تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!

منگل 15 فروری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

پی ڈے ایم کی تحریک باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ زور و شور سے آگے نہیں بڑھ سکی، اس میں مفادات آڑے آتے رہے یا ہر سیاسی جماعت خصوصاً پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی اقتدار کی خواہش اور ڈیل کے شکوک وشبہات کی وجہ سے جدا جدا موقف اختیار کرتی رہیں، جس سے اپوزیشن اپنے سیاسی اہداف میں ناکام رہی ھے، مولانا فضل الرحمن صاحب آدھے پارلمینٹ  میں تھےاور آدھے جائز یا ناجائز حکومت کے مخمصے میں الجھ گئے ، یا الجھے ہوئے ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مسئلہ بھی" ڈیل کی پہل" کی وجہ سے الجھن، سلجھن کا باعث رہا ہے، حال ہی میں زرداری صاحب کی سرگرمی نے ایک نئی تحریک پیدا کر دی ہے، ان کی اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف، ھمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان ملاقات ھوئی، جس میں یہ طے پایا کہ حکومت وقت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی، اور لانگ مارچ بھی ھوں گے، البتہ شک وہیں برقرار ھے جسے سیانے سیاست دان سونگھتے پھر رہے ہیں کہ کہیں کسی کی ڈیل تو نہیں چل رہی، مولانا فضل الرحمان صاحب کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نے انہیں حوصلہ  دیا ہے، اب تو انہوں نے پاک چین تعلقات پر قوم سے خطاب اور بعد ازاں مارچ پاس کی ریہرسل بھی کرلی ھے،  دوست کہتے ہیں ان جماعتوں کے درمیان یہ بھی طے ہوا کہ خیبرپختونخوا  میں فضل الرحمان صاحب، سندھ پیپلز پارٹی اور پنجاب ن لیگ کے پاس ھوگا، کیا یہ اب ممکن ھو گا ؟زرداری صاحب کی ق لیگ کے رہنماؤں سے بھی سے بھی ملاقات ھوئی، اور "اتحادیوں کو فسادی "بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ق لیگ میں جان عمران خان نے ڈالی تھی اب  بھی وہ اس بات کو نہیں سمجھیں گے تو ن لیگ انہیں ہڑپ کر جائے گی،معمولی اور غیر معمولی اجلاس میں یہی فیصلے ھو رہے ہیں کہ کسی طرح نمبر گیم پوری کی جائے، جسے تحریک عدم اعتماد کہا جائے گا، ایسا کیسے ممکن ہو گا یا اس کے بعد کیا ہو جائے گا، اس سوال کا جواب کسی کے  پاس نہیں ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی تاریخ پاکستان کی سیاست میں اچھی نہیں رہی، یہ آئینی آپشن ضرور ھے مگر ماضی میں اس کی کوئی اچھی روایت نظر نہیں آتی،
  33 سال قبل ایسا ہی ایک منظر بپا ھوا تھا، جنرل ضیاء الحق کی گیارہ سالہ آمریت کے بعد 1988ء میں انتخابات ھوئے جسمیں پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی اور محترمہ بینظیر بھٹو  برسرِ اقتدار آئیں تھیں، وہ پہلی مسلم خاتون وزیراعظم تھیں، جیسے ہی وہ اقتدار میں آئیں، میاں نواز شریف جو آج جمہوریت اور سول سپرومیسی کی بات کرتے ہیں، غیر جمہوری ھتکھنڈوں کی تلاش میں نکل پڑے تھے، بلکہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے بھی "عورت کی حکمرانی حرام ہے" کا نعرہ لگا دیا، اسی کوشش میں صرف دس ماہ کے اندر کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف مخلوط اپوزیشن (سی او پی) نے 26 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ، بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دے کر میاں صاحب میدان میں تھے، اور بے نظیر بھٹو انہیں ضیا کی باقیات کہتی تھیں، تحریک عدم اعتماد یکم نومبر 1989ء کو پیش کی گئی، اس کے بعد ممبران کی خرید وفروخت"ھارس ٹریڈنگ" کا کام شروع ھوگیا، پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اس لئے وہ اپنے ممبران اسمبلی کا" جمہوری منہ بند کر کے"چھانگا مانگا" اور مری میں" قید ضمیر اور دولت کبیر "کر دئیے گئے، پیپلز پارٹی نے اس کے جواب میں باضمیر ممبران کو خرید سے بچانے کے لیے مینگورہ سوات میں "پابند فروخت" کر دیا، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت اور آفتاب احمد شیرپاؤ وزیر اعلیٰ تھے،  یکم نومبر 1989ء کو ووٹنگ ھوئی تو اپوزیشن کو ناکامی ھوئی اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ھو گئی، میں ان دنوں سرگودھا کے ایک کالج میں تھا، وہاں کے ایک ایم این جاوید اقبال چیمہ جو جماعت اسلامی کے ممبر تھے، ان کے گھر جانا ھوا، میلہ لگا ھوا تھا، اور تحریک عدم اعتماد پر ہی بحثیں چل رہی تھیں، خیر اس وقت بھی بکنے والے چند ایم این اے جنوبی پنجاب سے تھے، یہ تعصب سے بالاتر ہو کر لکھ رہا ہوں کہ آج بھی تمام حکومتوں کی نظر ان ممبران پر ہی ہوتی ہے، نہ جانے کیا خاص وجہ ھے؟پسماندگی یا جاگیر داری کا عنصر نمایاں ہے، یا کوئی اور وجہ ھے
  صرف یہی نہیں اسی تحریک عدم اعتماد کے دوران اعلیٰ مقتدر حلقوں پر بھی الزام لگا، اور بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کے خلاف اخبارات میں بیان بازی ھوئی، کہ ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لئے انہوں نے مدد فراہم کی، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ کے سامنے اس کیس کو جنرل ر نصیر اللہ بابر لے کر گئے تھے، جس پر اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کو برطرف کر دیا تھا، ایک اور سازش جس کو"آپریشن میڈ نائٹ جیکلز" کا نام دیا گیا اس میں بھی انہی دو افراد کا نام آیا، بلکہ اصغر خان کیس میں یہ بات کھل کر بیان کی گئی کہ اسلامی جمہوری اتحاد بنانے میں بھی ان کا کردار تھا،
   محترمہ بینظیر بھٹو نے میاں نواز شریف پر الزام لگایا کہ میری حکومت ختم کرنے کے لیے اسامہ بن لادن سے بھی مالی مدد لی گئی کیونکہ وہ عورت کی حکمرانی کے خلاف تھے،  1990 میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے بی بی کی حکومت برطرف کر دی، نئے انتخابات ھوئے جسمیں اسلامی جمہوری اتحاد کو کامیابی ملی اور حیرت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے بریگیڈیئر امتیاز کو ڈی جی آئی بی  لگا دیا، اس سے میاں صاحب کی جمہوریت نوازی کا پول کھل گیا، آج پھر ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور۔

