فرسودہ اوزاروں کی مشقیں

جمعرات 15 اپریل 2021

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

گزشتہ دو دنوں سے پورے ملک میں افراتفری کا سماں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات ابھار کر سماج کو مفلوج کیا جائے۔ ماضی میں پیٹرو ڈالر تحریک کو نظام مصطفی کا نام دے کر پاکستان کی پہلی عوامی حکومت کو گرایا گیا تھا، وہ تحریک جن نعروں اور مقاصد پر استوار کی گئی تھی، وہ بھٹو حکومت گرتے ہیں غائب ہوگئے اور بعد میں ان ”نو ستاروں“ میں سے کسی نے اس معاملے پر بات نہیں کی کہ 1977ء کی تحریک آخر مارشل لا ء لگتے ہی ختم کیوں ہوگئی۔

مارشل لاء کو گیارہ سالوں پر محیط کرنے کیلئے باربارمذہب اور اسلامائیزیشن کی نعرہ بازی کی گئی مگر چند سزاؤں اور سطحی اقدامات کے پیچھے گیارہ سال تک الیکشن التوا میں ڈالے جاتے رہے اور لوگوں کو انکے ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا۔

(جاری ہے)

زوال پذیر نظام معیشت اور سامراجی جھکڑبندی کی بنا پر سابق نوآبادیاتی مملکت میں عوام کے لئے کوئی بڑی تبدیلی کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے آمریت کے بعد کی جمہوریتوں میں بھی عوام کے شعور کو مفلوج رکھنے کا عمل جاری رہا۔

مملکت کے اقتدار پرفائیز”جمہوری“ خواتین وحضرات‘ عمومی شعور مسخ کرنے اور توہم پرستی کی طرف راغب کرنے کیلئے ”بابوں “ سے چھڑیاں اور جوتے کھاتے رہے۔ آبادی کے پسماندہ حصوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے قدامت پسندانہ ملبوسات،دقیانوسی نشست وبرخواست اور توھم پسندانہ اقدامات کے ذریعے مایوسی اور صوفیانہ فراریت کی راہ دکھائی گئی۔ آمریت میں جمہوریت کو مسئلوں کا حل بتایا جاتا ہے اور جب جمہوریت آجاتی ہے اور کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر سے فوجی حملہ آوری کے راستے تلاش کئے جاتے ہیں مگر طرز حکمرانی کے بدلنے کے باوجودسرمایہ دارانہ نظام معیشت اور اسکے حملوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

سامراجی غلامی میں پھنسی ہوئی مملکت کے حکمرانوں کے پاس کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ وردی اور بغیر وردی والے ایک ہی طبیب سے علاج کراتے ہیں اور یہی طبیب ہی ہر مرض کو خلق کرتا چلا آرہا ہے۔
موجودہ عہد میں پانچ سالہ اور پانچ سالوں میں دواور تین حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہورہا۔ مسائل میں شدت پیدا ہورہی ہے، ہر نکالا جانے والا حل مسائل کو زیادہ گھنبیربنادیتاہے۔

نت نئے فارمولوں سے بحران زیادہ پچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ شاعر کے مطابق
 درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق جب حکمرانوں کا نظام شکستہ ہوکر اپنی بنیادیں کھورہا ہے تو ان کو کسی ایسے جذباتی مدعے کی ضرورت درپیش رہتی ہے ،جس سے بہت بڑا سماجی خلفشار پیدا کرکے عوامی مفادات اور ضروریات کے مطالبات کو پس پیش کردیا جائے۔

اس قسم کی خلفشار کا ایک فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ درپیش مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں مگر دوسرا اور طاقت ور پیغام یہی ہے کہ موجودہ نظام اپنے عہد کے لوگوں کے مسائل حل کرنے سے عاری ہوچکا ہے۔ پاکستان میں مذہبی نعروں کے ذریعے وقتی اشتعال پیدا کرنے کی مشق "ظاقت ور حلقے" بار بار کرچکے ہیں، 1953اور 1974 میں بلوے اور بدامنی پیدا کرنے کیلئے مذہبی مدعوں کو ابھارا گیا اور خوب استعمال میں لایا گیا۔

1976 میں بظاہر کوئی مذہبی مسئلہ موجود نہیں تھا۔مگر عام انتخابات(1977ء)سے قبل ہی "پاکستان قومی اتحاد" تشکیل دیا گیا، یہ پی ڈی ایم سے بھی زیادہ متضاداور منتشر قوتوں کا ملغوبہ تھا، اس شرمناک اتحادمیں بعض نام نہاد بائیں بازو اورلبرل کہلوانے والی سیاسی پارٹیاں بھی موجود تھیں۔ بھٹو مخالفت میں ولی خان اینڈ کمپنی اور معراج محمد خان جیسی شخصیات بھی ملک میں "اسلامی نظام کے نفاذ" کے نعروں والے بینر کے پیچھے ریلیوں میں موجود ہوتی۔

