
ووٹ کا تقدس
جمعہ 18 اگست 2017

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
اسلام آباد سے لاہور تک کے اِس سفر میں میاں نواز شریف نے بار بار کہا ” عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے وزیرِاعظم منتخب کرتے ہیں اور چند لوگ اُنہیں رسوا کرکے نکال دیتے ہیں ۔پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی ایک وزیرِاعظم کو بھی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا موقع نہیں ملاجس سے صاف ظاہر ہے کہ عوامی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں“۔ تاریخِ پاکستان کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ملّی بھگت نے کسی حکومت کو بھی کھُل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ہر حکومت کے سر پر ہمیشہ زور آوروں کی تلوار لٹکتی رہی اور اگر کسی نے چوں چرا کی تو اُسے رُسوا کرکے نکال دیا گیا ۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اِس میں کچھ قصور سیاستدانوں کا بھی ہے جو ووٹ کی پرچی کے حصول کے بعد پیچھے مُڑ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ لاریب یہ بھی ووٹ کی بے حرمتی ہے اور یہ بے حرمتی کروانے کے ذمہ دار ووٹرخود ہیں جنہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ ووٹ کی حُرمت کِس چڑیا کا نام ہے۔ علامہ اقبال نے مثالی ریاست کا جو تصور پیش کیا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ مثالی ریاست” ہجومِ مومنین“ کا نام نہیں بلکہ ہر وہ ریاست مثالی ہے جس کا سربراہ ”مردِ مومن“ ہو ۔اقبال مردِ مومن کی بہترین مثال خلفہٴ راشدین کو قرار دیتے ہیں ۔گویا صرف وہی شخص اسلامی ریاست کا سربراہ بن سکتا ہے جو اعمالِ صالح کے لحاظ سے اپنے دَور میں بسنے والے لوگوں سے افضل تَرہو ۔اب ہر ووٹر اپنے دِل کی گواہی لے لے کہ جس شخص کو وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سرفراز کرنے جا رہا ہے ،کیا وہ اعمالِ صالح میں سب سے بزرگ وبَرتر ہے؟۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر آرٹیکل 62/63 کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے ۔رہی اِن آرٹیکلز کو آئین سے نکالنے کی بات تو یہ تو ہمارے دین کا جزوِلایَنفک ہیں ۔حضورِاکرم ﷺ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں سوائے اِس کے کہ اُس کے اعمال صالح ہوں۔ اعمال سے مراد وہ اقوال و افعال ہیں جو انسان کی معاشی ،معاشرتی اور مذہبی زندگی کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ گویا یہ اصول وضوابط ہر عاقل وبالغ پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ پھر یہ صرف اُن اصحاب کے لیے کیوں جو کسی انتخاب میں حصّہ لینا چاہتے ہوں ،بلاامتیاز سبھی کے لیے کیوں نہیں؟۔ ہمارے لیے افواجِ پاکستان اور عدلیہ انتہائی محترم لیکن معصوم عن الخطا تو کوئی بھی نہیں۔ پھر کیا افواجِ پاکستان اور عدلیہ سے محض اِس لیے صرفِ نظر کیا جائے کہ یہ زورآوروں کے مسکن ہیں جہاں آئین کے بھی پَر جلتے ہیں۔ اگر آرٹیکل 62/63 کو اُن کی پوری توانائیوں کے ساتھ لاگو کرنا ٹھہر گیا تو پھر اِن کی زد سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا کیونکہ درمیان میں چودہ صدیاں حائل ہیں۔اِس لیے اِن آرٹیکلز کو دَورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.