جنگ آزادی 1857ء کی سرکشی۔۔ابھی سفر باقی ہے!

پیر 10 مئی 2021

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

 تکرار سے یہی تاثر دیا گیا ہے کہ کریمیا کی جنگ (1853ء۔1856ء) وہ پہلی بنیاد تھی جس نے انگریز سامراج (ایسٹ انڈیا کمپنی )کے زیر نگین ہندوستانی فوج کے ایک حصے میں بے چینی اور غم وغصے کو گہرا کردیا تھا۔ ہندومذہبی دیومالاکے مطابق کسی بھی ہندو کا سمندر پار جانا اسکے دھرم کو بھرشٹ کردینے کے برابر تھا، جب کہ انگریز حکام انہیں روس کے خلاف اس جنگ میں بھیجنے پر مُصرتھے۔

یہ بے چینی اور کشمکش ابھی اپنے کھلے اظہار سے دور ہی تھی کہ 1856ء میں ہی فوج کے بہت سے حصوں میں ایسی بندوقیں چلانے کیلئے دی گئیں جن کے کارتوس مبینہ طور پر سور اور گائے کی چربی سے بنے ہوئے تھے اور کارتوس کے ایک سرے کو دانتوں سے کاٹ کرکر بندوق کیلئے کارآمد بنایا جاتا تھا۔ ہندوستانی فوج میں مسلمانوں اور ہندو‘ سپاہیوں کیلئے یہ ایک اشتعال انگیزی کے مترادف تھا۔

(جاری ہے)

مسلمان اور ہندوسپاہیوں نے یہ کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ انکار کے واقعات قابض انگریز سرکار کیلئے ناقابل قبول تھے۔ یہ معاملات بھی 1857 ء سے کوئی ایک سال پہلے شروع ہوئے تھے۔مگریہ تواس بارود کو صرف تیلی دکھانے کے مترادف تھا۔ اس سے بھی سنگین معاملات پچھلے سارے عرصے میں سماج کی رگوں میں سرائیت کرکے اب ایک ڈائنامیٹ کی شکل اختیار کرچکے تھے۔

    قبل ازیں پورے ہندوستان میں جابجا کسان تحریکیں ، شمالی بنگال میں سنیاسی بغاوت،بہار اور بنگال میں چنار کی بغاوت‘ اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں کسانوں کی بہت ساری بغاوتیں ہوئیں ، ان میں سب سے اہم بنگال میں مسلم کسانوں کی طرف سے ملابار کے موپلہ کسانوں اور فرازی تحریک تھیں۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بھی متعدد قبائلی بغاوت دیکھنے میں آئے۔

اس تناظر میں ، مدھیہ پردیش کے بھیلوں ، بہار کے سنتھلوں اور اڑیسہ کے گونڈز اور کھونڈوں کے بغاوتیں نمایاں ہیں۔ 1799ء میں ٹیپو سلطان کی سربراہی میں سرنگا پٹم کی لڑائی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ گوبہت سی تحریکیں ناکام ہوئیں یا اپنے بنیادی مقاصد کے حصول سے محروم رہیں مگر ہر تحریک نے ہندوستان کے سماج پر اپنے اثرات مرتب کئے۔     ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلام بنا کر انکی زندگیوں کو پامال کرنا شروع کیا ہوا تھا۔


جنگ پلاسی میں فتح یابی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے بہت بڑے حصے پر اختیار بڑھا لیا تھا۔کمپنی جس کاقیام1600ء میں تجارت کی غرض سے عمل میں لایا گیا تھا، اپنے پیش ر و ’ ولندیزیوں‘ کی روش پر انہوں نے نہ صرف علاقوں پر تسلط جمانا شروع کردیا تھا بلکہ تجارت ،کھلی لوٹ ماراور استحصال میں بدل چکی تھی۔مقامی صنعت بطور خاص سوتی کپڑے کی صنعت کو دانستا طور پر ختم کردیا گیا۔

ہزاروں سال سے خوشحال زرعی ملک کی زراعت پر بھاری بھرلگان لگا کر بیگارمیں بدل دیا گیا۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور مظالم سے کسان خاندانوں کو غربت،افلاس حتہ کہ فاقوں تک پہنچا دیا گیا۔ انہی کسان خاندانوں سے فوجی بھرتیاں کی گئیں۔ یہ فوجی سپاہی اپنے خاندانوں اور آبائی پیشہ زراعت کی زبوں حالی سے آگاہ بھی تھے اور دل برداشتہ بھی۔ بیس کروڑ آبادی والے ہندوستان پر دولاکھ سے کچھ زائد نفوس پر مشتمل ہندوستانی سپاہیوں کے ذریعے حکومت کی جارہی تھی۔

    ‘جیسا کہ مارکس اپنے مضامین میں لکھتا ہے کہ مقامی کپڑے کی صنعت کو انگریزوں نے دانستہ طور پر تباہ وبرباد کردیا۔برطانیہ سے سوتی کپڑا ہندوستان کی منڈی میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلاکر یہاں کی منڈی کو ہتھیا لیاگیا۔ اگرچہ اسکے مقابلے میں ہندوستانی کپڑا اتنا اعلی معیار کا تھا کہ جب برطانیہ کے ہاوس آف کامنز نے 1813 میں تھامس مور جسے 1820 میں مدراس کا گورنر بنایا گیا‘سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعدبرطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔مگر پھر اس ہندوستانی کپڑے کی جگہ پر برطانوی کپڑے کو بیچنے کے لئے کھڈی سے بنے کپڑوں پر بھاری ٹیکس اور محصولات عائد کردیئے گئے۔اس کے بعد ایسی ظالمانہ پالیسیاں اپنائی گئیں کہ برطانیہ کی ایکسپورٹ جو 1815 میں 25 لاکھ پاونڈ تھی وہ 1822ء تک 48 لاکھ پاونڈ ہو گئی۔

برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔اس طرح برطانوی کپڑے کو ہندوستانی مارکیٹ میں بیچنے کی راہ نکالی گئی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823 میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے،تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے۔

وہ لکھتا ہے کہ1814 سے 1835 تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834 میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورت حال کی مثال نہیں ملتی۔

ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیا پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔

مارکس لکھتا ہے کہ برصغیر کے ہزاروں سالہ نظام کو تباہ وبرباد کردیا گیا، اجتماعی ملکیت کے زرعی ڈھانچے کو توڑ دیا گیا۔انگریز حکام مقامی راجوں،نوابوں اور حکمرانو ں سمیت امراء سے بھاری رشوت لیتے تھے۔ صرف جنگ پلاسی کے بعد بنگال میں انہوں نے نواب بنانے کی رشوت کے عوض 26لاکھ پونڈ کمائے تھے۔دوسری طرف مغل بادشاہت کے خلاف چھوٹے موٹے حکمران ”کمپنی“ کی اعانت حاصل کرنے کیلئے ’دفاع‘ کیلئے بھاری اخراجات اٹھارہے تھے۔

”ایسٹ اینڈیا کمپنی“ اپنے ملازم مقامی سپاہیوں کے ذریعے مقامی راجوں،نوابوں اور حکمرانوں کو کرائے پر سیکورٹی فراہم کرتی تھی۔یہ دفاعی اخراجات ان مملکتوں، ریاستوں کی استطاعت سے زیادہ تھے۔کمپنی حکام کی لوٹ مار اور لالچ کی کوئی حد نہ ہونے اور مکارانہ تدابیر کی بنا پر ریاستیں اور راج واڑے بتدریج بکھر کر خود ہی کمپنی کی تحویل میں جارہے تھے۔

زراعت کو تباہ کرنے کی پالیسی کا نتیجہ بنگال میں قحط کی صورت نکلا۔ قحط جس نے مقامی آبادی کی بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا وہاں پر انگریزوں نے قحط میں وہ منافعے کمائے جس کا اس سے قبل تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔مثلاََچاول جو ایک روپے کے 120سیر ملتے تھے،قحط کے دوران ایک روپے کے تین سیر دے جانے لگے۔ یوں کمپنی کے گورے حکام نے مقامی لوگوں کی بھوک اور اموات کے بدلے خود کو لاکھ پتی اور کروڑپتی کرلیا۔

دوسری طرف کمپنی نے اپنی سیکورٹی فورسز جو کہ لاکھوں کی تعداد میں مقامی افراد پر مشتمل تھی کا بھی شدید استحصال شروع کردیا۔قابض گوروں کی افواج میں ستاسی فیص حصہ ہندوستانی فوجیوں کا تھا۔ مگر وہ برطانوی فوجیوں سے کمتر سمجھے جاتے تھے۔ ایک ہندوستانی سپاہی کو ایک ہی عہدے کے یورپی سپاہی سے کم معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ، ایک ہندوستانی سپاہی صوبے دار کے عہدے پر بھی ترقی نہیں پاسکتا تھا۔

ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی توسیع نے ہندوستانی سپاہیوں کو بری طرح متاثر کیا۔ انہیں اپنے گھروں سے بہت دور علاقوں میں خدمات انجام دینے کی ضرورت تھی۔ 1856 میں لارڈ کیننگ نے جنرل سروسز انلیسمنٹ ایکٹ جاری کیا جس کے تحت یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ سپاہی سمندر کے پار برطانوی سرزمین میں بھی خدمت کے لئے تیار ہوں۔بنگال آرمی کو اودھ میں اعلی ذات کی جماعتوں سے بھرتی کیا گیا تھا۔

وہ سمندر و عبور کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جسے ہندو مذہبی عقائد کے مطابق منع کیا گیا تھا۔ اودھ کے الحاق کے بعد نواب کی فوج ختم کردی گئی۔ یہ فوجی اپنی روزی روٹی سے محروم ہوگئے۔انگریز کا وجود سپاہیوں کو بھی کھٹکنا شروع ہوگیا تھا۔ اس پس منظر میں بے چینی موجود تھی نہ صرف ہندوستان بھر میں بلکہ سیکورٹی فورسز کے اس حصے میں بہت شدت سے جو مقامی سپاہ پر مشتمل تھا۔

نئی رائفل اینفیلڈر کے کارتوسوں کے معاملے نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ 1857ء کا سال انگریز سامراج کی لوٹ مارکے خلاف بغاوت کے طور پر عالمی تاریخ کا ایک اہم معرکہ بننے کے حوالے سے ان مٹ نقوش چھوڑ گیا۔     سور اور گائے کی چربی کے خلاف ہندو اور مسلمان سپاہیوں میں اضطراب تھا ۔ اینفیلڈررائفلزکے کارتوس نہ چلانے کی پہلی حکم عدولی مارچ 1857میں بیرک پور میں منگل پانڈے نامی سپاہی نے کی، تکرار اور بدتمیزی پر منگل پانڈے کو اپنے افسران پر حملہ کرنا پڑا۔

اسکو کمپنی انتظامیہ نے گرفتارکرلیا اور اگلے مہینے پھانسی کی سزا دے دی ۔یہ خبر ہندوستانی سپاہیوں کے غم وغصہ کو بڑھانے کا باعث بنی۔ مئی میں میرٹھ چھاونی کے85 فوجیوں نے نئی رائفل استعمال کرنے سے انکار کردیا۔کمپنی کے فوجی حکام نے انہیں دس سال قید کی سزا سنائی کر جیل میں بند کردیا۔صبر کے پیمانے چھلک اٹھے تھے۔ میرٹھ چھانی میں بغاوت شروع ہوگئی۔

یہ9 مئی1857 ء ہفتے کا دن تھا ۔ ہندوستانی سپاہیوں نے اپنے برطانوی افسروں کا قتل کیا اور جیل توڑ دی،اپنے ساتھیوں کو رہا کرالیا گیا۔یہ بغاوت تقریباََ ایک سال تک جاری رہی۔ 10 مئی کوہندوستانی سپاہیوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کردی جو کہ میرٹھ چھاونی چھاونی سے تقریباََ پنسٹھ کلو میٹر دور ہندوستان کا بڑا شہر تھا، اسی شہر میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہے تھے۔

بادشاہ شاعروں ،فنکاروں اورہر قسم کے تفکرسے ماوراء آورگان کے جھرمٹ میں محو استراحت تھے،وہ یہی کرسکتے تھے۔ باغی سپاہیوں نے بادشاہ سے بغاوت کی قیادت کی استدعا کی مگر بغیر فوج ،وسائل اور حتی کہ عرصہ سے کھوجانے والے حکمرانی کے وقار کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ پھر بھی باغیوں نے بہادر شاہ ظفر کو پورے ہندوستان کا بادشاہ قراردے دیا۔یہ بغاوت پٹنہ کے پڑوس سے راجستھان کی سرحدوں تک پورے علاقے میں پھیل گئی۔

ان علاقوں میں بغاوت کے چھ مرکزی مراکز تھے ، یعنی بہار میں کانپور ، لکھنو ، بریلی ، جھانسی ، گوالیار اوربہارکے علاقے۔سپاہیوں کے ساتھ عوام کا ایک حصہ بھی اس بغاوت میں دامے درمے سخنے شریک کار تھا۔جنگ آزادی اول یعنی 1857ء کا ایک اور مرکز کراچی تھی ، یہاں سے شروع ہونے والی بغاوت جلد ہی پورے سندھ میں پھیل گئی ۔ تاریخ دان پروفیسر لائق زرداری کے مطابق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے تالپور حکمران میر شیر محمد تالپور کو ایک خط لکھ کر بغاوت میں مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

میر شیر محمد نے اپنے سپاہیوں کو اسلحہ اور رقوم دے کر بادشاہ کی خدمت میں روانہ بھی کیاتھا۔ تاہم تالپور خاندان ہی کے ایک فرد کی انگریزوں کو مخبری کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔ان دنوں سندھ میں بمبئی نیوانفٹری کی چار رجمنٹوں کے علاوہ سیکنڈ یورپین انفٹری، ہارس آرٹلری کی چوتھی بٹالین کی دو کمپنیاں اور دیگر فوج تعینات تھی۔سندھ میں جنگ آزادی کی ابتدا ستمبر ااٹھارہ سو ستاون میں کراچی کی بندرگاہ پرایشیا نامی جہاز کے لنگر انداز ہونے سے ہوئی۔

اس جہاز پر حملہ کیا گیا مگر اس بغاوت کو جلد ہی کچل دیا گیا تھا۔جہاز کے کپتان نے اپنی اور جہاز کی حفاظت اور بے چینی کو روکنے کے لیے باغی رہنما کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس پر احتجاجا باقی عملے نے کام کرنے سے انکار کردیا۔مقامی سپاہیوں نے اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور پورے سندھ میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔ اس بے چینی کے اہم مراکز کراچی، حیدرآباد، شکارپور، جیکب آباد، سکھر اور میرپورخاص تھے۔

یہ بغاوت14مہینے تک ہندوستان کے مختلف حصوں میں رہی۔مئی سے ستمبر تک دلی میں باغیوں کا قبضہ رہا پھر یہ شہر بھاری بھرکم سپاہ ،جدید اسلحے اور رسل ورسائل کے ذرائع کی سبقت کی وجہ سے باغیوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور اہل شہر کو خون کی ندیوں کا خراج پیش کرنا پڑا۔ انگریزوں کی سب سے بڑی سبقت جدید ہتھیاراور تیز رفتار رسل ورسائل کا شعبہ تھے بطور خاص ٹیلی گراف ،جس کے سبب اطلاعات سرعت میں ہی سرکاری افواج تک پہنچ جاتی تھیں۔

اگرچہ باغیوں کے ساتھ شہری آبادی کا بہت کم حصہ تھا مگر بغاوت کی ناکامی کی سزا ہر کسی کو بھگتنا پڑی۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور سیکڑوں کو پھانسی دے دی گئی۔دلی والوں کوشہر بدر کردیا گیا اور کوئی ایک سال بعد واپس آنے دیا گیا۔بربریت کا بازار گرم کردیا گیا۔اتنا بڑا قتل عام کیا گیا کہ غالب جیسے شاعر پر اسکے اثرات دیکھیں کہ بعد کی 12سالہ زندگی میں صرف گیارہ غزلیں لکھ سکے۔

بوڑھے بادشاہ کو پکڑ لیا گیااور اس کے بیٹوں کو قتل کرکے انکے پیش کئے گئے ۔تاش کے بادشاہ سے بھی بے اثر بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کردیا گیا جہاں وہ 1862 میں فوت ہوگیا۔۔۔ اس طرح مغلوں کی شاہی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔اودھ‘ بھی بغاوت کا ایک بڑا مرکز تھا ۔ اودھ کی ریاست کو زبردستی کمپنی کے زیرنگین بنایا گیا تھا،سابق بادشاہ کی بیگم حضرت محل نے بغاوت کی قیادت سنبھالی۔

ریاست کی پرانی سپاہ کے بہت سے سپاہی باغیوں سے آن ملے تھے ،جنہوں نے پوری شجاعت سے گوروں سے جنگ لڑی۔ اسی طرح کانپور میں نانا صاحب کی قیادت میں بغاوت میں حصہ لیا گیا۔کان پور میں تانتیا ٹوپے کمانڈر نے نانا صاحب کے فرار کے بعد بھی آخر تک جنگ جاری رکھی، حتی کہ انگریزوں کی نئی کمک آنے سے شکست ہوئی اور گرفتاری کے بعد پھانسی کی سزا پائی۔جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے اتنی دلیری سے جنگ لڑی کہ دشمن داد شجاعت دینے پر مجبور ہوگئے ۔

جھانسی میں شکست کے بعد لکشمی بائی نے تانتیا ٹوپے کے ساتھ مل کر گوالیار پر قبضہ کرلیا۔کئی فتوحات کے بعد جھانسی کی رانی لڑتے لڑتے شہید ہوئی۔اسی طرح بہا ر میں کنور سنگھ نے بغاوت کی قیادت کی۔ادھر پنجاب کے علاقوں ساہی وال، چیچاوطنی، پاکپتن ، گوگیرہ ،اوکاڑہ میں احمد خان کھرل نے اپنی بہادری اور حریت پسندی کی نئی داستانیں رقم کیں۔وہ ڈھول کی تھاپ پر انگریزوں کو للکار کر ان پر حملہ کرتا اور انگریز سپاہ کو ناکوں چنے چبواتا۔

ایک انگریز کمشنر کے بقول احمد خاں کھرل نے تین ماہ تک انگریزوں کا راستہ روکے رکھا۔بہت سے معرکوں کی فتح یابی کے بعد 21 ستمبر 1857 کوجب گشکوری کی جنگ میں، سرفراز کھرل کی مخبری پر رائے احمد خان کھرل شہید ہو گئے ۔میرٹھ چھاونی میں بغاوت کی خبر پنجاب بھر میں مذاحمت کو جنم دینے کا باعث بنی تھی ، جس میں لاہور، سیالکوٹ، گجرات اور امرتسر میں انگریزوں پر حملے کئے گئے ۔

ان حملوں کے جواب میں سینکڑوں شہریوں کو پھانسیاں دی گئیں اور توپوں کے سامنے باندھ کر اڑا دیا گیا۔مراد فتیانہ بھی گوگیرہ کا ہی حریت پسند تھا ، جس نے انگریز کے خلاف احمد خاں کی شہادت کے بعد جدوجہد جاری رکھی۔ بے سروسامانی میں یہ ایک بے مثال بغاوت تھی جو ایک سال اور دو ماہ تک جاری رہی۔ اس بغاوت کی سب سے بڑی کمزوری ہندوستان بھر میں اسکی جڑت کا نہ ہونا تھا۔

وسائل بالکل ہی کم تھے جب کہ ہندوستان میں بااثراشرافیہ، نوابوں، راجاؤں اور گدی نشینوں کے غدارانہ کرداربھی اہم ترین عاملین میں شامل تھے۔ دو باتیں یاد رکھنے والی ہیں کہ واسکو ڈے گاما اور ولندیزیوں کا ہندوستان کے ساحلوں پر قبضہ اور عرب تاجروں کے ہزاروں تجارتی جہازوں سمیت تجارتی راستوں پر قبضہ اسکے جدید ترین توپ خانے کے سبب ممکن ہوسکا تھا ۔

اسی طرح انگریز کے پاس بھی جدید آتشیں اسلحہ تھا جب کی مقامی حکمرانوں کا جنگی شعبہ بے سروسامانی کا شکار اور دقیانوسی تیر اور تلواروں کی چمک دھمک کا حامل تھا۔ دوسری طرف انگریزوں نے تقسیم کرو اور راج کرو کے طریقے کے تحت امراء ، مذہبی پیشواؤں، نوابوں،راجوں اور اشرافیہ کورشوت دیکر اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کیا ہوا تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہی اس نئی قیادت کو مستقبل کے ہندوستان کی حکمرانی کے لئے تیار کرلیا تھا، اس طبقے کی سب سے بڑی خوبی انکا اپنے ملک سے غدارہونا تھا۔

ان امراء نے ہندوستان کو انگریز کاغلام رکھنے میں نہ صرف انکو افرادی قوت فراہم کی بلکہ پیسے، غذائی رسد سے لیکر حریت پسندوں کی مخبری کرکے انکو تہہ تیغ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان کے شورش زدہ حصوں میں بالخصوص اور باقی جگہوں پر بالعموم ظلم و استبداد کے ایسے مظاہرے کئے گئے کہ فلک نے ایسے دھشت ناک مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے۔

زیادہ تر باغیوں کو توپ کے ساتھ باندھ کر گولوں سے اڑا دیا گیا۔ کئی شہروں اور راستوں کے تمام درختوں پر باغیوں کو پھانسی دیکے انکی نعشیں سال بھر لٹکائی گئیں۔ سویلین آبادیاں اس بربریت سے مبرا نہیں تھی۔ بلاوجہ یا وجہ بنا کر لوگوں کو پکڑ کر کوڑے لگائے جاتے یا انہیں رینگ کر چلنے پر مجبور کیا جاتا ۔چھوٹے چھوٹے جرائم پر پھانسیاں دی جاتیں اور بھاری جرمانے کئے جاتے۔

    یہ سارے مظالم کے بعد بھی برصغیر میں انگریز اپنے قدم جما کر نہیں رکھ سکا۔ 1857ء کی جنگ آزادی اور بعد کی بہت سی بے نظیر تحریکوں ، بغاوتوں اور سرکشیوں نے ہندوستانی سماج کو واضع طور پر دو حصوں میں تقسیم کئے رکھا۔ ایک طرف انگریزوں کے ظلم وستم، بربریت ، جنونی قتل عام اور انسانیت سوز تشدد کے جواب میں گاندھی جی کا عدم تشدد کی مجرمانہ فلسفہ اور بذدلانہ پالیسی تھی ،جس کے تحت ہندوستان کے لوگوں کوظلم برداشت کرکے چپ رہنے کی تلقین تھی ۔

کانگریس اور مسلم لیگ ان غداروں سے بھری ہوئی تھیں اور ہیں جن کے خانوادوں نے جنگ آزادی سے لیکر اب تک برصغیر کے لوگوں کے مفادات کے خلاف عالمی یا مقامی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بن کر عوامی مفادات کی سوداگری کی ہے۔دوسری طرف جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں حریت کی ایک دوسری لہر جس میں لالہ لاجپت رائے سے بھگت سنگھ ،راج گرو، سکھ دیو، چندر شیکھر آزاد ، نیتاجی سبھاش چندربوس، کیپٹن شاہنواز، لکشمی سہگل،پدما ورما ، حبیب خان کے کرداروں نے اپنے اپنے عہد میں انگریز سامراج کے خلاف اپنے اپنے انداز میں حریت پسندانہ جدوجہد کی۔

پھر چالیس کی دھائی کی دو بڑی تحریکیں وہ سنگ میل ثابت ہوئیں ،جنہوں نے یہاں سے انگریز سامراج کی رخصتی کو یقینی بنادیا۔ مندرجہ بالا تحریکیں اور کردار تاریخ میں سنہری لفظوں سے تذکرے کے لائق ہیں مگر جنگ آزادی کے نوے سال انگریز نے برصغیر کو اپنے جانشینوں کو اس انداز میں سپرد کیا کہ لاکھوں افراد کے قتل عام اور کروڑوں افراد کی جبری نقل مکانی کے ذریعے ایک خونریز تقسیم سے برصغیر کو پارہ پارہ کردیا گیا۔

ہندوستان سے انتقام لیتے ہوئے اس کو توڑ کر انگریز چلا گیا مگر اپنا نظام اپنے جانشینوں کے سپرد کرگیا۔ وہ تمام مسائل، ظلم وجبر، بربریت، استحصال اور لوٹ مار مسلسل جاری ہے۔واسکو ڈے گاما کے ہندوستان پر پہلے قدم 1498ء سے 14اگست 1947تک 449سالوں میں ولندیزی،انگریز اور فرانسیسی سامراج نے ہندوستان سے اتنا کچھ نہیں لوٹا تھا جتنا پچھلے ستر سالوں میں یہاں لوٹ کر لے گیا ہے۔

بندوبست بدل کر لوٹ مار جاری ہے۔ عظیم سرکشی جس کو جنگ آزادی کہا جاتا ہے کی پاداش میں ہزاروں حریت پسندوں نے جن کو بہیمانہ تشدد اور بربریت کا نشانہ بنا کر ماردیا گیا تھا کے خون ناحق سے زیادہ ڈیڑہ ارب زندہ انسانوں کی غیر انسانی حالت زار کا تقاضا ہے کہ برصغیر سے سامراجی لوٹ مارکے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ یہاں کے محنت کشوں کو اپنا مقدر سنوارنے کا موقع میسر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :