اکتوبر1917:، جب فرمان مزدورجاری ہوا

پیر 9 نومبر 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

اگر ہم سرمایہ داری نظام کے عذرخواہوں کی گفتگو پر دھیان دیں ‘ تو وہ اپنے نظریاتی دیوالیہ پن کو مجتمع کرکے ایک فتوی ضروردیتے ہیں۔ ان کے فتوے کے مطابق” طبقاتی کشمکش ختم ہوچکی ہے“ اور کسی انقلاب کا ہونا ناممکن ترین ہوچکا ہے۔انکے خیال میں سماج اور نظام یونہی چلتا رہے گااور اس میں کسی بڑی اور فیصلہ کن تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

وہ اپنے جمود کے اس تاثر کو تقویت دینے کیلئے جب بہت سے حیلے بہانے تراش رہے ہوتے ہیں ،اسی لمحے ’وقت اور عہد‘ بڑی تبدیلیوں سے ہمکنار ہورہا ہوتاہے۔ سوشلزم مخالف طبقے کا یہ نکتہ نظرآج پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ مارکس کے عہد میں بھی اتنے ہی تیقن سے طبقاتی کشمکش اور تاریخ کی پیش رفت سے انحراف کرتے پائے جاتے تھے۔ اگرہم ایک سو تین سال سے پہلے کے روس اور بالخصوص سرمایہ دارانہ دنیا کے نظریہ دانوں، سیاست دانوں اور حکمران طبقے کے سماجی تجزیے کا جائیزہ لیں تو وہ آج سے مختلف نہیں تھا۔

(جاری ہے)

تب بھی وہ آج کی طرح اپنے استحصال اور ظلم کے نظام کو دائمی قراردیتے اور اسکے مخالف کسی فیصلہ کن جدوجہد اور تحریک کی کامیابی سے صاف انکاری تھے۔    مگر اس قسم کی سوچیں کسی نظریے کے عکس کی بجائے ،ناکامیوں اورخوف کا ردعمل ضرورقراردی جاسکتی ہیں۔        103سال پہلے ‘روس میں اکتوبر انقلاب ‘ دراصل اپنی عظمت اور تاریخ کی بے نظیر پیش رفت سے بڑھ کر جمود پرستوں اور سماجی بے حسی کے چالاک نظریہ دانوں کو عملی جواب تھا۔

یہ جواب اسی دھتکارے ہوئے محنت کش طبقے نے دیا تھا جس کی فوقیت اور فیصلہ کن قوت محرکہ کو ہمیشہ ‘ اور شعوری طور پر نظرانداز کیا جاتا تھا۔تاریخ کی حرکت کو شہنشاہوں،بادشاہوں، مذہبی پیشواؤں اورعظیم سپہ سالاروں سے منسوب کرنے والے تاریخ دانوں اور مفکروں کے منہ میں خاک بھردینے والے اس ”بالشویک انقلاب“ نے ساتھ ہی ساتھ‘ دنیا بھرکے عیاروں کی ضرب المثلوں ،تمثیلوں ،داستانوں کے غباروں سے ہوا نکال کر رکھ دی،جن کا مقصد محنت کش طبقے کوحقیر ثابت کرنا ہوتا تھا۔

پیرس کمیون کے بعد دوسری دفعہ انسانی تاریخ میں محنت کش طبقے نے ثابت کردیا کہ عظیم ترین بادشاہوں،وسیع مملکتوں،ناقابل تسخیرافواج ،ذہین ترین وزراء اورمقدس ترین پادریوں کو انکے نظریات سمیت شکست دی جاسکتی ہے۔ انکے ناقابل شکست(باطل)نظام کو پچھاڑا جاسکتاہے اور سب سے بھی اہم بات کہ ”مزدور اور کسان ایک دیوھیکل ریاست پر براجمان ریاستی اہلکاروں کو دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال کر پھینک سکتے ہیں اورزمام زندگی ونظام سماج بھی چلا سکتے ہیں۔


زندگی کی ٹھوس اور تلخ کٹھنائیاں‘ نسل انسان کومعاشی رشتے اور سماجی حالات بدلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ حالات بدلنے کی جہد مسلسل کوہی انسانی تاریخ کا محور قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے کیمونسٹ مینی فیسٹو کے بالکل آغاز میں کہا تھا کہ ”معلوم تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے“۔ اسکے بالکل عین مطابق زندگی اور معاشرتی تبدیلوں میں طبقاتی بغاوتوں کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔

تمام تر ارتقائی تبدیلیوں کے باوجود، تمدن اور زندگی اتنی نہیں بدل سکتی تھی، اگرمخصوص حالات کی وجہ سے جمود کا شکار ہوکر ٹھٹھرجانے اورلمبا ہوجانے والے عرصوں کو بغاوتوں اورانقلابی پھیلانگو ں کے ذریعے عبور نہ کیا جاتا ۔1917ء میں اکتوبر کے مہینے(موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7نومبر)میں روس میں بالشویک انقلاب بھی انسانی تاریخ میں ایک ایسی ہی عظیم الشان پھیلانگ تھی ،جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

ہزاروں سالوں سے غلامی کے شکار محنت کش طبقے نے پہلی دفعہ اقتدار پر ’بطور طبقہ‘ قبضہ کیا اور چند سال کے اند رہی دنیا کے پسماندہ ترین ملک کو ایک عظیم سپر پاور میں بدل دیا۔اس عظیم الشان انقلاب نے صدیوں پر محیط بے شماردقیانوسی اورپسماندہ تصورات ، عقائد ، اور نظریاتی مفروضوں کو رد کرکے راوئیتی حکمران طبقے کی جگہ مزدور کی کامیاب ،فعال اور بہت ہی اثرپذیر قیادت کے نئے تصور کو عملی تعبیر پہنائی۔

    پیرس کمیون کی جرات مندانہ لڑائی اور مزدوروں کے 69دن تک اقتدار کے قبضے کے بعد تاریخ نے اس سے کہیں بڑا منظر دیکھا۔ روس میں کروڑوں مزدوروں اور کسانوں نے ایک ہزار سالہ پرانی زار شاہی کو اکھاڑ پھینک کر تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیاتھا۔ اس سے قطع نظر کہ روس انتہائی پسماندہ ملک تھا مگر مزدوروں کی قیادت میں کسانوں اور محنت کشوں کے خشکی کے چھٹے حصے پر اقتدار نے دنیا بھر کی استحصالی قوتوں اور حکمران طبقات کے لئے زبردست خوف پیدا کردیا تھا۔

وہ اپنے اس خوف کو چھپانے کے لئے انقلاب کے چند ہفتوں میں ختم ہوجانے کی نوید سنا رہے تھے ۔مگر انقلاب کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا اور روس کے بعد ھنگری،پولینڈ،جرمنی،برطانیہ،چین سمیت دور دراز کے ممالک میں طبقاتی تحریکیں اور بغاوتیں امڈنا شروع ہوگئیں۔ حتہ کہ برصغیر میں بننے والی کیمونسٹ پارٹی آف انڈیااو ر انڈین لبریشن آرمی کا کردار انگریز کی برصغیر سے رخصتی میں اہمیت اختیار کرگیا۔


موجودہ عہد میں انقلاب روس کا جائیزہ لینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے نظام کی ناکامی پر بوکھلا کریا تو سوشلزم اور کیمونزم کو ایک بھیانک نظام سے تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔امریکہ میں ٹرمپ اورپاکستان میں عمران خان ہر ہفتے سوشلزم اور کیمونزم پر حملہ کرکے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی پر جھنجھلاتے نظر آتے ہیں۔

انکو خواب میں منڈی کی معیشت کا انہدام اور مزدوروں کا راج نظر آتا ہے۔ وہ اپنی ملکیت کے کھوجانے کے ڈرسے سوشلزم کے بارے میں مغلظات بکتے اور خود کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح حکمران طبقے کے مختلف دھڑے انقلاب کے لفظ کو بہت مسخ شدہ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔کبھی انقلاب سے ڈرایا جاتا ہے کبھی انقلاب کو خونی قرار دے کراس کو اپنے موجودہ نظام سے بھی زیادہ ہولناک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی اس انقلاب فرانس کی بات کی جاتی ہے جو کہ اپنے عہد کے لحاظ سے تو عظیم تھا مگر اسکو اکسویں صدی میں برپا کرنے کی بات ایسے ہی ہے جیسے جدید ٹرین کو ”لوکوموٹو“ کی بجائے گدھے سے چلانے کی کوشش کی جائے۔

