
حکمرانی کے 2 سال
ہفتہ 22 اگست 2020

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
قومی تخیل کی پرواز یکلخت آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگی اور لوگ سہانے سپنوں کے محل تعمیر کرنے لگے۔
وہ جو ابرِنیساں کی آمد کے منتظر تھے، اُنہیں اُس وقت مایوسیوں کے پاتال کا سامنا کرنا پڑا جب کپتان نے وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پہ سجایا۔ تب سہانے سپنوں کے محل ریت کے گھروندوں میں ڈھلنے لگے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بادِ سموم نے گلہائے نَو شگفتہ کو مرجھادیا۔ نفرتوں کی گھنگھور گھٹاوٴں کا بسیراہوا اوردشنام طرازی فطرتوں کا جزوِ لاینفک بنی جس میں جھوٹ کا تڑکا الگ۔ ایک کروڑ نوکریوں کی جگہ لاکھوں بیروزگار ہوئے اور پچاس لاکھ گھروں کی نوید سنا کر تجاوزات کے بہانے کروڑوں بے گھر کیے گئے۔ مہنگائی کا عفریت کھُلا چھوڑ دیاگیااور شکم سیری کی دستیاب ہر شے دور بیٹھی مفلسوں کا مُنہ چڑانے لگی۔اِن حالات میں بھی کشکول بدستوں کی ترجیحات ملاحظہ ہوں کہ لاہور کے ”جُڑواں شہر“ کا افتتاح کر کے قوم کو ایک دفعہ پھر ”ٹرک کی بَتی“ کے پیچھے لگانے کی سعی کی جارہی ہے۔ اِس پر معروف لکھاری حسن نثار کا تبصرہ بہت دلچسپ۔ فرمایا ”جو شہر چلانے سے قاصر ہوں، وہ شہر بنانے پر قادر کیسے؟“۔ حکومتی دو سالہ کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس جُڑواں شہر پر عوامی اعتبار کا یہ عالم کہ
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تا ثریا می رود دیوار کَج
سُلگتا سوال یہ بھی کہ کیا کسی بھی اسلامی مملکت کے حکمرانوں کو قوم کے پیسوں سے گوردوارہ، چرچ یا مندر تعمیر کرنے کی اجازت ہے؟۔ پہلے کرتارپور گوردوارہ کی تعمیر اور تزئین وآرائش پر 17 ارب روپے صرف کیے گئے اور اب اسلام آباد میں قوم کی رگوں سے نچوڑے گئے لہو سے مندر کی تعمیر کے منصوبے۔ مکرر سوال یہ کہ کیا دینِ برحق اِس کی اجازت دیتاہے؟۔ فرمانِ ربی ہے ”جو کام نیکی اور خُداترسی کے ہیں، اُن میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، اُن میں کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اُس کی سزا سخت ہے“ (المائدہ2 )۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کونسا گناہ ہے جس پر ربِ لَم یَزل سب سے زیادہ غضب ناک ہوتاہے اور جس کی کوئی معافی نہیں۔ سورة النساء آیت 48 میں ارشاد ہوتاہے ”اللہ بس شرک ہی معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا جتنے دوسرے گناہ ہیں، وہ جس کے لیے چاہتاہے، معاف کر دیتاہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا، اُس نے بڑا جھوٹ تصنیف کیااور وہ بڑے سخت گناہ کی بات ہے“۔ فرقانِ حمید میں شرک کو ظلمِ عظیم کہا گیا اور اِس کی سزا ابدی جہنم قرار دی گئی۔ سورة الزمرآیت 65 میں یوں ارشاد ہوا ”اگر تونے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گااور یقیناََ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا“۔ قُرآنِ حمید فرقانِ حمید میں شرک سے ممانعت کا 29 مرتبہ ذکر آیاہے جس کی روشنی میں بلاخوفِ تردید کہا جا سکتاہے کہ عظیم ترین گناہ رَبِ لم یزل کی ذات، صفات اور عبادات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہراناہے اور یہ تو ہر کہ ومہ جانتاہے کہ مندروں میں بُت پرستی کی جاتی ہے جو دینِ مبیں کے نزدیک شرکِ عظیم ہے۔ ایسے میں کسی مسلم ریاست کا حکمران عوام کے ٹیکسوں سے مندر کی تعمیر کے لیے کیسے رقم مختص کر سکتاہے؟۔
