے، کل ملا کر پٹرولیم لیوی، ٹیکس فی لیٹر، آئل کمپنیز کا مارجن، امپورٹ کرنے کا کرایہ، ایل سی، انشورنس، ریفائنگ اور وارفیچ چارجز دینے ہیں، جو بآسانی 160 روپے تک پہنچ جاتے ہیں اس میں زیادہ سے زیادہ گورنمنٹ سبسڈی دے سکتی ھو تو صرف ٹیکسز میں چھوٹ دے سکتی ہے، بجلی، پانی، گیس اور صنعت و زراعت سب تیل کی وجہ ھے، کون کہاں اور کیا معاف کر سکتا ہے اور کہاں چھوڑ سکتا ہے خود ملاحظہ فرمائیں، ھم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہر چیز کا ادراک ہونا چاہیے کہ کون کیا کر سکتا ہے، آج اپوزیشن حکومت کے خلاف صف بندی کر رہی ہے تو یہ ضرور سوچے کہ یہ مہنگائی ختم کرنے کا کوئی لائحہ عمل دیں، اس طرح بات نہیں بنے گی، قابل عمل لائحہ دیں، ایک مرتبہ عمل کرکے دکھائیں ھم ساری زندگی آپ کے پوتوں کو بھی ووٹ دیں گے، وہ عمران خان ھوں، شہباز شریف یا مریم نواز ھوں یا مولانا اور بلاول بھٹو، کوئی بھی ھو جو مستقل بنیادوں پر قرض سے جان چھڑائے اور معیشت کو مستحکم کر دے، معاشرت کو بااخلاق بنا دے، ریحام خان یا کسی کی کتابیں نہ بانٹتے پھریں، سب کو سب بھگتنا پڑے گا، کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل ھے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.