حکمران طبقہ ‘ سارے رنگوں کے انقلابات کی بات کرتا ہے مگر دنیا کے سب سے عظیم انقلاب اور سرخ انقلاب یعنی بالشویک انقلاب کا ذکر کرنے سے گھبراتا ہے جسکی وجہ اس انقلاب کا واضع طبقاتی کردار تھا۔ اس انقلاب نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ثابت کیا تھا کہ سماج کو بنکوں،انشورنس کمپنیوں،منافع اور شرح منافع کی حرص اورذاتی ملکیت کے بغیر بھی چلایا جاسکتا ہے۔


دنیا بھر کے سرمایہ داردانشور اور ماہرین جس لفظ سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ ”منصوبہ بند معیشت“ کا لفظ ہے ۔یہی وہ معاشی نظام ہے جس کو منڈی کی معیشت کے اصولوں اور اسکے مالیاتی(استحصالی) اداروں کے بغیرچلا کر سماج کو حقیقی جنت کی شکل دی جاسکتی ہے۔چونکہ منصوبہ بند معیشت میں منافع اور ذاتی ملکیت کے بجائے مشترکہ سماجی ملکیت کے تصور کی حاکمیت ہوتی ہے اوراس وجہ سے سوشلسٹ نظام معیشت میں پیداوار کا مقصد لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

اس لئے یہ پیداواری نظام اور نظام معیشت سرمایہ داروں کی موت کا باعث بنتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ناقدین اور مخالفین نے سویت یونین کے خلاف لاکھوں کتابیں لکھیں مگر اسکی منصوبہ بند معیشت اور اسکے بے نظیر ثمرات کو لوگوں کے سامنے لانے میں ہمیشہ بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔اگر ہم روس کی معیشت کاپہلی عالمی جنگ سے 1963ء تک جائیزہ لیں تو اس کی صنعتی ترقی میں 52گنا اضافہ ہوا تھا جب کہ اسی دوران امریکہ کی معیشت میں چھ گنا اضافہ ہوا تھا۔

ایک نحیف اور پسماندہ روس ،سویت یونین بننے کے بعد اپنی منصوبہ بند معیشت کی بنا پرلوہا، فولاد،ٹریکٹر سازی،سیمنٹ ،معدنی تیل،گیس ،کپاس ،کوئلہ کی پیداوار اور کارخانے بنانے والے آلات کی فیکٹریوں اور خلائی پروگرام میں دنیا پر سبقت لے گیا۔1980ء تک سویت یونین کی پیداواری صلاحیت امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ چند دہائیوں میں ایک پسماندہ زرعی معیشت دنیا کی دوسری طاقتور ترین معیشت بن گئی۔

وہاں ایک طاقتور صنعتی بنیاد قائم ہوئی اور ایک بلند ثقافتی معیار تخلیق ہوا۔ وہاں امریکہ اور جاپان کل سائنسدانوں سے زیادہ سائنسدان تھے۔ اسی طرح انجینئرز اور اساتذہ کی تعداد بھی کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔اوسط عمر دوگنا ہو گئی اور بچوں کی اموات میں 9گنا کمی ہوئی۔ اتنے کم عرصے میں ایسی معاشی کامیابیوں کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ملتا۔

مکانوں کے کرائے ماہانہ آمدنی کے 6فیصد پر مقرر کیے گئے تھے۔ 80کی دہائی تک بھی ماسکو میں ایک فلیٹ کا کرایہ17ڈالر تک تھا جس میں گیس، بجلی،ٹیلی فون اور گرم پانی کی سہولیات شامل ہوتی تھی۔سویت یونین میں بے روزگاری کو جرم قرار دے دیا گیا تھا۔
ہمیں بالشویک انقلاب کی 103ویں سالگرہ کے موقع پر اسکی فتح یابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اسکے راستے کی رکاوٹوں کا بھی جائزہ لینا ہے تاکہ آنے والے وقت کی عالمی مزدور تحریک کی انقلابی جدوجہد کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر اپنی راہوں کا درست تعین کرسکے۔


 جرمنی (1918-1923ء) ، چین (1925-27ء ) اور بہت سے دوسرے ممالک میں انقلابات کی ناکامی، برطانیہ (1926ء)کی عام ہڑتال کو انقلاب میں تبدیل نہ کیا جانا، انقلاب روس کی تکمیل کی ابتدائی اور فیصلہ کن رکاوٹیں ثابت ہوئیں۔دوسری طرف پوری سرمایہ دار دنیا جو مخاصمت اور مخالفت میں سویت یونین کا معاشی،سیاسی اور عسکری گھیراؤ کئے ہوئے تھی‘ کے باعث روس کا انقلاب تنہا رہ گیاتھا۔

ٹیکنالوجی کی پسماندگی کے باعث انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہو گیا۔اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ریاست اور انقلاب “ میں لینن نے سوویت نظام کے اصول واضح طور پر بیان کیے تھے۔        1۔ آزاد اور جمہوری انتخابات اور سوویتوں کی جانب سے اہلکاروں کو کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا اختیار(پنچایت)۔2۔ کسی بھی اہلکار کی تنخواہ ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔


3۔ مستقل فوج کی جگہ مسلح عوام4۔ بتدریج ،ریاست کو چلانے کے تمام امورباری باری ہر کوئی ادا کرے گا۔جیسے جیسے معیشت پھیلتی گئی، ٹیکنالوجی جدید ہوتی گئی اور پیداواری اشیاء لاکھوں کی تعداد میں چلی گئیں،جس کے باعث اس کو موٴثر انداز میں چلانا مشکل ہو تا گیا۔اسی باعث لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں معاشی، سماجی اور ثقافتی پسماندگی کے ملک میں ہونے والا انقلاب سٹالن کے زیر اثر ایک مسخ شدہ شکل میں تبدیل ہو گیا۔

لینن کی بیماری،بعد ازاں وفات اور سٹالن کے ابھار کے بعد ایک بیوروکریٹک گروہ اقتدار پر قابض ہوتا گیا۔لینن کے وضع کردہ چار اصول بھلا دیے گئے۔ سٹالن کے اجرتی قاتل کے ہاتھوں 1940ء میں قتل ہونے والا ٹراٹسکی ‘ زندگی کے آخری لمحے تک اکتوبر کے نظریات کے لیے لڑتا رہا ۔    اس انقلاب کے قائدین نے خود پہلے ہی پیشن گوئی کر دی تھی کہ اگر 1919ء میں وضع کردہ بالشویک پارٹی کے اصولوں پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو سوویت یونین زوال پذیر اور منہدم ہو سکتا ہے۔

1921ء میں لینن نے کہا تھا کہ ،” برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے۔ اگر جرمنی میں انقلاب نہیں ہوتا تو روس کا انقلاب ختم ہو جائے گا“۔سویت یونین میں سٹالن کے تحت افسر شاہی کے زوال کا قصہ کوئی انہونی بات نہیں تھی اس کی نشاندھی خود مارکسی راہنماؤں نے کئی دھائیاں پہلے کردی تھیں۔سرمایہ داری میں منڈی‘ وسائل کے استعمال کا تعین کرتی ہے لیکن اس کے الٹ منصوبہ بند معیشت میں مسلسل منصوبہ بندی اور سمت کا تعین ضروری ہوتا ہے۔

منصوبہ بند معیشت کے لیے مزدور جمہوریت ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے آکسیجن۔ٹراٹسکی نے اپنی اہم ترین تصنیف ”انقلاب سے غداری“ میں 1936ء میں لکھا تھا کہ ،”اگر(سوویت یونین کی ) موجودہ بیوروکریٹک ڈکٹیٹرشپ کو ایک سوشلسٹ اقتدار سے تبدیل نہ کیا گیا تو اس کا زوال سرمایہ داری کی طرف واپسی کا باعث بنے گا جس سے صنعت اور ثقافت میں بہت بڑی گراوٹ آئے گی“۔

1991ء کے بعد کے حالات نے اس بات کو ایسے ہی ثابت کیا ہے!
سویت یونین کے انہدام اوروہاں بیوروکریٹک ازم کی ناکامی کو سوشلزم کا خاتمہ قرار دینے والے اپنے مخالفانہ اور معاندانہ پراپگنڈے میں یہ ہمیشہ ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ پے درپے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم ریاستوں کے انہدام،نظام کے ٹوٹ کر بکھرنے اور سرمایہ داری کو اسکے اپنے اصولوں کے برعکس چلانے پر اسے سرمایہ داری کے ناکام ہونے نتیجہ کبھی بھی قرار نہیں دیتے ۔

    
ان کی نظریاتی بددیانتی پر توجہ دلانا بے سود ہے کیونکہ ان کا پورا نظام ہی بدیانتی اور لوٹ کھسوٹ پر قائم ہے۔یہ اپنی مکمل موت سے پہلے اپنی بیماری تک کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔سوشلزم پر حملے کرنے والی آوازیں اب دم توڑتی جارہی ہیں کیونکہ سرمایہ داری کے بدترین بحران اور مسلسل زوال پذیری نے ان سے انکے جھوٹے بھرم بھی چھین لئے ہیں۔

سرمایہ داروں کے ہم نواسوشل ڈیموکریٹس اور سابقہ سٹالنسٹ ہیں جو انقلاب کے مسخ ہوجانیکا درست تجزیہ نہ کرسکے اور تاحال روسی بیوروکریسی کی ناکامی کے صدمے سے نہیں نکل سکے ہیں، انکے علم ،نظرے اور پراپگنڈے کی سطح ٹراٹسکی مخالف چیخم دھاڑ سے نہیں نکل سکی۔ آج کے دن تک بھی وہ سٹالنزم کے انہدام کا سائنسی تجزیہ دینے سے قاصر ہیں۔
موجودہ عہد میں آرٹیفیشل ذہانت اور مشین کے مبالغہ آرائی پر مبنی تصورات کو انسان کا بدل قرار دینے والے آدھے سچ پر انحصار کررہے ہیں۔

جن کے نذدیک صرف مشینیں ہی دنیا میں پیدواری عمل مصروف ہوں گی اور محنت کو خارج کردیا جائے گا۔ وہ دراصل ایک ایسی دنیا کی بات کررہیں ہیں جو نسل انسان سے یکسر عاری ہوگی اور زمین پر انسان کی بجائے صرف اور صرف مشینیں ہی ہونگی۔ یہ ایک بچگانہ تصور ہے۔ یہ طبقاتی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے نسل انسان کے خاتمے کا تصور ہے ۔ مگر انسان نے اگر زندہ بھی رہنا ہے اور انسانی زندگی سے بھی سرفراز ہونا ہے تو زمین پر طبقات کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔

دنیا ایک تبدیلی چاہتی ہے اور وہ اس کے دروازے پر کھڑی ہے۔منافع خورسرمایہ داری کے تحت بے روزگاری،بیماریاں، جنگیں اور لاشیں دی جاسکتی ہیں۔سرمایہ داری نے وسائل کو برباد کرکے ایک طرف قلت اورمحرومی پیدا کی ہے اور دوسری طرف نکمی جونکوں کو ارب پتیوں میں تبدیل کردیا ہے۔سرمائے کے بہاؤ کی یک رخی ہی سرمایہ داروں کا مقدس نقطہ نگاہ ہوتا ہے اسکے خلاف ہر آواز اور فلسفہ انکو مشتعل کردیتا ہے۔

مگر اب لوگوں نے جان لیا ہے کہ سرمایہ داری کے تحت دنیا آگے کی بجائے پتھر کے دور کی طرف جارہی ہے۔لوگوں کے شعور کو متبادل نظام کی جدوجہد سے ہٹانے کے لئے منتشر دماغ نظریہ دانوں کو گود لیا جارہا ہے مگر اس سے کام نہیں چلے گا۔ موجودہ بد ترین بحران میں یہ واضح ہے کہ انقلاب سے کم کوئی چیز بھی محکوم عوام کو اس ظالمانہ نظام سے آزاد نہیں کرا سکتی ۔

واحد انقلاب جو کروڑوں افراد کی ان کی محرومیوں واور دکھوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے وہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ جب عوام تاریخ کے میدان میں اپنا مقدر بدلنے کے لیے باہر آئیں گے تو حکمران طبقات کانپیں گے۔لیکن اس کو کامیابی صرف بالشوازم کے نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔اکتوبر انقلاب دنیا بھر کے محنت کش طبقے کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں اسکے خاتمے کی جدوجہد جاری رہے گی اور اب اس جدوجہد کا آغاز دنیا بھر کے مزدوروں کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچا کر دم لے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :