یوم مئی:اورنکلیں گے عشاق کے قافلے

بدھ 2 مئی 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

اگر ہم محض دن منانے کی علت کا شکار نہیں ہیں تو ہمیں ہر صورت ’یوم مئی‘کی تاریخ ،قربانیوں،حاصلات اور نتائج کو آج پر منطبق کرکے دیکھنا ہوگا۔1886ء سے کئی دھائیاں پہلے ’محنت کشوں‘ کے کام کے روزمرہ دورانیہ کا معاملہ مزدورتحریک کے دیگر عمومی مطالبات پر حاوی آچکاتھا۔آجر کی طرف سے مزدوروں کو 12سے 18گھنٹے تک کام کرانے کی روش نے مزدوروں کوپھر سے غلام داری نظام کے پرانے زمانے میں دھکیل دیا تھا۔

مشینوں پر طویل دورانئے کے کام کے بعد ’مزدور‘ کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا تصور محال ہوچکا تھا۔یہ مسئلہ ہر روز مزدور کے سامنے اپنے حل کا تقاضہ کرتا نظر آتا۔یونین سازی کے اولین دور میں ہی ’مزدورکے اوقات کار‘کا معاملہ اسکے ایجنڈے پر سرفہرست چلا آیا ۔

(جاری ہے)

پھر ایک صدی کے قریب جدوجہد کے مختلف مراحل نے 1886ء کے تاریخی سال میں ”8گھنٹے کام کا دن“کا نعرہ عملی نتائج کا سامان مہیا کرگیا۔

اس تحریک نے اس وقت پوری دنیا کے مزدوروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی جب امریکہ کے شہر شکاگو میں یکم مئی کو تین لاکھ سے زائد مختلف قسم کے نظریات کے ماننے والے مزدور،جن میں زیادہ ترانارکسسٹ تھے نے بالکل پرامن جلسے میں اوقات کار کم کرنے کا مطالبہ کیا،ان میں سے ہزاروں بعد ازاں ہڑتال میں چلے گئے۔ دو دن تک مسلسل احتجاج اور ہڑتال کے بعد تیسرے دن پرامن تحریک اس وقت خون میں ڈبودی گئی جب ایک پولیس والے نے مظاہرین پر بم پھینکا، اس سے دو مزدور شہید اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے۔

اگلے روز موسم کی خرابی اور اطلاعات نا ہونے کے باعث تین ہزار مظاہرین جمع ہو پائے تھے کہ کم مظاہرین کو دیکھ کر پولیس نے پھر ان مظاہرین پر دھاوا بول دیا جو اپنے شہید ساتھیوں کے خون کا حساب مانگ رہے تھے۔اس دن مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھی رپورٹ نا ہوسکی۔ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے دو لوگ بھی شامل تھے جو اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔

پولیس نے اپنی اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار مزدورراہنماؤں کو قراردیتے ہوئے ان پرمقدمہ قائم کیا ۔ اگرچہ کچھ ایسے مزدورراہنما جو’ہے مارکیٹ ‘ میں موجود ہی نہیں تھے سمیت آٹھ مزدورراہنماؤں البرٹ پارسنس، اگست سپائیز، سمیویل فیلڈن، آسکر نیب، مائیکل شوباب، جارج انجیل، ایڈولف فریشر اور لوئس لینگکو موت اور قید کی سزا سنادی۔ اس ”کنگرو کورٹ“ کی جیوری میں متعدد سرمایہ داری بطور جج فرائض دے رہے تھے۔

ان واقعات نے محنت کش طبقے کے شعورپر گہرے اثرات اور نتائج مرتب کئے۔بالخصوص سرمایہ دارانہ ریاست کے کردار کو مزید بے نقاب کیا۔ چند برس بعد” 8گھنٹے کے دن“کے مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا ۔ یہ محنت کش طبقے کی بہت کلیدی جیت تھی۔ اس جیت نے محنت کش طبقے کی تحریک کو مزید ہمت اور توانائی بخشی۔ کارل مارکس کے زندگی بھر کے ساتھی فریڈریک اینگلز نے 1890ء کو پہلی دفعہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منانے کااعلان کیا۔

تب سے اب تک یہ سال دنیا بھر میں محنت کش مناتے آرہے ہیں۔یوم مئی کا دن محنت کش طبقے کی یکجہتی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا میں یہ واحد تہوار ہے، جس کو تمام رنگوں ،نسلوں،فرقوں،مذاہب اوربراعظموں کے لوگ بھرپوراندازمیں مناتے ہیں۔ اس دن عمومی طورپرمحنت کش طبقے کی یکجہتی کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ عہد حاضر میں محنت کش طبقے کی حالت زار کیا ہے؟ محنت کش طبقے کی تحریک کس نہج پر ہے اور وہ تحریک جس کاآغاز ”کام کے اوقات کار“ کم کرانے کے نقطے سے شروع ہوا تھا اس میں کس حد تک پیشرفت ہوسکی۔

یقینی طور پر یوم مئی کی جدوجہد اور اسکی کامیابی کے بعد مزدوروں نے بے نظیر کامیابی حاصل کی جب انہوں نے کرہ ارض کے پانچویں حصے پر مزدورراج قائم کیا۔مگر 1886ء سے 1917ء کا عرصہ محنت کش طبقے نے بالکل سیدھی لکیر میں کامیابیاں حاصل کرتے نہیں گزارا تھا بلکہ انہیں بہت زیادہ ناکامیوں اور کامیابیوں کی متضاد کیفیات سے گزرنا پڑاتھا۔ مزدوروں نے جس معاشی وضاحت کے ساتھ ”اوقات کار“میں کمی کرائی تھی وہ کارل مارکس کے انہی نظریات کے دلیل تھی ،جس میں انہوں نے اجرت کے تعین کے سرمایہ دارانہ قوانین کے تضادات اورسرمائے کے ہاتھوں‘ محنت کی چوری کو پکڑا تھا۔

انہی نظریات کی روشنی میں ہی ولادی میر لینن نے روس میں مزدورراج قائم کیا تھا اور یہ مارکسی نظریات کا ہی فلسفہ تھا جس میں واضع کیا گیا تھا کہ اگر ایک ملک میں مزدورراج(سوشلزم کی استواری) کو جدید ممالک میں سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کاتسلسل نا دیا جاسکاتو پہلے والی حاصلات بھی کھودی جائیں گی۔چونکہ سوشلزم کا قیام تب تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری دنیا کے جدید ذرائع پیداوار کو (محنت کش طبقے کے کنٹرول میں ) پوری دنیاکی مشترکہ ملکیت نا بنادیا جائے۔

سویت یونین کے انہدام کی درست توجیح صرف یہی ہے کہ ایک عالمگیر انقلابی تسلسل کی فتح یابی کی جدوجہد کی بجائے‘سویت انقلاب کو ایک ملک کے اندر بند کردیا گیا تھا۔ چنانچہ مارکسی اساتذہ کی اپنی ہی پیش بینی کے عین مطابق ایک قومی حدود میں سمٹ کررہ جانے والا انقلاب بالآخر زوال پذیر ہوگیا۔ بالشویک انقلاب کی تمام تر نظریاتی خامیوں کے باجود اسکے ثمرات انسانی تاریخ میں بے بدل ہیں۔

خاص طور پر دنیا بھر میں مزدورتحریکوں نے جتنی اور جہاں بھی کامیابیاں حاصل کئیں انکے پیچھے سویت یونین میں ہونے والے انقلاب کے اثرات تھے۔ بالکل اسی طرح سویت یونین کی زوال پذیری نے محنت کش طبقے کی شکستوں،مایوسی اور تحریک کی زوال پذیری میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔موجودہ عہد کی رجعتیت اسی کیفیت کی عکاس ہے۔یہ صدمے کی کیفیت ایک عارضی رجحان ہے جس کو بالآخر ختم ہوکر ایک نئے عہد میں داخل ہونا ہے۔

مگراسکے ساتھ ہی خود سرمایہ داری نظام کی زوال پذیری نے اسکو ماضی سے بھی کئی گنا زیادہ وحشی بنا دیا ہے۔ وہ تمام مراعات جوماضی میں محنت کش طبقے نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی تھیں، وہ بتدریج واپس لی جارہی ہیں۔سرمایہ داری نظام کا وجود،ذاتی ملکیت اور شرح منافع پر ہے،عالمی سطح پر سرمایہ داری کے زوال کے گہرے ہونے کی وجہ سے محنت کے استحصال میں شدت آتی جارہی ہے۔

ماضی میں مستقل نوعیت کی قراردی جانے والی ملازمتوں کودیہاڑی داری کی طرف دھکیل دیا گیا ہے،اس طرح وہ تمام مراعات جو مستقلنوعیت کے مزدوروں کودینا لازم ہوتی ہیں ،دیہاڑی داری کے نظام میں وہ چھین لی گئی ہیں۔ زیادہ محنت اور کمترین اجرت کے فارمولے کے ساتھ ساتھ بے روزگاروں کی بڑی کھیپ کو دباؤ کیلئے استعمال کرنے کی پالیسی کو اور زیادہ وسعت دے دی گئی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں نجی شعبے میں کام کے اوقات کارمزیدکم ہونے کی بجائے اب 132سال کے بعدپھر بڑھائے جارہے ہیں۔ نجی شعبے میں 12سے 14گھنٹے تک کام لیا جارہا ہے۔بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کے بعد کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ نجی شعبے کیلئے وضع کردہ قوانین محض کاغذی ٹکڑے بن کررہ گئے ہیں۔ سوشل سیکورٹی اور پنشن کے قانون پر بہت ہی جذوی پیمانے پرعمل کیا جاتا ہے۔

لیبر کورٹس عملی طور پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اورمزدوروں کے حق میں کئے گئے معدودے فیصلوں پر عملدرآمدکرنے سے قاصرہوچکی ہیں۔مزدوروں کے ضمن میں دکھاوے کیلئے بھی کسی قانون اور انصاف کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ سب ایک طرف سویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داری کی گراوٹ کے باعث ہے تو دوسری طرف مزدوربغیر کسی نظریاتی کمک کے ‘طبقہ بننے اور طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہمت کھوچکے ہیں۔

سوائے پبلک سیکٹرکے چند حصوں کے ‘نجی شعبے میں نا صرف ٹریڈیونین ازم خاصہ نحیف ہوا ہے ۔ عہد کی رجعتیت،شکستوں اور انقلابی نظریات کے بغیر ’ٹریڈ یونین‘ مالکان کی خدمت گزاری کا ایک اوزار بن جاتی ہے۔ اسکے باوجود کہ ماضی میں جماعت اسلامی کی رجعتی ٹریڈ یونیز مزدوروں کی نا تو نمائندہ بن سکی ہیں اور نا ہی اپنی نظریاتی اساس کی وجہ سے مزدوروں کی نجات کا پروگرام دینے کی اہلیت رکھتی ہیں ،آج پھر ریاستی اداروں کی مدد سے ’ملی مسلم لیگ‘ کا لیبر ونگ معرض وجود میں لایا جارہا ہے۔

سردست انکا طریقہ کار ہڑتالوں ،دھرنوں اور محنت کشوں کے احتجاج میں جاکربے پناہ پیسے کا استعمال کرنا ہے تاکہ بے سروسامانیکے شکار مزدورکو’ٹینٹ،کھانے،ٹرانسپورٹ ‘کی سہولت دیکر زیر بار کیا جاسکے،دریں اثناء بہت سے دھرنوں اور احتجاجی معاملات ( بطور خاص پبلک سیکٹر)میں مزدوروں کے چھوٹے موٹے معاملات ”غیرمرئی“ ٹیلی فون کال پر حل ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ یہ طریقہ کار دائمی طورپر کامیاب نہیں ہے مگر ریاستی مداخلت کے اس نئے طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے پہلے سے ہی نحیف اور تھکی ہوئی ٹریڈیونین کو اور زیادہ ضعف پہنچانے کی ایک کوشش ضرورہے۔مگر پچھلے کچھ عرصہ سے محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں میں اٹھنے والی چنگاریاں‘(سماج کے حاوی حصوں کی طرف سے فراموش کئے جانے کے باوجود)محنت کش طبقے کے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔

یہ طبقہ اپنی اپنی لڑائیاں الگ تھلگ رہ کر لڑرہا ہے۔مگرکوئی ایک بڑی تحریک ،کوئینیا حملہ،مالکان یا ریاست کی کوئی اشتعال انگیزی ‘ان کو جوڑ کرایک نئی تحریک کاباعث بن سکتی ہے۔محنت کش طبقہ غیر روائتی اندازمیں ایسے ہی ہر کسی کوحیران کرسکتاہے ۔موجودہ یوم مئی بہت سنجیدہ عہد میں آرہا ہے۔ تضادات کے مختلف پہلومحنت کش طبقے کی توجہ کے متقاضی ہیں۔

جہاں ایکطرف 26دن کی ہڑتال کے بعدپنجاب کے زرعی کھیت معاونین نے اپنی مانگوں کومنواکر ایک سبق ثبت کیا ہے کہ جدوجہد کو جیتا بھی جاسکتا ہے۔دوسری طرف پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری جیسے معاملات پر عالمی سرمایہ داری کا زوال اورمقامی حکمران طبقے کے تضادات جیسے مختلف عوامل‘ نظریاتی غداری اور انحراف کے باوجود’رکاوٹ‘ بنتے نظر آتے ہیں۔

حکمران طبقے کی کمزوری بہت اہم عامل ہے ،پچھلے کچھ عرصہ میں بوکھلاہٹ میں کئے گئے اقدامات انکوتشدد اوربربریت کی کسی ایسی نہج پر پہنچا سکتی ہے جہاں سے تاخیر زدہ تحریک بڑھک سکتی ہے۔ایسی صورت میں موجودہ تمام عوامل کاکرداریکسربدل کررہ جائے گا۔ایک لمبے عرصے سے خود کوسیاست اورسیاسی سرگرمیوں سے الگ تھلگ رکھے ہوئے محنت کش طبقے کے کسی بھی تحریک میں بطور عامل آجانے کے بعد طاقت کا موجودہ توازن لڑکھڑاکر گر جائیگا۔

اکثریتی طبقہ،اپنے لئے طبقہ بن گیا تو پھر ایک نئے جہان کی تخلیق کا خواب حقیقت بننے کا سفر شروع کرسکتاہے۔محنت کش طبقہ کو آج 2018ء میں اسی عزم،جراء ت اور ارادے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ اس نے 132سال پہلے شکاگو کی ’ہے مارکیٹ‘ میں کیا تھا۔بعض اوقات آگے بڑھنے کیلئے پچھلی فتوحات سے شکتی لینا ناگزیر ہوجاتاہے۔موجودہ یوم مئی کی تاریخ میں ایسی ہی اہمیت ہے۔

تب بھی حالات بہت کٹھن تھے،پاؤں آبلہ پاتھے،زندگی ایک مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں تھی،آج بھی محنت کش طبقے کے پاس کھونے کیلئے سوائے مشقت،استحصال ،ظلم،بے انصافی اورسرمایہ دارانہ بربریت کے‘ کچھ نہیں ہے۔ان زنجیروں کے ٹوٹنے کے بعد ہی وہ دنیا معرض وجودمیں آسکتی ہے جہاں ’روٹی کا مسئلہ حل ہو کر انسانی تاریخ کا آغاز ہوسکے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ! ایک ہوجاؤ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :