
یوم مئی۔۔’سامراجی یلغار اورمزدورتحریک‘کیا کیا جائے؟
اتوار 2 مئی 2021

قمر الزماں خان
(جاری ہے)
جب انسانوں کی بہت بڑی تعداد کی محنت کا زیادہ ترصلہ چند لوگوں نے غصب کرنا شروع کردیا تو اس چھوٹے سے استحصالی طبقے کے پاس طاقت،اقتدار، سماجی،معاشی رتبوں کا ارتکاز ہوتا گیا اور محنت کرنے والی اکثریت اپنی محنت کے صلے سے محروم ہوکر‘غریب،محروم،مفلوک الحال اور مطیع ہوتی گئی۔
دولت کا اجتماع،چند ہاتھوں میں اقتدار،مخصوص لوگوں کے یا گروہ کے رتبوں کی بلندی اور طاقت کا ارتکاز‘ ظلم،ہیرا پھیری، لوٹ ماراوراستحصال کو بڑھاوادینے والے عاملین ہیں۔ یہی وہ بنیادی تضادات ہیں ،جنہوں نے طبقاتی کشمکش کی بنیادرکھی۔ صدیوں پہلے ہی محنت کش طبقے نے اپنی محنت کی لوٹ کھسوٹ اور اسکے نتیجے میں آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے کی مراعات یافتہ زندگی کی ”حقیقت“ کو سمجھ لیا تھا۔ اپنے محنت کے لٹ جانے اور اسکے سبب غربت اور محرومی کے پنپنے کی حقیقت کو آشکار کرنے والی” سمجھ بوجھ“ ہی ہر دورکے طاقت ورحلقوں کیلئے ناقابل برداشت رہی ہے۔ اس ”طبقاتی سمجھ بوجھ“ کو زائل کرنے کیلئے مراعات یافتہ تب سے اب تک ‘مسلسل نت نئے حربے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ حکمران طبقات اور اسکے حلیف حصوں نے محنت کش طبقے کی سوچ کو مفلوج کرنے کیلئے زیادہ تر کام ’فکری محاذ‘ پر کیا ہے۔ ایسی سوچوں کو پروان چڑھانے والے مخصوص’ نظریات‘ خلق کئے گئے، جن کا بنیادی مقصد اونچ نیچ کے نظام کو مقدس،آسمانی اور فطری قراردینا تھا۔حکمران طبقات کے زیرنگرانی ایسے نظریات نے مذاحمت اور ظلم کے سرکشی کو ناپسندیدہ قراردیا۔ہر دور میں استحصال کے خلاف جدوجہد کوتقدسات کی مخالفت اور غیر فطری قراردیا گیا۔ ظلم زیادتی، محنت کے استحصال اور اونچ نیچ کے نظام کے خلاف ہر آواز کوجرم اور قابل تعزیر سمجھ کر دبانے کی ہر سعی کی گئی۔ یہ انسانی تاریخ ہے،اسکے ہر ورق پر خون کے بڑے بڑے دھبے انہی انسانوں کے ملیں گے، جنہوں نے کسی بھی عہد میں‘ اپنی محنت پر اپنا حق جتلانے اور طاقت وروں کی مکارانہ لوٹ مار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ انسانوں کو مطیع رکھنے کیلئے ان کو ذہنی اور جسمانی غلام بنایا گیااور غلام داری کوفطری اور آسمانی قراردیاگیا ۔مگر انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اس نے دریاؤں کے پانیوں جتنے خون کو بہا کر بھی غلامی کو اپنا مقدر نہیں مانا اوران’ استحصالی فرمودات‘ کو تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنادیا۔ ’آفاقی احکامات ‘ کی پذیرائی مدہم ہوتے دیکھ کر مکاراستحصالی طبقات نے ’تقدسات‘ کا رخ بدلا۔ جائیداد،املاک اور دولت سے محروم محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کو تقسیم کرنے اوران سے اپنے اثاثوں کی حفاظت کیلئے وطن پرستی کا کھیل کھیلا گیا۔ اثاثوں پر قابض علاقائیت،قومیت،نسل پرستی اور(تاریخی اعتبار سے) ’چند سال‘ پہلے کی اپنی ’نقل مکانی‘ کوازلی اور اصلی اور بعدوالوں سے افضل بنا کر ایک اور زہریلا اور نشہ آور پراپگنڈا بھی مذموم مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ماضی کی مملکتوں اور جغرافیائی تقسیم کو مزید گہرا اور بامقصد بنانے کیلئے سرمایہ داری میں حکمران طبقے نے جدید ریاست کی تشکیل اس اندازمیں کی کہ(محنت کش) انسانوں کو انسانوں سے الگ الگ رکھنے کیلئے مختلف قسم کے تعصبات اور نفرت کو بڑھاوا دیا گیا۔بندوبست کے حوالے سے یہ طبقاتی جڑت کی تقسیم تھی۔ محض نظریاتی سازشوں پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ، استحصالی طبقات کے نمائندگان یعنی حکمران طبقے کی طرف سے محنت کش طبقے کی ہر حریت پسندانہ کاوش اور جدوجہد کو مسلح جھتوں کے ذریعے کچلنے کا طریقہ بھی استعمال کیا جاتاہے۔ محنت کے استحصال کو مستحکم اور برقرار رکھنے کیلئے ریاستی جبر کو مزید بڑھایا گیا۔ ایسا ہی ایک خونریز جبر 1886ء میں شکاگو میں ان مزدوروں کے خلاف ڈھایا گیا، جو کام کے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ کررہے تھے۔ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ان سے بارہ اور سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کام لیا جائے۔تاکہ وہ آٹھ گھنٹے آرام کرسکیں اور آٹھ گھنٹے اپنے کام کاج اور تفریح کیلئے تصرف میں لاسکیں۔ حالانکہ کارل مارکس کے معاشی نظریات جس میں انہوں نے اعداد وشمار پر مبنی جامع تجزیات سے ثابت کیا تھا کہ کسی مل یا فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور اپنے آٹھ گھنٹے کے ’کام کے دن ‘کے بالکل ابتدائی حصے میں ’پیداوار‘کے ذریعے تمام تر اخراجات(بمعہ مزدورکی یومیہ اجرت)پورے کرلیتا ہے، اس متذکرہ کام کے دن کے ابتدائی حصے کے بعد مزدور سے ’بلااجرت‘ کام کرایا جاتاہے ،جس سے ’قدرزائد ‘ پیدا ہوتی ہے ،جو ساری کی ساری مالکان کی جیب میں جاتی ہے۔ یوں کارل مارکس کے مطابق ”آٹھ گھنٹے کے کام کے دن“ کا بیشتر حصہ مزدور سے بیگار لی جاتی ہے۔ 1886ء میں مزدور ’قدرزائد ‘کومزدوروں کو دینے کا مطالبہ نہیں کررہے تھے بلکہ ’طویل ترین بیگار‘ کے گھنٹوں میں کچھ کمی کا مطالبہ کررہے تھے۔ مزدوروں کی اس پرامن جدوجہد کو جس میں انکے پاس سفید جھنڈے تھے،انہی کے خون سے سرخ کردیا گیا۔مئی کے پہلے دنوں میں مزدوروں کی اس جدوجہد کو ریاستی ہتھکنڈوں سے خونریز کیا گیا، پرامن مزدوروں کے جلسے میں بم پھینکا گیا، گولیاں برسائی گئیں اور اس بھیانک قتل عام کے بعد مزدور راہنماؤں پر ہی انکے ساتھیوں کے قتل عام کا مقدمہ چلایا گیا۔ مقتول مزدوروں کے راہنماؤں میں سے سات کو پھانسی اور ایک کو پندرہ سال سزا سنائی گئی جب کہ چار کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا۔ اس موقع پر پھانسی پانے والے ایک مزدورنے کہا تھا،” تم ہمیں جسمانی طور پرختم کر سکتے ہو، مگر ہماری آواز نہیں دبا سکتے“۔یہ بات وقت نے سچ ثابت کی۔یہ واقعہ مزدوروں کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن گیا ۔ تین سال بعدفریڈرک اینگلز کی قیادت میں ”مزدوروں کی دوسری عالمی انجمن “ نے یکم مئی کو مزدوروں کا’عالمی دن‘ قرار دے دیا ۔امریکہ کی کچھ صنعتوں میں اگلے سالوں میں اوقات کار میں کمی کرکے” آٹھ گھنٹے کا م کا دن“ کے مطالبے تسلیم کرلیا گیا۔ مزدورتحریک پر اس واقعے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اگلے سالوں میں مزدور تحریک ا س چھوٹے مطالبے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی ثابت ہوئی اور مزدوروں نے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے، کارل مارکس کے نظریات کے گرد انقلابی تنظیمیں اور پارٹیاں بنا کر تما م’ ذرائع پیدوار پر مزدوروں کے حق‘کے نظریہ کے تحت‘ جدوجہد کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔ صبرآزما مگر مستقل جدوجہد ‘بہت سی آزمائشوں سے نکل کر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی پیش رفت پر پہنچ گئی۔ اکتوبر1917ء میں مزدوروں نے روس میں زار شاہی، سرمایہ داری،جاگیرداری، اور سامراجی یلغار کو شکست دیکرپہلی مزدورریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس بہت بڑی فتح کے بعد جس میں حکمران طبقے کے ایک حصے پر کاری ضرب ملکیت کے پورے نظام پر شدت سے محسوس کی گئی تھی، حکمران طبقے نے دنیا بھر میں قدرے پسپائی اختیار کرتے ہوئے دنیا بھر کے مزدوروں کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے میں عافیت محسوس کی۔سویت یونین نے مزدوروں کے کام کے اوقات کار 8گھنٹے کرنے کا اعلان کیا تو پھراسکی پیروی دنیا بھر کے ممالک کو کرنا پڑی۔ دنیا بھر میں مزدوروں کی حکمران طبقے کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھنے لگی اور سامراجی ممالک کو اپنے منافعوں کو لگام دیتے ہوئے ’ویلفئیر اسٹیٹ‘ کے تصور کو قبول کرنا پڑا۔سویت انقلاب کے قائدین ولادی میر لینن اور لیو ن ٹراٹسکی نے بالکل آغاز میں ہی اس بات کی نشاندہ کردی تھی کہ اگر روس کے انقلاب کو دنیا بھر کا انقلاب نہ بنایا گیاتو اسکو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔لینن نے امریکہ کے مزدوروں کے نام اپنے خط میں ان سے اور دنیا بھر کے مزدوروں سے مدد کی اپیل کی تھی، لینن نے لکھا تھا کہ” ہم سامراج کا مکمل طور سے خاتمہ کرنے کے لئے ہم نے جدوجہد کا جھنڈا بلند کیا ہے۔ ہم جیسے‘ ایک محصور قلعے میں ہیں اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے دوسرے دستوں کے منتظر ہیں کہ وہ آکر ہماری مدد کریں“۔لینن جانتا تھا کہ انقلاب ایک ملک سے شروع کیا جاسکتاہے مگر کیمونزم کی تکمیل کیلئے عالمی انقلاب ناگزیر ہے۔ ’انقلاب مسلسل“ کے نظریات سے انحراف کے نتیجے میں سویت انقلاب کی زوال پذیری نے بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے کو نقصان پہنچایا۔ سرمایہ داری کے شدید بحران اور زوال پذیری کا سارا بوجھ پھر سے محنت کش طبقے پر ڈالتے ہوئے انکی تمام تر مراعات اور حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔ کام کا دن حقیقت میں آٹھ گھنٹے سے تجاوز کرکے وقت کے لحاظ سے 9سے 12گھنٹے اور(تکنیک اور تیز رفتار مشین کی وجہ سے) پیدواری عمل کے تیز ہونے کے باعث 18گھنٹے یا اس سے بھی طویل ہوچکا ہے۔جبکہ دوسری طرف اشیاء صرف کے مہنگا ہونے اور کرنسیوں کی بے توقیری سے اجرت مسلسل سکڑ رہی ہے۔ جدید مشینری ، مصنوعی ذہانت اور روبوٹس ،جن کو انسانی سہولت کا ذریعہ بنا کر ’محنت‘ کے اوقات کار کم کرنا چاہئے تھا، ذاتی ملکیت کے نظام اور شرح منافع کی حرص نے ان سہولیات کو بے روزگاری بڑھانے کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔اس قسم کی کیفیت کی ہمیشہ نشاندہی مارکسی اساتذہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ سرمایہ داروں کی ہوس اور حرص کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ ایک طرف موجودہ ذرائع پیداوار دنیا بھر سے افلاس،بھوک، غربت، بیماری اور جہالت کاحتی الامکان خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو دوسری طرف 7ارب آبادی کا بہت بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے محروم، افلاس کاشکار اور پچھلی صدیوں کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طرف تیزی سے ہر سال ارب پتیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ نے آنے والے سالوں میں غذائی قلت کی نشاندہی کی ہے۔ پچھلے ایک سال سے عالمی وباء کرونا نے بھی سب سے زیادہ محنت کشوں کے خاندانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ آکسفیم کے اعداد وشمار کے مطابق آنے والے دنوں میں بھوک کی وجہ سے روزانہ 12000افراد کی ہلاکت کا خطرہ ہے۔اس صورتحال میں محنت کش طبقے کو اپنی تاریخ کے سب سے سنجیدہ کیفیت کا سامنا ہے۔ محنت کش طبقے کیلئے مزدور انقلاب سے قبل کوئی بھی عہد پرسکون اور قابل قبول نہیں ہے۔ مگر سویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داری کی زوال پذیری کے بعد کے عہد میں جس قسم کی صورتحال بطور خاص محنت کشوں کیلئے پیدا ہوئی ہے اسکی مثال موجود نہیں ہے۔ روائتی ٹریڈ یونین جن حالات میں جدوجہد کیا کرتی تھی وہ اب معروضی طور پر یکسر بدل چکے ہیں۔مزدور دشمن اور کارپوریٹ سرمایہ داری کو تقویت دینے والے قوانین سے لیکر ریاستی ڈھانچوں کی شکستگی اور مزدوردشمنی کے محرکات کے سامنے ٹریڈ یونین کی پرانی تنظیمیں ،ڈھانچے اور انکا طریقہ کار اب بنیادی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔حکمرانوں کے پے درپے حملوں، نجکاری کے اعلانات اور مزدور دشمن قوانین کے باوجود 2015ء کی پی آئی اے کی تحریک کے بعد سے بڑی ٹریڈ یونینز نسبتاََ کم فعال نظر آتی ہیں۔ اس عرصے میں’خدمات کے شعبوں‘ کے محنت کشوں کی جدوجہد ہی وہ سنجیدہ پیش رفت ہے جس میں انہوں نے سماج میں محنت کشوں کی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ گزشتے ہفتوں میں بلوچستان کے ملازمین کی جدوجہدنے خود کو ناقابل شکست اور مسلسل استقامت پر استوار کیا تھا۔ تمام تردھمکیوں اور سازشوں کے بعد حکمرانوں کو عدالت کے ذریعے عارضی سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر محنت کشوں نے بہت حال ایک تاریخ رقم کی ہے۔ موجودہ عہد اور کیفیات میں ازسر نو مزدورتحریک کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ لڑائی نظریاتی بنیادوں کے بغیر لڑی ہی نہیں جاسکتی۔یہ کہنا جرم ہے کہ مزدور کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سامراجی نظام اور اسکے ہتھکنڈوں کو چیلنج کئے بغیر کوئی بھی جدوجہد سنجیدہ راستہ نہیں بنا سکتی۔ کہنہ اور بوسیدہ قیادتیں ‘ پرعزم نوجوان محنت کشوں کے ارمانوں اور جدوجہد کے راستے میں حائل ہیں۔ اب پرانے طریقوں سے محنت کش طبقے کی نجات کی لڑائی نہیں لڑی جاسکتی۔ اسلام آباد اور کوئٹہ کے دھرنے اور تحریکیں نئے رجحانات کو ابتدائی طور پر متعارف کراچکی ہیں ۔مگر ابھی محنت کش طبقے کی جدوجہدکا نیا فیز شروع ہوگا۔ یہ لڑائی‘ مزدور عدالتوں، این آئی آر سی،چارٹر آف ڈیمانڈ،سی بی اے کے گرد ریفرنڈموں ، الیکشنوں اور پھر ان کے نتائج کو سالہاسال عدالتوں میں چیلنج کرنے کے سارے (اصل مقاصد کو پس پشت ڈال دینے والے )عمل کو عبور کرکے کرنا ہوگی۔فیکٹری گیٹ پر جدوجہد اور عملی سرگرمیوں سے ہٹ کر‘ تمام متبادل راستے انتظامیہ اور مالکان کی سازشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔تمام وہ راستے جن کی گنجائش ماضی کے انڈسٹریل قوانین میں موجودتھی اب یاتو بند ہوچکے ہیں یا ناقابل عمل ہوچکے ہیں۔اس سال یوم مئی پر محنت کشوں کو اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کرنے کیلئے اپنی تاریخ کا بھی جائیزہ لینا ہوگا اور موجودہ کیفیات میں اپنی بقاء کی جنگ کیسے لڑنا ہے؟ پر بھی غور کرنا ہوگا۔سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت میں مزدوروں کیلئے ریلیف کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔ کرونا وباء نے نہ صرف سرمایہ داری میں علاج معالجے کے شعبے کو بے نقاب کیا ہے بلکہ کسی عالمی وباء سے نپٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ کرونا اور اسی طرح کی ہر آفت براہ راست محنت کش طبقے کو نشانہ بناتی ہے۔ ریاستوں نے کھربوں ڈالر کے ریلیف کابڑاحصہ سرمایہ داروں اور کارپوریٹ سیکٹر کو دیکر واضع کردیا ہے کہ یہ نظام اور اسکی حاصلات صرف سرمایہ داروں کیلئے ہے۔ محنت کشوں کو اپنا نظام قائم کرکے دنیا بھر کے وسائل دنیا بھر کے محنت کشوں کیلئے حاصل کرنا ہونگے، اسکے لئے سرمایہ داری اور سامراجیت کو شکست دینا ضروری ہے، کوئی درمیانی راہ‘ اب بچی ہی نہیں ہے۔دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہوجاؤ، تمہارے پاس کھونے کیلئے زنجیریں اور پانے کیلئے پورا جہاں ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قمر الزماں خان کے کالمز
-
یہ گراؤٹ انہیں برباد کر دے گی !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
بانجھ شور
ہفتہ 5 جون 2021
-
جنگ آزادی 1857ء کی سرکشی۔۔ابھی سفر باقی ہے!
پیر 10 مئی 2021
-
یوم مئی۔۔’سامراجی یلغار اورمزدورتحریک‘کیا کیا جائے؟
اتوار 2 مئی 2021
-
فرسودہ اوزاروں کی مشقیں
جمعرات 15 اپریل 2021
-
لال خان‘تاریخ کا نیا جنم
اتوار 21 فروری 2021
-
مزدور چارٹر
پیر 8 فروری 2021
-
اکتوبر1917:، جب فرمان مزدورجاری ہوا
پیر 9 نومبر 2020
قمر الزماں خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.