بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی

ہفتہ 22 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بھارت کو سات سال میں نریندرا مودی انتہا پسند، نسل کش اور نسل پرست ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے، اس کے پیچھے ایک دن کی کہانی نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس، بجرنگ دل  اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کا بڑا کردار ہے،رشٹرایہ سیوک سنگھ یا آر ایس ایس نے 1950ء میں بھارتی آئین کی مخالفت سے لے کر ، اس گروپ کا سیاست میں آکر اقتدار حاصل کرنے تک کا طویل سفر ہے، واجپائی نے پہلی مرتبہ بی جے پی کے پلیٹ فارم سے حکومت، "جسے ھمارے ھاں مذھبی جماعتیں قوت نافذہ کہتی ہیں "، وہ مودی کو حاصل ھوگئ، مگر وہ سیاسی طور پر کمزور حکومت تھی اس لئے  اپنے ایجنڈے پر کام درست انداز میں کام نہیں کر سکی، 2014ء میں مودی نے مسلم و پاکستان دشمنی اور کشمیر کے حصّے بخرے کرنے کا منشور تشکیل دیا، انتخابی مہم سے عملی اقدامات تک اسی ایجنڈے کو بھارت کے کونے کونے تک جاری رکھا، جس کے نتیجے میں انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی کہ سیکولر بھارت کا دعویٰ چکنا چور ہو گیا، اور مودی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، کشمیر میں اس نے بی جے پی کے پلیٹ سے الیکشن جیتنے کی کوشش کی تھی، مگر  ناکامی ہوئی، اس کے جواب میں مودی نے 2019ء کے انتخابات میں کھل کر مسلم دشمنی، پاکستان مخالفت اور کشمیر کے ایجنڈے پر الیکشن لڑے، ھندوؤں میں ھندواتا کو اتنا فروغ دیا کہ خفیہ طور باقاعدہ مسلح دستے تیار کیے جو مسلم دشمنی کی آگ بھڑکائیں، مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی، آرٹیکل 370اور 35اے کا خاتمہ کرکے کشمیر کو تقسیم کر دیا، اس کے باوجود تحریک میں اور تیزی پیدا ہوگئی، اور آج بھارت میں ان انتہا پسندوں کا طوطی بولتا ھے، مسلم نسل کشی، کشمیر سمیت پورے بھارت میں جاری ھے، حال ہی میں اتراکھنڈ میں ہونے والی کانفرنس جیسے " مذھبی پارلیمان" کا نام دیا گیا ہے، فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہر صورت بھارت سے نکالنا ھے، وہاں لیڈران نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو مارنے کے لیے تلواریں کافی نہیں ھوں گی بلکہ ھمیں روایتی اور غیر روایتی ھتھیار بھی اکٹھے کرنے ھوں گے،  اس کانفرنس کا عمل اور ردعمل بھی ھوا،جس کے بعد مسلمانو بھارت چھوڑ دو احتجاج بھی ھوا، ایک مسلمان کی ویڈیو وائرل ھوئی جو اجمیر شریف جا رہا تھا، ھندو انتہا پسند 'یہ لو جہاد" کے نعرے لگاتے ہوئے اسے پیٹ رہے تھے، یہ ایک واقعہ نہیں ایسے کئی واقعات ھو چکے ھیں جہاں مسجدوں کو آگ لگائی گئی، مسلمانوں کو سرعام مارا گیا، خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، زبردستی مذھب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کشمیر میں ھندوؤں کی آباد کاری اور مسلم کشی عروج پر ھے، یہاں تک کہ ھندو انتہا پسند کرسمس کی تقریبات میں اتر گئے اور حضرت عیسیٰ کا مجسمہ تک توڑ کر بندے ماترم گانا شروع کر دیا، دوسرے مذاھب کے خلاف بھارت کا یہ رویہ سماجی اور حکومتی سطح پر جاری ہے، یہاں تک کہ بھارتی میڈیا بجائے آگ بجھانے کے مزید بھڑکا رہا ہے،
ممتاز بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے کرن تھاپر سے انٹرویو میں کہا کہ مودی مسلم نسل کشی کے ان مجرموں کو نہ صرف سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ انہی کو فالو کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بیس کروڑ مسلمان اب لڑیں گے اور یہ ان کا اپنا گھر ھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے،ایک نصیر الدین شاہ نہیں بلکہ تمام مسلمان اور عیسائی اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں، قبل اس کے عالمی میڈیا، یورپی یونین اور کئی تھینک ٹینکس اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ مودی سرکار بھارت کو انتہا پسندی کے عروج پر لے آئے ہیں، یہ وہی مودی ہیں جن پر گجرات کے فسادات اور قتل عام کے بعد امریکہ میں داخلے کے دروازے بند تھے، حکومت میں آنے کے بعد وہی مہربان اور قدر دان ہیں، اسی انتہا پسندی سے تمام پڑوسی ممالک جن میں نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کسی حد تک پاکستان شدید خطرات میں ھے، گانگریس اور بے جے پی کے بھارت میں بڑا فرق ہے، اگرچہ کہ مسلمانوں سے رویہ ایک ھے مگر جس انتہا پر بی جے پی اسے لے گئی ہے، اس سے امن کو بہت خطرات ہیں، خدا نخواستہ کسی ایٹمی جنگ جیسا ماحول پیدا ھو سکتا ھے، جس کا انجام بھیانک ھوگا، بھارتی میڈیا اس انتہا پسندی میں مودی حکومت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے یہ آگ تیزی سے پھیل رہی ہیں، بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں، عیسائیوں، اور دوسری اقلیتوں کو مشترکہ قیادت بنانے کے اقدامات۔

(جاری ہے)

کرنے ھوں گے تاکہ سیاسی انداز سے اس انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :