
جماعتِ اسلامی کا اجتماعِ عام
بدھ 26 نومبر 2014

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
لاکھوں مرد وزَن مینارِ پاکستان میں خیمہ زَن لیکن کوئی شور نہیں ،کوئی دعویٰ نہیں ،ٹریفک رواں دواں ،ماحول سنجیدہ اور رَبّ ِ ذوالجلال کی باتیں ۔امیرِ محترم سراج الحق کی ہر بات میں دِلی درد ،کسک ،تڑپ اور کچھ کر گزرنے کی اُمنگ لیکن مارو مَرجاوٴ ،جلاوٴگھیراوٴ سے نہ سول نافرمانی سے ،بَس تائیدِربی کی دُعا وپکار ۔
یہ پیغام جابجا کہ قادرِمطلق کے ہاں کوئی بڑا نہیں ،کوئی چھوٹا نہیں ،کسی عربی کو عجمی پر فوقیت ،نہ گورے کو کالے پر مگر اعمالِ صالح ۔آقاﷺ نے فرمایا ”تُم میرے پاس حسب نسب نہیں ،اعمال لے کر آوٴ“۔لیکن ہمارے ہاں تو بات حسب نسب، فلاں ابنِ فلاں اور ”پدرم سلطان بود “سے شروع ہوکر اسی پہ ختم ہوجاتی ہے۔صرف جماعت اسلامی ہی ایسی ہے جہاں جماعت کے پانچوں امراء میں سے کسی ایک کا بھی باہمی تعلق حسب نسب یا رشتے داری پر استوار نہیں بلکہ وہی بنیاد کہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہ گورے کو کالے پر مگر اعمالِ صالح ۔امیرِ جماعت قاضی حسین احمد مرحوم ومغفور کہا کرتے تھے کہ وہ عرصہٴ دراز تک جماعت اسلامی کے لیے دریاں بچھاتے اور صفیں سیدھی کرتے رہے ۔آج جماعت اسلامی کی امارت اُس شخص کے سپردکہ جسے ایک مزدور کا بیٹا ہونے پر فخرہے ۔مینارِ پاکستان کے اجتماع میں امیرِ محترم سراج الحق نے قوم کے سامنے اپنی زندگی کا ایک ایک پرت کھول کے رکھ دیا ۔2008ء کے اجتماع میں اُن کی داڑھی میں کہیں کہیں سفید بال تھے اور اب 2014ء کے اجتماع میں کہیں کہیں سیاہ ۔قدرے جوان امیرِ جماعت نے جب اپنی زندگی کی کٹھن راہوں کی داستان شروع کی تو لاکھوں سامعین کی آنکھیں پُرنَم ہوتی چلی گئیں اوردُنیا کے پچیس ممالک سے آئے ہوئے وفود اُنہیں حیرت سے تکنے لگے ۔جب اُنہوں نے سکول کی فیس نہ ہونے پر اپنی والدہ کی بے بسی کا ذکر کیا تو سامعین کی آنکھیں اشک بار ۔اُنہوں نے بڑے لطیف انداز میں کہا کہ اُنہیں فُٹ پاتھ پر رات گزارنے اور زمین پر بیٹھ کر کام کرنے میں بڑا لطف آتا ہے ۔یہ دراصل اُن کا اسلامیانِ پاکستان کو پیغام تھا کہ محلوں میں رہنے والے اور مخملی بستروں پہ آرام کرنے والے بھلا کیا جانیں کہ بے کِس وبے بس اورمجبور ومقہور زندگی کی کِن کٹھن راہوں سے گزرتے ہیں ۔اُن کا یہ پیغام تھا کہ قوم بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ایک ملّت میں گُم ہوجائے اور قائدِاعظم کے فرمان کے عین مطابق پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ میں ڈھال دے ۔وہ چاہتے ہیں کہ اشرافیہ کے دیوِ استبداد کو زیر کرکے پاکستان میں مدینہ منورہ کی طرز کی ایسی مثالی ریاست قائم کی جائے جو حضرت عمر کے فرمان کے عین مطابق ہوکہ ”امیر المومنین صرف اُس وقت ہی گیہوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اُس کو یقین ہو جائے کہ اُس کی رعایا کو گیہوں کی روٹی میسر ہے ۔
پون صدی قبل اگست 1941ء میں مشرقی پنجاب کے شہرپٹھان کوٹ سے ایک قافلہٴ سخت جاں چلا جس میں کُل 75 افراد تھے اور قافلہ سالار وہ جو حضرتِ اقبال کے اِن اشعار کی عملی تصویر
گفتار میں ،کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری وقدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
گر جیت گئے تو کیا کہنا،ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.