(جاری ہے)

جے یو آئی، تحریک عدم اعتماد کے لئے سرگرم ہیں کیا اسی طرح کا کوئی کھیل ھو گا؟ جہاں اتحادیوں کی قیمت لگائی جائے گی، وہ تو قیمت لگاوانے کے  لئے تیار ھو رہے ہیں،
جب تک بکے نہ تھے، بے مول تھے
تم نے خرید کر انمول کر دیا ہمیں
  انمول ھونے کے لیے کوئی تو حد ھونی چاہیے، آج وقت اور حالات بدل چکے ہیں کے پی کے میں سینٹ الیکشن میں کچھ لوگ بکے اور پکڑے بھی گئے، مگر ایسی ہی عدم اعتماد کی کوشش موجودہ اپوزیشن نے یکم اگست 2019ء کو سینٹ کے چیئرمین کے لیے کی تھی، جسمیں اپوزیشن کے 64 میں سے 14 ممبران حکومت کو ووٹ دے آئے، جو اجلاس میں جانے سے پہلے بھی پورے تھے اور آنے کے بعد بھی پورے 64 نکلے، کیا یہی سیاست ھوگی؟، اسی کوشش میں یہ سسٹم بھی ھاتھ سے نکل گیا تو ڈیل اور ڈھیل کہاں جا سکتی ھے، حکومت نے ایف ٹی ایف، اسٹیٹ بینک قوانین اور الیکشن کمیشن کے متعلقہ قوانین مشترکہ اجلاس میں منظور کروا لئے جہاں اپوزیشن بلکہ یوسف رضا گیلانی تک پر بھی الزام لگایا گیا، اس لئے اپوزیشن کو دو سوال بہرحال سوچنے ھوں گے کہ ناکامی اور کامیابی دونوں صورتوں میں کیا حاصل ھو گا؟ بہتر یہ ہے کہ انتخابات کا انتظار کیا جائے، اگر کسی کارکردگی سے ڈر ھے تو عوام کا کب سوچا جائے گا؟ میرے خیال میں یہ مزاحمت برائے انتخابی سیاست ہی ھے، جس کے جواب میں حکومت کو کارکردگی میں جان پیدا کرنی ھو گی، دوسری صورت میں نقصان سسٹم کو پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :