لال خان‘تاریخ کا نیا جنم

اتوار 21 فروری 2021

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

کامریڈ لال خان کو ہم سے جسمانی طورپر بچھڑے ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ انکے بچھڑنے کا صدمہ ایک حقیقت ہے۔یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کا کوئی متبادل نہیں ہوا کرتا۔بطور خاص ایسی شخصیات جو ہمہ صفات ہوں ،ان کا متبادل شخص نہیں بلکہ اشخاص اورادارے ہوتے ہیں۔کامریڈ لال خان نے پاکستانی سماج کی انقلابی تبدیلی کیلئے چالیس سال د ن رات کام کیا ۔

ان کی انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوئی۔کامریڈلال خاں ہر لحاظ سے منفرد انقلابی شخصیت کے طور پر ابھرے۔اگرچہ ماضی میں بہت سے انقلابی راہنماؤں نے بے مثال جدوجہد کی،قربانیاں دیں،حتہ کہ کچھ نے اپنی جانوں کا نذرانہ تک دیا۔ مگر ایک سقم روز اول سے ہی چلتا آرہاتھا۔ یہاں پر تاریخ،سماج،ثقافت اور انقلاب کے کردار کے بنیادی سوالوں کے جواب از خود تلاش کرنے کی بجائے ماسکو اور پیکنگ کی طرف دیکھا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

یہی وجہ تھی کہ برصغیر کے بٹوارے سے قبل بھی اور بعد میں بھی مارکسی انقلابی تنظیموں اور پارٹیوں کی بنیادیں شروع سے ہی کمزور ہوتیں اور پھر کسی بھی ”قبلے“ (ماسکویا پیکنگ) کے فیصلے سے پوری کی پوری پارٹی ہی اپنی ہیئت بدلنے پر مجبور ہوجاتی ، اس قسم کے کسی بھی فیصلے سے پارٹیوں کے ماضی،جدوجہد اور طویل سزائیں اور ابتلاؤں کے جواز بے معنی ہوجاتے۔

ماسکو اور پیکنگ سے نظریاتی مواد کے اردو ترجمے حقیقی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے جو مقامی کیفیات،تغیروتبدل،حقائق اورزمینی قوتوں کے توازن سے حقیقی طور پر لاتعلق ہوتے۔ اس کیفیت میں بننے والی پارٹیاں صرف آہنی ڈسپلن کی بنیاد پر اپنا وجود یا نام برقراررکھ پاتیں۔ نہ کسی سوال کی گنجائش ہوتی اور نہ ہی کوئی جواب مل پاتا۔بے تکے فیصلے ”انتظامی اتھارٹی “ کی بنیاد پر کئے جاتے اور یوں بلا وجہ نوجوانوں سے ایسے امتحان لئے جاتے جن سے انکے مستقبل اور زندگیاں تک داؤ پر لگ جاتیں مگر یہ سب کچھ محض ایڈونچرز ہوتے، کسی بڑے مقصد اور بڑائی لڑائی کو مدنظر رکھے بغیر ۔

لال خان نے بالکل آغاز میں ہی لکیر کے فقیر بننے کی بجائے اپنی راہوں کو معروضی حقائق کے مطابق وضع کرنے کی راہ اختیارکی۔ اس طریقہ کار سے بہت سے گھڑے گھڑائے نظریات ،تجزیات، لائحہ عمل اور طریقہ کارجانچ پرکھ کے بعد‘ بغیر کسی جواز کے پائے گئے اور نئے راستوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔کامریڈ لال خان نے اپنے کام کا آغاز ہی منفرد انداز میں کیا۔

انہوں نے پاکستان میں موجود انقلابی ربوٹس کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے سب سے پہلے مارکسی نظریات کی روشنی میں انقلابات کے ارتقائی سفر کو جانچنا شروع کیا۔ یہ ایک منفرد کام تھا۔ ”بالشویک انقلاب اور روس میں انقلاب کی زوال پذیری“ کے موضوع پر انہوں نے اپنی پہلی کتاب لکھی ،جس نے بحث کا رخ موڑدیا۔ یوں انقلابی سلیبس میں بنیادی تبدیلی عمل میں آئی اور گھسی پٹی باتوں کے تکرار،فتوی بازی اور ”میں نہیں مانوں“کے انداز کی بجائے حقائق کا سامنا کرنے کی روش کا آغاز ہوا۔