رَبِ کائینات کے حکم کے عین مطابق آئمہ اربعہ یعنی حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت امام مالک بِن انس، حضرت امام محمد بن ادریس شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل متفق ہیں کہ کسی اسلامی مملکت میں کوئی مسلمان نہ غیرمسلم عبادت گاہ تعمیر کر سکتاہے نہ اِس کی تعمیر میں جسمانی ومالی مدد کر سکتاہے اور نہ ہی عطیہ یا وصیت کر سکتاہے۔ اِس لیے کسی بھی اسلامی ملک کی حکومت کے لیے ایسی عبادت گاہ کی تعمیر حرام ہے۔ یہ بجا کہ پہلے سے تعمیرشدہ عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر لیکن کسی بھی مسلم یا غیرمسلم کو ایسی عبادت گاہ کی توسیع تک کی بھی اجازت نہیں۔ رہا یہ سوال کہ ارضِ وطن کے غیرمسلم رہائشیوں کو وہی حقوق حاصل ہی جو ایک عام مسلم شہری کو ہیں تو عرض ہے کہ دین میں غیرمسلموں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا گیاہے اِس لیے اُنہیں وہ تمام حقوق میسر ہوں گے جو ایک مسلم کو میسر ہیں سوائے عبادت گاہوں کی تعمیرکے۔ کیونکہ دین میں اِس کی ممانیت ہے اِس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ احکاماتِ الٰہی کی پابندی کریں۔
ہمارے محترم وزیرِاعظم جو ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویدار ہیں، اُنہیں اُن تمام اصول وضوابط کو مدِنظر رکھنا ہوگا جو فرمانِ الٰہی کے عین مطابق ہوں۔ یہ تو وزیرِاعظم جانتے ہی ہوں گے کہ اسلام میں عہد کی کیا اہمیت ہے۔ سورة بقر 177 میں ارشاد ہوا ” اور نیک لوگ وہ ہیں جو عہد کریں تو اُسے پوراکریں۔ سورة بنی اسرائیل آیت4 میں فرمایا ”اور وعدے کو پورا کرو یقیناََ عہد کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی میں لکھا ”اسلام میں عہد کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ یہ اخلاق، معاشرت، مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلاََ، شرعاََ، قانوناََ اور اخلاقاََ فرض ہے“۔ گویا عہد ہماری معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلووٴں پر حاوی ہے اور جو اپنے عہد کی حفاظت نہیں کرتا ”اللہ قیامت کے روز اُن سے بات کرے گا نہ اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ اُنہیں پاک کرے گا بلکہ اُن کے لیے سخت دردناک سزا ہے“ (ال عمران 77)۔ اِس لیے ہماری ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم محترم عمران خاں سے استدعا ہے کہ وہ قوم سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں۔ اُنہوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں فرمایا”میں نے دو پارٹی سسٹم کے بعد تحریکِ انصاف بنائی۔ جب کوشش کرتے ہیں تو اونچ نیچ سے خوف نہیں آتا۔ گزشتہ دو سالوں میں سمجھا کہ کس طرح کے چیلنجز تھے“۔ اب جبکہ وزیرِاعظم صاحب نے خود ہی اعتراف کر لیا کہ اُنہیں چیلنجز کو سمجھنے کے لیے دو سال لگ گئے تو قوم بھی اِن دو سالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن سے یہ توقع کرتی ہے کہ اب جبکہ وہ چیلنجز کو جان چکے تو قوم سے کیے گئے عہد کی تکمیل بھی کریں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.