یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!

جمعہ 28 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک زمانہ تھا جب دونوں عالمی جنگوں میں یورپ تباہ حال ھوا مگر اس نے اپنے آپ کو سمیٹ کر امن اور ترقی کے راستے پر ڈالا جس سے جنگ کے شعلے ختم ہوئے اور یورپ ترقی کا گلستان بن گیا، مگر حال ہی میں امریکہ اور روس کی نئی سرد جنگ نے، یوکرین میں میدان جنگ گرم کر دیا، جس سے یہ خطرات جنم لے رہے ہیں کہ کیا یورپ ایک مرتبہ پھر تباہی کی طرف جانا پسند کرے گا، ؟گزشتہ کئی عرصے سے امریکہ اور روس کے صدور کے درمیان اس موضوع پر ورچوئل ملاقاتیں ہوئیں، وزیر خارجہ روس سرگئی لاروف اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بیلکن کے درمیان بات چیت ھوئی مگر سب بے سود، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ وہ روس پر سخت پابندیوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ولادیمیر پوٹن کے خلاف بھی خطرناک ھوں گی، اس سے خدشہ ہے کہ ایک طویل جنگ شروع ہوئی تو مشرقی یورپ سمیت دنیا اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے، روس یوکرین میں امریکہ اور یورپ کی مداخلت کو اپنے لئے بہت بڑی تھرٹ سمجھتا ہے۔

(جاری ہے)


  یوکرین، روس کے لئے ایک تاریخی پسِ منظر رکھتا ہے، اس کا دارالحکومت کیف کبھی سویت یونین کا دارالحکومت رہا ہے، سن 1654 میں آرتھوڈکس مسیحیت پر متحد ھوئے،  1917 ء کے انقلاب روس کے بعد 1920 سے 1930ء تک اسٹالن نے یوکرین میں اٹھنی والی ہر تحریک کو بزور طاقت دبا دیا، روس کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں جس سے ھزاروں افراد ھلاک ھوئے تھے،  اس دوران یوکرین سوویت یونین کا حصہ رہا، 1991 ء میں طویل امریکہ اور روس سرد جنگ کے بعد سوویت یونین کے حصے بخرے ھو گئے اور یوکرین بھی روس سے آزاد ھو گیا، یوکرینی صدر لیونئیر کرافحیوک اور روس کے صدر بورس یلسن کے درمیان بیلا ویزا معاہدے پر دستخط ہوئے،  انیسویں صدی میں کسانوں کی بغاوت کے ساتھ لتھوانیا دولتِ مشترکہ کی شکل میں رونما ھوا تھا، گالیشیا آسٹریائی سلطنت میں ضم ھو گیا باقی یوکرین سلطنت روس کا حصہ ہی رہا،  جو 23 مارچ 1991ء میں دوبارہ الگ ریاست کے طور پر سامنے آیا، 2014ء میں کریمیا میں روسی حمایت یافتہ صدر کو اقتدار سے ھٹایا گیا ، جواب میں روس نے حملہ کرکے کریمیا کو روس میں ضم کر دیا ۔

مشرقی سرحدی علاقوں میں یوکرین اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں،  امریکہ کی خواہش ھے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرکے روس کو مکمل کنٹرول میں رکھا جائے روس اس خطرے کے پیش نظر یوکرین میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے اس لیے امریکہ کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے امریکہ اگر چہ کہ ماضی میں بھی یہ کوششیں کرتا رہا مگر یوکرین نیٹو کا حصہ نہ بن سکا، حال ہی میں اسی خطرے کے پیش نظر روس نے ایک لاکھ پچہتر ھزار فوج کو یوکرین کی بارڈر پر لا کھڑا کر دیا جہاں مسلسل مشقیں کی جارہی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور فرانس روس کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو وہ نیٹو پر حملہ سمجھا جائے گا، امریکہ نے جواب میں 8500 فوجیوں کو جدید آلات سے لیس کرکے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، دونوں طرف سے سخت بیانات کا تبادلہ ھو رہا ھے کسی وقت بھی چنگاری شعلہ بن سکتی ھے جس کے اثرات پورے یورپ پر پڑیں گے، دوسری طرف امریکہ نے چین سے بھی سرد جنگ شروع رکھی ہے، اس بنیاد پر چین اور روس اکٹھے ہو سکتے ہیں  ردعمل کے طور پر  پورا یورپ جنگ میں کود سکتے ہیں، چین اور امریکہ کی سرد جنگ میں یورپ نے اپنے آپ کو جنگ سے علحیدہ رکھنے کی کوشش کی ہے تاہم یوکرین چونکہ یورپ کی جغرافیائی حدود میں ھے اس لئے یہاں چھڑنے والی جنگ یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :