
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022

پروفیسرخورشید اختر
33 سال قبل ایسا ہی ایک منظر بپا ھوا تھا، جنرل ضیاء الحق کی گیارہ سالہ آمریت کے بعد 1988ء میں انتخابات ھوئے جسمیں پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی اور محترمہ بینظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تھیں، وہ پہلی مسلم خاتون وزیراعظم تھیں، جیسے ہی وہ اقتدار میں آئیں، میاں نواز شریف جو آج جمہوریت اور سول سپرومیسی کی بات کرتے ہیں، غیر جمہوری ھتکھنڈوں کی تلاش میں نکل پڑے تھے، بلکہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے بھی "عورت کی حکمرانی حرام ہے" کا نعرہ لگا دیا، اسی کوشش میں صرف دس ماہ کے اندر کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف مخلوط اپوزیشن (سی او پی) نے 26 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ، بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دے کر میاں صاحب میدان میں تھے، اور بے نظیر بھٹو انہیں ضیا کی باقیات کہتی تھیں، تحریک عدم اعتماد یکم نومبر 1989ء کو پیش کی گئی، اس کے بعد ممبران کی خرید وفروخت"ھارس ٹریڈنگ" کا کام شروع ھوگیا، پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اس لئے وہ اپنے ممبران اسمبلی کا" جمہوری منہ بند کر کے"چھانگا مانگا" اور مری میں" قید ضمیر اور دولت کبیر "کر دئیے گئے، پیپلز پارٹی نے اس کے جواب میں باضمیر ممبران کو خرید سے بچانے کے لیے مینگورہ سوات میں "پابند فروخت" کر دیا، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت اور آفتاب احمد شیرپاؤ وزیر اعلیٰ تھے، یکم نومبر 1989ء کو ووٹنگ ھوئی تو اپوزیشن کو ناکامی ھوئی اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ھو گئی، میں ان دنوں سرگودھا کے ایک کالج میں تھا، وہاں کے ایک ایم این جاوید اقبال چیمہ جو جماعت اسلامی کے ممبر تھے، ان کے گھر جانا ھوا، میلہ لگا ھوا تھا، اور تحریک عدم اعتماد پر ہی بحثیں چل رہی تھیں، خیر اس وقت بھی بکنے والے چند ایم این اے جنوبی پنجاب سے تھے، یہ تعصب سے بالاتر ہو کر لکھ رہا ہوں کہ آج بھی تمام حکومتوں کی نظر ان ممبران پر ہی ہوتی ہے، نہ جانے کیا خاص وجہ ھے؟پسماندگی یا جاگیر داری کا عنصر نمایاں ہے، یا کوئی اور وجہ ھے
صرف یہی نہیں اسی تحریک عدم اعتماد کے دوران اعلیٰ مقتدر حلقوں پر بھی الزام لگا، اور بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کے خلاف اخبارات میں بیان بازی ھوئی، کہ ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لئے انہوں نے مدد فراہم کی، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ کے سامنے اس کیس کو جنرل ر نصیر اللہ بابر لے کر گئے تھے، جس پر اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کو برطرف کر دیا تھا، ایک اور سازش جس کو"آپریشن میڈ نائٹ جیکلز" کا نام دیا گیا اس میں بھی انہی دو افراد کا نام آیا، بلکہ اصغر خان کیس میں یہ بات کھل کر بیان کی گئی کہ اسلامی جمہوری اتحاد بنانے میں بھی ان کا کردار تھا،
محترمہ بینظیر بھٹو نے میاں نواز شریف پر الزام لگایا کہ میری حکومت ختم کرنے کے لیے اسامہ بن لادن سے بھی مالی مدد لی گئی کیونکہ وہ عورت کی حکمرانی کے خلاف تھے، 1990 میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے بی بی کی حکومت برطرف کر دی، نئے انتخابات ھوئے جسمیں اسلامی جمہوری اتحاد کو کامیابی ملی اور حیرت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے بریگیڈیئر امتیاز کو ڈی جی آئی بی لگا دیا، اس سے میاں صاحب کی جمہوریت نوازی کا پول کھل گیا، آج پھر ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور۔
(جاری ہے)
تم نے خرید کر انمول کر دیا ہمیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.