یہ سب امریکی اور سعودی پیسوں سے ہورہا تھا۔ بعد ازاں بار بار مذہبی اتحاد بناکر فراموش ہوتی اصطلاحات و تراکیب کی یاد دہانیاں کرائی گئیں۔ جہاد کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے پراکسی جنگیں اور فسادات سے لاکھوں لوگوں کو ماردیا گیا اور اتنے ہی لوگوں کی زندگیاں تاراج کردی گئیں۔ان کھوکھلے طریقوں سے ناکام حاکمیت اور مایوس کن نظریات کو مصنوعی آکسی جن فراہم کی گئی۔

موجودہ عہد میں طاقت ور حلقوں نے شدت پسند اقلیتی فرقے اہل حدیث کے بعداکثریتی بریلوی فرقے کے لشکر تیار کئے ہیں۔ یہاں بھی نعرے اور مقاصد یکسر مختلف ہیں۔ پاکستان میں 95 فیصد سے زائد لوگوں کا مذہب یکساں ہے اور وہ سب ہی ایک جیسے عقائد اور جذبات رکھتے ہیں۔ فرانس یا دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے گستاخانہ اور اشتعال انگیز افعال سب کیلئے ہی قابل مذمت ہیں۔

بلکہ دنیا بھی میں کوئی بھی متوازن انسان کسی بھی مذہب، فرقے یا عقیدے کے متعلق متعصابانہ یا گستاخانہ رویہ نہ تو اپناتا ہے نہ ہی اسکو پسند کرتا ہے۔ ایسی گھناونی حرکت مخصوص سیاسی،سفارتی یا مکارانہ حکمت عملی کے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ جب فرانس یا ڈنمارک جیسے ممالک کسی گستاخی یا مذموم حرکت کی پشت پناہی کررہے ہوں تو انکا بھی شعوری ایجنڈا ایک مخصوص رد عمل کا حصول اور جوابی اشتعال انگیزی ہوتا ہے جس سے انکے سامراجی نظام کے مختلف قسم کے مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔

ہم کسی طور بھی کسی مذہبی ، نسلی،قومی اشتعال انگیزی، تعصب اور نفرت پھیلانے والے عمل کو ”آزادی اظہار“ کی پیکنگ میں چھپانے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ یقینی طور پرناقابل برداشت ہے جس کے سبب عوام کو انکے مدعوں اور حقوق کی جدوجہد سے ہٹا کرفروعی معاملات میں الجھادیا جاتا ہے، انکی طبقاتی وحدت کو کمزور کرنے کیلئے ایک دوسرے سے متنفر کردیا جاتا ہے۔

جہاں مذہب ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہونا چاہے وہاں کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کسی اور کے مذہبی اعتقادات کا تمسخر اڑائے۔ مگرپاکستان میں جہاں عوام کی غالب اکثریت کے یکساں مذہبی عقائد ہیں وہاں پر کسی مخصوص اور منظم مذہبی شدت پسند تنظیم کو ابھارنے کیلئے کسی معاملے کے پراپرٹی رائٹس دیے جانا اور پشت پناہی کرنا غورطلب اور سنگین معاملہ ہے۔

بنظرغائر یہی محسوس ہوتا ہے کہ طاقت ور حلقوں کی پشت پناہی سے اس قسم کے جھتوں کو تیار کیا جانا مستقبل میں کسی ممکنہ عوامی تحریک سے نمپٹنے کیلئے ہے۔ فیض آباد دھرنے میں جس قسم کا مشفقانہ ر ویہ اختیار کیاگیا ، حتہ کہ گزشتہ کل سے پورے ملک کو مفلوج کرنے کی راہ میں کوئی سنجیدہ رکاوٹ نہ ڈالے جانا ایک مخصوص پالیسی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ مگر پاکستان جیسی جدید ریاست کے 22 کروڑ لوگوں کو مستقل طور پر انکے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی محنت کش طبقے کی کسی بڑی تحریک کو ان تنکوں سے ٹالا جاسکے گا۔

یہ ایک دو دفعہ کا واقع نہیں ہے بلکہ بار بار پاکستان میں پسماندہ اور دقیانوسی حصوں کے بالکل بالمقابل پاکستانی سماج کے بہت بڑا حصے نے اپنی رائے دہی کے اظہار میں مذہبی، فرقہ پرو اور شدت پسندوں کو مسترد کیا ہے۔ حتہ کہ 1970 کے الیکشن سے قبل جب کفر کے فتوے جاری کئے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں کے نکاح تک فسخ کرنے کی بات کی گئی تو پاکستان کی اکثریتی آبادی نے ساڑھے تیرہ سو علما کے دستخطوں والے اس فتوے کو یکسر مسترد کردیا تھا، اور کافر قرار دی گئی پارٹی کو مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی بنا دیا تھا۔

فوجی آمر جنرل مشرف کے ایک مخصوص مقصد کے تحت متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے اور ساٹھ کے قریب ملاوں کو اسمبلیوں میں لانے والے واقعے کی استثنی کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر ایک ساتھ 20 رکن بھی منتخب نہیں ہوسکے ہیں۔ یہی پاکستانی سماج کا حقیقی تجزیہ ہے۔ سنجیدہ رائے دہی کے وقت عام لوگ ماضی کے نظریات و خیال کو نظر انداز کرکے آج کے مسائل اور بیانیے پر دھیان دیتے ہیں۔

اسی کمزوری اور مخمصے پر قابو پانے کیلئے} سماج کے کچھ حصوں کو جذباتی مذہبی نعروں کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض لبرل حتہ کہ غیر پختہ بائیں بازو کے کچھ رجحانات جب پاکستانی سماج کو ’بنیاد پرست‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا سارا دھیان وقتی اور جذباتی مدعوں پر سماج کے پسماندہ ترین حصوں کی نعرہ بازی ، توڑ پھوڑ، جنازے اور ریلیاں ہوتی ہیں۔

یہ مظاہر کسی بھی سماج کے مخصوص حصے کی وقتی بلکہ بہت ہی قلیل عرصے پر محیط ذہنی ہیجان کا اظہار ہوتا ہے نا کہ طرز زندگی کا مستقل مظہر۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے انسانوں کی اکثریت جدید طرز زندگی اور اسکے مختلف رجحانات کے مطابق ہی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ حتہ کہ ماضی میں رہنے کے نعرے لگانے والے بھی حال میں ہی رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ "زمانہ حال" کسی طور بھی گزرے وقتوں کے رجحانات، نظریات، سوچوں، طریقوں، افعال، تعلقات، اخلاقیات،لین دین، تجارت، معیشت،اقتصادیات، سیاست، طرزحکومت، ثقافت، سیاحت، سفارت،فن، علم، تکنیک، تحقیق حتہ کہ جنگ اور جنگی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

لہذا اگر ماضی میں رہنا ممکن نہیں ہے تو ایسے جذبات جو وقتی مظاہر کے طابع خلق ہوتے ہوں انکا دیرپا رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح بھیک اور خیرات کو ریاستی سطح سے بے روزگاری، غربت،بھوک اور افلاس کا حل بنانے کا مقصد بھوک کا خاتمہ کرنے کی بجائے روزگار کے حصول کی جدوجہد کی بجائے بھیک کی نفسیات کو فروغ دینا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے احساس پروگرام ، پناہ گاہوں سے خوراک کے ٹرکوں کی سروس کے بقراطی فارمولے دھری تلوار کا کام دے رہے ہیں۔

ایک طرف ناکام نظام کو بھیک اور خیرات کا ماسک پہنا کر قابل قبول ماننے پر اسرار ہے تو دوسری طرف عمومی نفسیات کو مجرمانہ طور پر مسخ کیا جارہا ہے۔ مگر نہ تو لاکھوں بے گھروں کو پناہ گاہوں میں رکھا جاسکتا ہے اور نہ کروڑوں بھوکوں اور بے روزگاروں کو بھیک اور خیرات سے فعال شہری بنایا جاسکتاہے۔بھیک اور خیرات کو سماج کے لئے قابل قبول بنانے کیلئے پھر سے مذہبی تاویلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر مذہبی شدت پسندی کو حکمران طبقہ ایک ’اوزار ‘ یا ’سراب‘ کے طور پر استعمال میں لاتا ہے جس کے نتائج ہمیشہ ہی بہت خوفناک نکلتے ہیں۔ موجودہ بنیاد پرستی کے جذباتی مظاہر کسی بھی ادنی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ زندگی بہر حال اپنی تمام تر حقیقتوں کے باوجود موجود ہے۔مسائل کا حل انکا حقیقی حل تلاش کرنا ہے ، فراریت کے ذریعے مسائل بڑھتے اور شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔

محض قرضوں کی گرداب میں پھنس کر یا سامراجی تجارت،جنگی حکمت عملی،قبضوں اور جارحیت کیلئے استعمال کے مقاصد کے گرد چند ایک حاصلات‘ نظام کی خوبی نہیں بلکہ اسکی بیماری کی عکاسی کرتی ہیں۔جاننے کی بات یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ داری نظام کے اندر موجود آبادی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اگر یہ صلاحیت ہوتی تو کوئی ایک بنیادی مسئلہ تو ملکی معیشت اور نظام کے بل بوتے پرحل ہوچکا ہوتا۔

پھر ماضی کے نظاموں میں گردن چھپانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ موجودہ نظام موجودہ عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ نسل انسان کو اپنی بقاء کے لئے اپنے آنے والے کل اور موجود آج کے تحفظ کے لئے حکمران طبقات کے تمام حربوں، حملوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرکے انکو شکست دینا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :