نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟

ہفتہ 29 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

 پاکستان میں بہت سی سیاسی جماعتوں کے کارکن، مذھبی سیاسی جماعتیں ، متعدد تھینک ٹینکس اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس بات پر متفق ھے کہ موجودہ نظام ڈیلور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ فرسودہ نظام اور قوانین کو بدلا جائے تو بہتر تبدیلی لائی جا سکتی ھے، بعض لوگ جن کی تعداد بہت محدود ھے کہتے ہیں کہ ایک انقلاب لایا جائے ،جو چاہے خونی انقلاب ھو یا سبز و سفید، مگر اس کے بغیر کچھ بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا، وہ لوگ یا مایوس ہیں یا کنفیوز، یہ انہیں خود بھی معلوم نہیں، میری ایک رائے ہے کہ 1996ء سے پہلے تک یہ حالات تھے کہ ایک بڑے عوامی انقلاب کے بعد ملک میں کسی تبدیلی کی بنیاد رکھی جاتی مگر اب ملکی اور نہ ہی بین الاقوامی حالات اجازت دیتے ہیں کہ کسی خونی انقلاب کے بعد ملک کی باگ ڈور کسی انقلاب انگیز حکومت کے حوالے کی جائے، دنیا اپنے مفادات اور سسٹم میں رہتے ہوئے جدوجہد کرنے والوں کو تو تسلیم کر سکتی ہے مگر کسی سرخ یا سبز انقلاب کو ھضم نہیں کر سکتی، اس لئے ملک میں رائج قانون و آئین کے ذریعے ہی تبدیلی کی کوشش زیادہ فائدے مند ہے، بنیادی طور پر مالیاتی، انتظامی، انتخابی اور فوجداری و دیوانی قوانین میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، اول خود بیوروکریسی اور سیاسی جماعتیں خود رکاوٹ ہوتی ہیں، اور دوسرا ایک منظم مافیا ایسا نہیں چاہتا کہ کوئی ایسا قانون بنے، جس سے بچ نکلنا مشکل ہو، یہی وہ وجوہات ہیں جہاں کمزور اور طاقتور کے درمیان ایک خلیج حائل ھو جاتی ھے، طاقتور انہی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے بچ نکلتے ہیں اور کمزور پھنس جاتے ہیں جہاں سال ہا سال انصاف ان کی دھلیز پہ قدم نہیں رکھتا، ھمارے ھاں 1973ء کے آئین کے تحت بننے والے مالیاتی ، انتظامی اور انتخابی قوانین میں ترامیم کرنے کو جرم سمجھا جانے لگا ہے، حالانکہ ایک مخصوص فائدے کے لیے دو درجن سے زائد ترامیم کی جس چکی ہیں، ابھی بھی ایک "مقدس گائے" بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اگرچہ کہ یہ ایک متفقہ آئین ھے مگر کیا قومیں اپنے ارتقا کے سفر میں قوانین میں بہتری تو لاتی ہیں، دوسری طرف دیکھیں تو فوجداری اور دیوانی قوانین کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، ان میں بہتری نہیں لائی جا سکی، وزیراعظم عمران خان کا ایک وعدہ تھا کہ قوانین میں جامع اصلاحات لائی جائیں گی تاکہ انصاف کا حصول آسان ہو سکے، انہوں نے مالیاتی قوانین بہتر بنانے کے لیے کم از کم بتیس سے زائد ترامیم لائیں، انتخابی اصلاحات جو سب کا مطالبہ تھا اس پر کام کیا، مگر کسی نے ساتھ نہیں دیا چلیں مان لیتے ہیں وہ ترامیم درست نہیں ہیں، لیکن کیا آپ متبادل ترامیم، اصلاحات یا بہتری کا کوئی ایجنڈا لائے ہیں؟ اگر نہیں لائے تو اس کو مسترد کرنے کا کوئی جواز، دلیل اور قابلِ عمل طریقہ دیا ہے؟ اگر نہیں تو برسر اقتدار حکومت کو اپنے منشور کے تحت کام کرنے کا اختیار دیا جائے،ایک سوال ان لوگوں سے ھے جو نظام میں تبدیلی چاہتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ حال ہی میں فوجداری قوانین میں 600 سے زائد ترامیم کے ساتھ مسودہ قانون کابینہ نے منظور کیا گیا، جہاں قانون شہادت، ضمانت، اخراج، فوری فیصلے، جعلی مقدمات، پلی بارگین، آڈیو ویڈیو کو شہادت کے طور پر استعمال کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل کیا گیا ہے، کیا یہ تبدیلی کی طرف بڑا قدم نہیں ھے، تعزیرات پاکستان کے بنیادی قوانین، 1935 ء کے کرمینل ایکٹ، اور 1860ء کے دیوانی قوانین میں تبدیلی نہیں ھونی چاہیے؟ کیا عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التواء نہیں ہیں؟ کیا ھمارے سماج میں عدالت سے باہر راضی نامے کی روایات موجود نہیں ہے جس کو قانونی بنایا جا رہا ہے تاکہ قانون کا تحفظ بھی حاصل ھو، کیا ایسا کرنا پولیس، پراسکیوشن، اور عدلیہ کے لئے بہتر نہیں ھو گا، چند قانونی ماہرین نے صرف پلی بارگین کے فوجداری قانون میں ترمیم کی مخالفت کی ھے باقی کسی چیز پر نہیں کی، کیا سیاسی جماعتیں، نظام میں تبدیلی چاہنے والے آگے آئیں گے، ہفتے اور دنوں میں تیز رفتار فیصلے کرنے، غیر قانونی حراست پر سزائیں، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی، خواتین کو ہراساں کرنے، تشدد پر سزائیں، ماہانہ رپورٹس اور سب سے بڑھ کر سپیڈی ٹرائل کیا یہ ترامیم انصاف کے حصول میں آسانی نہیں پیدا کریں گے، ؟ نظام میں رہ کر نظام کی تبدیلی کا کیا اور بھی کوئی طریقہ ھے تو ماہرین بتا دیں، باقی سیاست کرنی ہے تو پھر سب کچھ برا ھے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہو، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا اختیار ھو یا فوجداری اور دیوانی قوانین میں ترامیم ھوں، سب ٹھیک نہیں ہے اس لئے لانگ مارچ بھی ھو گا، انقلاب بھی آئے گا، اور یہ غیر روایتی وزیراعظم بھی نہیں چائیے، نہ انصاف ، نہ اختیار اور نہ احتساب، چاہیے صرف مہنگائی میں خاتمہ چاہئیے، سبسڈی اور اقربا پروری چاہئیے، چاہے کچھ بھی ہو جائے ھمیں اقتدار اور اختیار دیا جائے، کیونکہ ھم سب کچھ کر لیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :