بانجھ شور

ہفتہ 5 جون 2021

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

سماجی گھٹن اور جبر کے اس عالم میں' کسی واقعے کے بعد ابھی صرف ایک ہی طرف کا تحقیر آمیز رٹا رٹایا ردعمل سامنے آتا ہے، وہ بھی وسائل، گمراہ کن پروپگینڈے اوردباؤ کے ساتھ۔
 دوسری طرف گہری خاموشی میں صرف چند چہ مگوئیاں ہیں۔ گہری چپ میں "اندھیر نگری" والوں کو یہ مہین سرسراہٹ بھی گراں گزرتی ہے۔ مقدار کا معاملہ یہاں پر بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

اسی طرح یہ اظہار سماج کی عمومی تکلیف اور کرب کی پوری نمائندگی نہ کر پانے کے سبب نچلی پرتوں کو اگر کسی حد تک متوجہ بھی کرتا ہے تو کسی قسم کا ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ بڑے پیمانے پر عملی حمائت کی عدم موجودگی کے مضمرات پیدا ہوتے ہیں۔
چھوٹی موٹی آواز کو بھی ناقابل برداشت قرار دے کر بند کرادیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


 ابھی جاری و ساری مباحثے کا مواد اکثریتی طبقے کیلئے کوئی خاص معنے نہیں رکھتا۔

انکے مسائل بالکل بنیادی نوعیت کے اور یکسر مختلف ہیں۔ ابھی وہ تقریر وتحریر کی آزادی کے حق کے معنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
 جن کی زندگیاں روٹی کے بدلے رہن رکھی ہوں انکی ترجیحات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ وہ تو ناکافی اجرت کے سنگین معاملے پر بھی گنگ ہیں۔ کسی اور صدی کے پست معیار زندگی پر اکتفا کئے اور بغیر آواز کے ہر روز ہی سسکتے بلکتے تڑپتے اور مرتے ہیں، مگر صدا احتجاج سے خود کو ھم آہنگ نہیں کر پاتے ہیں۔

16/18 گھنٹے بنا بجلی قہر کی گرمی جھیلتے ہیں۔ اولاد نظروں کے سامنے بغیر بچپن، جوانی کے' محنت کی منڈی میں تول مول کے کانٹے میں ٹرپ ٹرپ بڑھاپے میں جا گرتی ہے۔ انکے پیاروں کے لئے تو معمولی بیماریاں ہی لا علاجی کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ قوت خرید ہے نہ فرصت، تعلیم حاصل کریں تو بھوک مریں۔ پینے کا پانی وہیں سے پیتے جہاں ڈھور ڈنگر پیاس بُجھاتے ہیں۔

زندگی وہاں بے آواز اطاعت کے پہلے شور بھرے پیام سے شروع ہوتی اور بغیر کسی روائت شکنی پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ پچھلے پچاس سالوں سے کسی تحریک کی عدم موجودگی کی وجہ سے طوالت اختیار کئے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کیسے بدلے گی؟ کیا سویلین بالادستی کا حصول انکی گہری خاموشی کی وجوہات کا جواب ہے؟ کیا ایسی تقریر و تحریر کی آزادی جو انکی زندگی بدلنے کے ٹھوس پروگرام سے محروم ہو، اس اکثریتی محنت کش طبقے کو ٹس سے مس کر سکتی ہے ؟ انکی عورتوں کے جسم محنت کی غلامی کیلئے کسی پردے، اخلاقی قدغن کے بغیر اپنے آقاوں کی مشینوں، کھیتوں میں کسی پرزے کی طرح میکانکی حرکت کر رہے ہیں۔

انکی زندگی معنے اور موت جواز کھو چکی ہے۔ کسی رنگ و ترنگ سے محروم لوگوں کے انبوہ ثقافت کی اعلی جہتوں تک رسائی سے محروم ہیں۔ انکے ابلاغ و تفہیم کی راہ میں بلا کسی وقفے سے غیر دلچسپ محنت کا تسلسل ہمالیہ کی طرح حائل ہے۔ جبر کی سنگینوں میں محنت کا جوا پہنے وہ سیکھ چکے ہیں کہ معنوں اور نتائج سے محروم لفاظی محض مشکلات میں اضافہ کرتی ہے، چنانچہ وہ چپ ہیں اور کسی اور کو چپ کرا دینے پر حیران بھی نہیں ہوتے۔

بے نتیجہ وعظ و نصیحت، وی لاگ اور نام نہاد بے لاگ تجزے اور تبصرے، سیاسی داو پیچ، مخالفتیں اور موافقتیں، ٹاک شوز اور سکرینوں پر ڈاگ فائٹنگ سب انکے درد کا مداوا کرنے سے کتراتے اور تائب نظر آتے ہیں۔
اس حالت میں نہ تو کسی فوجی حاکمیت میں اور نہ ہی شیروانی والے نظم ونسق میں انکی زندگی میں تبدیلی آتی ہے۔ فاشسٹ نظام مملکت اور نام نہاد جمہور کا بندوبست' انکی زندگی کی الجھنوں میں بال برابر بھی فرق نہیں لا پاتا۔

ہر آنے والا وقت' زندگی اور زیادہ اجیرن کرتا جارہا ہے. اس لئے وہ ان طرز حکمرانی کی کشمکش میں نہ فریق ہیں نہ طرف دار۔ ایسی صحافت جس میں انکے مرض کا علاج نہ ہو اسکی ازادی یا غلامی انکے لئے بے معنے ہے۔ ویسے تو ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ اس دنگل کو دیکھنے کے لئے اپنی محنت کی فروختگی کو کچھ لمحوں کے لئے بھی موخر کریں مگر دیکھیں بھی تو ان کے لئے یہ سب بے معنے ہے کیونکہ اس کھیل میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

اس کا قطعی مطلب نہیں کہ وہ اپنی مصیبتوں، ہلاکت خیز زندگی سے چھٹکارے کے خواہاں نہیں ہیں! مگر ان کو کوئی راہ بھی نہیں نظر آرہی۔ جس دن ان کو کہیں امید کی کوئی کرن نظر آئی تو وہ حرکت میں آئیں گے۔ تب انکی گہری خاموشی بھی ٹوٹ جائے گی۔ یہ خاموشی' احتجاجی مظاھرے کی بجائے سماجی دھماکے پر ٹوٹے گی۔ تب مصنوعی ردعمل دینے والوں کا بھی بڑا حصہ سماجی دھماکے کی زد میں آکر اپنے موجودہ کردار سے دست بردار ہو جائے گا۔

کشمکش براہ راست معرض وجود میں آکر پراکسیز کو غیر اھم کر دیگی۔ بہت لمبا عرصہ ثانوی موضوعات کے شور سے سماعتوں کو محصور رکھنا ممکن نہیں ہے۔ زندگی برقرار رکھنے کی ناگزیریت ہر جبر اور ضابطے کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسا کچھ عرصے سے نہیں ہونے کا بالکل بھی مطلب نہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ تاریخ کی حرکت سے نہ واقف اور نابلد ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :