معرکہٴ حق وباطل

اتوار 30 اگست 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

آج یومِ عاشورہے، وہ دن جب خانوادہٴ رسولﷺ کے پاکیزہ لہو سے کربلا کی ریت سرخ ہوئی ، حق وصداقت کا پرچم بلند ہوا اور اِستقامت وعزیمت کی لازوال داستان رقم ہوئی۔ یہ وہی دن ہے جو اہلِ اسلام کے لیے حق وباطل کے درمیان کسوٹی بن گیا اور طے ہوگیا کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ خون حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کا بہالیکن ہزیمت سے دوچار یزید ابنِ معاویہ ہوا۔

جب اہلِ بیت کا لُٹا پُٹا پابہ زنجیر قافلہ یزید کے دربار میں پہنچا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے یزید کو مخاطب کرکے فرمایا ”تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہلِ بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہلِ بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ تم اور تمہارے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرلیا“۔

(جاری ہے)

حضرت زینب رضی اللہ عنہ کے اِن الفاظ کو تاریخ نے سچ کر دکھایا۔

آج حسین رضی اللہ عنہ کے لہو کی خوشبو سے فضائیں معطرلیکن کربلا کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے والا یزید جیت کر بھی ہارگیا۔ اِسی لیے قتلِ حسین کو مرگِ یزید کہا جاتاہے۔
یہ بچھتی جا رہی ہے ارضِ مقتل کِس کے قدموں میں
ادا کس نے کیا ہے زیرِ خنجر عصر کا سجدہ
 وطنِ عزیز میں یومِ عاشور انتہائی عقیدت واحترام سے منایا جاتاہے۔

مجالس کا اہتمام کیا جاتاہے، نوحہ خوانی کی جاتی ہے، ماتم اورزنجیرزنی ہوتی ہے اور کربلا کی تپتی ریت پر اہلِ بیت کا پانی بند کرنے کی یاد میں شربت اور پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ یکم سے 10 محرم تک خانوادہٴ رسولﷺ سے اُلفت ومحبت اور عقیدت کے بیشمار مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن حقیقت یہی کہ ہم ”سجدہٴ شبیری“ کی اصل روح سے غافل ہی رہتے ہیں۔

ہم نے خونِ حسین رضی اللہ عنہ کو بھی ایک رسم بنالیا اور جونہی 10 محرم کا سورج غروب ہوتاہے ہم پھر اُسی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس میں کرپشن، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ ہمارے خون میں رَچ بَس چکی۔ اگر ہم نے حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلناہے تو پھر ہمیں وہ مقصد یاد رکھنا ہوگا جس کو بلند کرنے کی خاطر کربلا کی ریت خونِ شہیداں سے سُرخ ہوئی۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ یومِ عاشورمحض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایثاروقربانی، جرأت وحریت، ہمت وعزیمت اور خودداری وشجاعت کا درس بھی ہے۔ کربلا کی ریت کو سرخ کرتا پاکیزہ لہو ہمیں درسِ خودی وخودداری دیتاہوا یہ پیغام دیتاہے کہ باطل کے سامنے ڈَٹ جاناہی اصل ایماں ہے۔
حسین رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ یزید کی بیعت کا مطلب اسلام کے اصولِ خلافت سے بغاوت کے مترادف ہے۔

رسولﷺ کی گود کے پالے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے نانا کا یہ فرمان اَزبَر تھا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہٴ حق کہنا جہادِافضل ہے۔ اِسی لیے جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینا چاہی تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ دینِ مبیں میں خلافت کا تصور ہے ملوکیت کا ہرگز نہیں۔ خلافت میں امیرالمومنین رعایا کو جوابدہ ہوتاہے جبکہ ملوکیت، بادشاہت کو جنم دیتی ہے جس میں بادشاہ کو جوابدہی کا خوف نہیں ہوتا۔

خلافت میں ایک خلیفہ کی رحلت کے بعد عوام نئے خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ ملوکیت میں حکمرانی موروثی ٹھہرتی ہے اور بادشاہ کا بیٹاہی بادشاہ بنتاہے۔ اِسی لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا (کئی اسلامی ممالک میں آج بھی مختلف صورتوں میں بادشاہت قائم ہے)۔
خونِ حسین رضی اللہ عنہ کا درس یہ بھی کہ جب کوئی شخص حق کا پرچم لے کر اُٹھتا ہے تو دشمن کی عددی برتری کو خاطر میں نہیں لاتا۔

اُس کے ایمان کی مضبوطی اُسے یہ درس دیتی ہے کہ ”نورِحق بُجھ نہ سکے گانفسِ اعدا سے“۔ تاریخِ اسلام گواہ کہ دشمن کی عددی برتری پر قوتِ ایمانی سے غلبہ پایاگیا۔جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بہتر افراد کے ساتھ میدانِ کربلا میں پہنچے تووہ دیکھ رہے تھے کہ سامنے تیس ہزاریزیدی فوج ہے جس پر کسی بھی صورت میں غلبہ پانا ناممکن۔پھر بھی وہ حق وصداقت کا علم بلند کیے میدان میں ڈٹے رہے۔

وہ یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے ہمراہیوں کی جان بچا سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے نانا کے دین کی سربلندی کے لیے نکلے تھے۔ وہ شہید ہو کر بھی کامران ہوئے اور یزید فتح یاب ہوکر بھی لعین ٹھہرا۔
فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سَر بلند ہے اب بھی وہ سر حسین رضی اللہ عنہ کا ہے
یومِ عاشور ہمیں یہ بھی سمجھاگیا کہ ظاہری اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، مومن حق پر ڈٹ کر کھڑا رہتاہے لیکن ہمارے ہاں تو ذاتی مفاد کی رسم چل نکلی ہے۔

رَہنمائی کے دعویداروں کو پارٹی بدلتے وقت ذرابھی شرم وحیا نہیں ہوتی۔ ڈال ڈال پھدکنے والوں کو بھلا کیسے رَہنماء مانا جا سکتاہے۔ یہ موقع پرست بھول چکے کہ 9 محرم کی رات جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ یزیدی فوج اُن کی شہادت کے دَرپے ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہمراہیوں کو اپنے خیمے میں طلب کیا۔ خیمے کے چراغ گُل کر دیئے گئے اور پھر جوانانِ جنت کے سردار کی آواز گونجی کہ کل شہادت کا دِن ہے۔

جو اپنی جان بچاناچاہتاہے، اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کرچلاجائے۔ دراصل
حسین رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ
کہیں بُجھے تو نہیں دشتِ وفا کے چراغ
جب خیمے کے چراغ دوبارہ جلائے گئے تو چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ کیا کہ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی لیکن آج حق وصداقت کی خاطر ڈَٹ کر کھڑے ہونے کا جذبہ کہاں۔

مالِ دنیا اور حرصِ جاہ نے جذبہٴ ایمانی اور غیرت وحمیت سے عاری کردیا اور ہم صرف برائے نام مسلمان رہ گئے۔
آج ہر جگہ مسلمان رُسوا ہو رہاہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین، شام ہو یا یمن،عراق ہو یا افغانستان، ہرجگہ خونِ مسلم کی ارزانی۔ عالِمِ اسلام باہم جوتم پیزار اور یکے بعد دیگرے غاصب اسرائیل کے آگے سرنگوں ہونے کو تیار۔ پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا غلغلہ اُٹھا۔

ہمارے وزیرِاعظم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ فلسطین کا مسٴلہ حل ہونے تک پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ وزیرِاعظم صاحب کا یہ مسحورکُن بیان آج بھی دلوں کو سرشار کر رہاہے۔ پھر بھی دست بستہ عرض ہے کہ اگر اسرائیل غاصب ہے تو بھارت بھی غاصب جس نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ قرار دے دیا۔

ہمارے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور 5 اگست کی بھارتی بدمعاشی پر بھی صرف زبانی جمع خرچ۔
یزیدِ عصر نئی کربلا کے دَرپے ہے
جبینِ وقت پہ شبیر لکھ دیا جائے
آج کشمیر کی بیٹی کواڑ کھولے اِس انتظار میں ہے کہ کب پاکستانی فوج آئے اور اُسے اِس طویل قید سے نجات دلوائے۔ لاکھوں کشمیریوں کا خونِ ناحق پکار پکار کے کہہ رہاہے کہ ”حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے“۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ”ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے، اُسی قدر قربانی بھی زیادہ دینی پڑے گی“۔ تو پھر ہم کِس انتظار میں ہیں۔
 ہمیں دِلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا ہرگز شوق نہیں لیکن ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم سے یہ توقع ضرور کہ وہ کشمیر کی بیٹی کی پُکار پہ لبّیک ضرور کہیں گے۔ عالمِ اسلام سے ایسی کوئی توقع رکھنا عبث کہ سوائے چند ممالک کے کوئی بھارتی ظلم وستم کی مذمت کرنے کو بھی تیار نہیں۔

اقوامِ متحدہ کا حال یہ کہ وہ زورآوروں کے دَر کی لونڈی، گھر کی باندی۔ وہ تو گزشتہ سات عشروں سے کشمیر پر اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے سے قاصر۔ البتہ کپتان سے یہی توقع کہ وہ پاکستان کی شہ رَگ کو دشمن کے پنجہٴ خونی سے نجات دلانے کے لیے عملی قدم اُٹھائیں گے۔ صرف علامتی طور پرپاکستان کے نقشے میں کشمیر کو شامل کر دینے سے مسٴلہ حل نہیں ہوگا کہ بھارت عملی طورپر ایسا کرچکا۔ کشمیریوں کے جذبہٴ حریت اور آزادی کے لیے تڑپ دیکھ کرہمارا حسنِ ظن یہی کہ
پھر کوئی حسین رضی اللہ عنہ آئے گا اِس دشتِ ستم میں
پرچم کسی زینب رضی اللہ عنہ کی ردا ہو کر رہے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :