
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی
پیر 11 مارچ 2019

پروفیسر رفعت مظہر
کشمیر کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کا یہ عالم کہ بھارتی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہر کشمیری شہید کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپردِخاک کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
دو سال پہلے جب کشمیری ہیرو برہان مظفر وانی کو لاکھوں افراد کی موجودگی میں دفن کیا جا رہا تھا تو ہر زبان پہ ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ تھا۔
ایک گیارہ سالہ کشمیری بچی کو جب پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے دفن کیا جا رہا تھا تو اُس کی ماں کی زبان پربھی ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ تھا۔ یہ بجا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم 5فروری کو ”یومِ یکجہتی کشمیر“ بھی بڑی جوش وجذبے سے مناتے ہیں اور ہم نے ”کشمیرکمیٹی“ بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ سوال مگر یہ کہ کشمیر کمیٹی نے آج تک کشمیری بھائیوں کے لیے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟۔ پہلے ایک عرصے تک مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے، اب تحریکِ انصاف کے سیّد فخر امام ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خاں سے سوال کیا گیا کہ سیّدفخر امام کشمیر کمیٹی میں کیا کریں گے تو اُنہوں نے مسکرا کر جواب دیا ”وہی جو مولانا فضل الرحمٰن کیا کرتے تھے“۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الفت ومحبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم اُن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم عالمی ضمیر کو ہی متواتر جھنجھوڑتے رہیں لیکن ہمیں تو اپنے اندرونی ”پھڈوں“ سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہم تو شاید یہ بھی بھول چکے کہ قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا اور جب شہ رَگ دشمن کے ہاتھ میں ہو تو پھر انجام سبھی کو معلوم۔ لاریب اِس معاملے میں ہم کشمیریوں کے مقروض ہیں اور اِس قرض کی ادائیگی ہم پر فرض۔دوسری طرف انسانیت دشمن اور جنونی دہشت گرد کشمیریوں کے جذبہٴ حریت کو دیکھ کر اتنابوکھلا چکاکہ پلوانا خودکش حملے جیسے ”ڈراموں“ پر اتر آیا۔ وہ انسانی لاشوں کی سیڑھیاں بنا کرایک دفعہ پھربھارت پر مسلط ہونے کی تگ ودَو میں ہے۔ پانچ مختلف ریاستوں میں بُری ہزیمت کے بعد اُس نے سوچا ہوگا کہ جس طرح گجرات میں بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے وہ گجرات کا وزیرِاعلیٰ بنا، اُسی طرح پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر، جنونی ہندووٴں کے ووٹوں کے بَل پر 2019ء کے عام انتخابات جیت جائے گالیکن اُس کا یہ ڈرامہ بُری طرح فلاپ ہو چکا۔ اُس نے پلوامہ کا بہانہ بنا کرپاکستان میں دَراندازی کی اور پھر پورا بھارتی میڈیا اقوام عالم کو قائل کرنے کی تگ ودَو کرنے لگا کہ بھارت نے ”سرجیکل سٹرائیک“ کرتے ہوئے بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں قائم جیشِ محمد کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا اور تین سو دہشت گرد مار دیئے گئے لیکن جب اقوامِ عالم پر حقیقت عیاں ہوئی اور ”گوگل سرچ“ سے بھی ثابت ہو گیاکہ ”بھارتی سورماوٴں“ کے حملے سے چند درخت گرے اور ایک ”کوّا“ مارا گیا تو بھارتی حکومت کی جگ ہنسائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔ بھارت کے اندر بھی اکیس اپوزیشن جماعتیں نریندرمودی کی ”کلاس“ لے رہی ہیں۔ سبھی اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں کہ بی جے پی لاشوں کی سیاست کر رہی ہے۔ بھارتی اپوزیشن کانگرس کے صدر، راہول گاندھی نے کہا کہ وزیرِاعظم مودی نے اتنے جھوٹ بولے جتنے بھارت کے تمام وزرائے اعظم نے مل کر بھی نہ بولے ہوں گے۔ ”تھوتھا چنا، باجے گھنا“ کے مصداق نریندر مودی اب اپوزیشن جماعتوں پر برس رہا ہے۔ اُس نے کہا ” بھارتی اپوزیشن پاکستان کا ہتھیار بن رہی ہے۔ ملک دشمن اپوزیشن قومی مفاد کو نقصان اور سیاسی فوائد کے لیے جان بوجھ کر ہوائی حملے اور فوجی نوجوانوں کی بہادری پر سوالات اٹھا رہی ہے“۔۔۔۔ مودی جی! صرف بھارتی اپوزیشن ہی نہیں، پوری دنیا آپ پر ہنس رہی ہے۔ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن آپ کا جھوٹ بے حدوحساب۔ پاکستان کی طرف سے جوابی حملے کے بعد آپ کی حکومت نے شور مچا دیا کہ یہ حملہ F-16 طیاروں نے کیاجبکہ جوابی حملہ پاکستانی ساختہ JF-17 تھنڈر طیاروں کے ذریعے کیا گیا۔ اِس میں کوئی F-16 شامل ہی نہیں تھا۔ پھر یہ شور مچایا گیا کہ F-16 کے ذریعے حملہ کرنے کے لیے امریکی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے سابق ایئر مارشل شاہد لطیف نے وضاحت کی کہ F-16 کی خریداری معاہدہ اُنہی کے دستخطوں سے ہوا اور اِس معاہدے میں امریکہ کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی ۔ مودی کے جھوٹ کا پردہ چاک ہونے پر ہی تواپوزیشن جماعتیں بھارتی عوام کو اُن کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ
کچھ نہ سمجھے خُدا کرے کوئی
(”ہوں“ کو ”ہے“ میں بدلنے پر روحِ غالب سے معذرت کے ساتھ)
نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی
اوریہ بھی تاریخی حقیقت کہ
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِاعظم عمران خاں نے ”امن یا جنگ“ میں سے کسی ایک کا انتخاب بھارت پر چھوڑ دیا۔ محترم وزیرِاعظم کی امن کی خواہش مستحسن مگر سامنے نریندر مودی جیسا جنگی جنوں میں مبتلاء درندہ ہے۔ اِس لیے ہمارا خیال ہے کہ
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.