انقلابی نظریات اور اصطلاحوں کو عام فہم بنایا گیا۔ خوابوں کی جگہ حقائق کو مدنظر رکھا گیا۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ انقلابی رومانیت اور ہر حال میں درست ہونے کی بیماری سے چھٹکارے کی طرف پاکستان میں پہلا اور کھٹن قدم کامریڈ لال خان نے اٹھایا ۔ فتوی گروں نے ”سی آئی اے“ کا ایجنٹ قراردیا کیوں کہ ٹراٹسکی کا نام لینا اور اسکے نظریات ،تجزیات اور طریقہ کار کو متعارف کرانے کا یہی ”تمغہ“ عطا کیا جاتا تھا ۔

لینن ازم اور سٹالن ازم میں بعدالمشرقین کی وضاحت کے بعد ثابت ہو ا کہ روس میں سوشلزم نہیں سٹالنزم ہے جو کہ زوال پذیری کا شکار ہے۔سٹالن ازم کے انہدام کی نشاندہی اسکے وقوع ہونے سے قبل لال خان نے ہی کی تھی۔ غیر ترقی یافتہ ، سابق نوآبادیاتی ممالک میں مراحل کی بجائے براہ راست سوشلسٹ انقلاب کے نظریات کو کامریڈ لال خاں نے پوری وضاحت سے پیش کیا اور ہر اٹھنے والے سوال کا جواب پیش کیا۔

کامریڈ لال خاں ایک بین الاقوامیت پرست مارکس وادی تھے۔ ان کے نذدیک پاکستان سے بھی زیادہ اہم بھارت کا انقلاب تھا، اسی طرح وہ ایران،افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں انقلابی قوتوں کی تعمیر کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے، تمام تر رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود وہ لمحہ بھی اپنے اس فریضے سے غافل نہیں ہوئے۔ اسی طرح کامریڈ ٹیڈ کی محنت کش طبقے روائیتی تنظیموں میں کام کے طریقہ کارکی جدید اختراع بھی پاکستان میں پہلی دفعہ کامریڈ لال خان نے متعارف کرائی۔


کامریڈ لال خا ن کے راستے میں اگلے مراحل اس سے بھی زیادہ مشکل اور دقیق تھے۔ پوری کی پوری تاریخ اپنے سرکے بل کھڑی تھی۔حکمرانوں کے سامنے محنت کشوں کی تاریخ اور حکمرانوں کے راگ الاپنے کی بجائے تاریخ ساز عاملین کی وضاحت کا فریضہ بھی خود تاریخ نے کامریڈ لال خان کے سپرد کردیا تھا۔
حکمران طبقہ‘ تاریخ کو اپنی نگاہ سے دیکھتا اور پیش کرتا ہے۔

پرسکون اور لگے بندھے راستوں پر تاریخ کے بہاؤ کے مناظرکوسرکاری تاریخ میں اہم، ناقابل فراموش اور ”تاریخی“ گردانا جاتا ہے۔یا پھر ایسی جنگیں‘ جو انہی کے کسی حصے کی بالادستی ،حکمت،دانش اور جری ہونے کو ثابت کریں ، اہم واقعات کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ روزمرہ زندگی میں محو ومشغول ‘معاشرے بھی عمومی زندگی میں بڑاخلل ناگوارمحسوس کرتے ہیں۔

مگر زندگی کی بنیاد اور اسکی پیش رفت کا انحصار ہی موجود کی بجائے بہتر کو لاگو کرنا ہوتا ہے۔ حکمران طبقات کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ معاشروں کو اپنے”وضع کردہ“ راستوں پر چلاتے رہیں، اسی میں انکا مفاد، اقدار اور اقتدار محفوظ رہتا ہے۔حکمران طبقات سماجوں کی سوچ کو اپنے ”حصار“ میں رکھنے کیلئے ہر میدان میں اپنی نظریاتی کاوشیں جاری رکھتے ہیں۔

ساختہ تاریخ،من گھڑت تماثیل ،دیومالائی خرافات اور سرکاری ہیروزکی تخلیق‘ کو ابدی اور مقدس حقیقت بنادیا جاتا ہے۔اس قسم کی جعل سازیاں وقت کے ساتھ ساتھ عمومی سوچ کا لازم حصہ بن کرمستحکم ہوتی جاتی ہیں۔ تاریخ کے ساتھ اس قسم کے جرائم پرمبنی نظریات اور اقدامات‘ نسلوں کے مستقبل کومفلوج اور بے حس بنانے میں گہراکردار ادا کرتے آرہے ہیں۔

برصغیر کے سینکڑوں سالوں پر محیط سماج کی جمود طرز کی عمومی سست روی میں دیگر عوامل کے ساتھ اسی قسم کی شعوری مداخلتوں کی ایک سیریل کارفرما نظر آتی ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعددونوں ا طراف اس قسم کی جعل سازیوں کواپنی طرز کی جدت سے جاری وساری رکھا گیا۔تقسیم کی ناگزیریت کی تاریخی وجوہات گھڑی گئیں۔ بطور خاص سامراجی آقاؤں کی ضروریات کے تحت اٹھائے گئے اقدامات اور بندوبست کو آزادی کا متبادل قراردینے کیلئے ایک مکمل نظریہ میدان میں لاکر اسکی ریاستی وسائل سے مسلسل تشہیر کی گئی۔

یہ نظریہ حقائق اورتاریخ کو ڈھانپ کر”بظاہر“ ایک مجسم وتوانا شکل اختیار کرچکا ہے۔ لال خان کی سیاسی ،انقلابی زندگی کاسب سے اہم پہلو سرکاری تاریخ کے ساختہ پہلووں کو بے نقاب کرکے نئے اطراف کوپیش کرنا تھا،جن کو دانستہ تاریخ کے اوراق سے ہذف کیا جاتارہا ہے۔ یقینی طور پر یہ ”معرکہ“ اپنے پیش رووں کی بات کو زیادہ وضاحت سے آگے بڑھانے اور تاریخی شواہد کو ابلاغ کے اعلی پیمانوں پر پیش کرنے سے وقوع پذیر ہوسکا۔

لال خان نے نہ صرف انگریز سامراج اور اسکی دیسی باقیات کی دانشورانہ بدیانتی کوجھٹلایا بلکہ تمام تر حقائق کو تسلسل کے ساتھ پیش کرکے برصغیر کے بٹوارے کے اصل حقائق کو پیش کیا ۔ جہاں لال خان نے اپنی انگریزی میں لکھی کتاب "Partitation! Can it be undone" میں بٹوارے کی حقیقت ، سامراجی لوٹ مار اور تاریخی استبداد کی وضاحت کی ۔وہیں انہوں نے تاریخ سے اوجھل کردی گئیں عوامی تحریکوں، طبقاتی جدوجہد، انقلابی بغاوتوں اور حکمرانوں کو جھنجھوڑ دینے والے واقعات کو پھر سے تاریخ کے صفحہ قرطاس پر انمٹ لفظوں میں نقش کردیا۔

لڑکھڑاتے سامراج اور انکے چھوڑے ہوئے سیاسی ترکے (جن کو بعدازاں ریاستی وسائل اور پراپگنڈے سے لافانی کردار بنادیا گیا) کے حقیقی کردار اور اصلیت کو واضع کرتے ہوئے انکے مجرمانہ کردار کو من وعن پیش کیا۔ بٹوارے کے زخموں نے پورے سماج پر جو کاری ضربیں لگائی تھیں، اسکے بعد حکمران طبقے نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ اب سماج بے حس وحرکت رہے گا اور وہ بلا کسی مزاحمت کے لوٹ کھسوٹ اور راج کرتے رہیں گے۔

مگر تمام تر تجزیوں کی طرح یہ بھی حکمران طبقے کا ایک گمراہ کن تجزیہ تھا، جس کی دھجیاں 1968-69ء کی تحریک نے اڑا کررکھ دیں۔ یہ تحریک ان لوگوں کے لئے ایک سبق کا درجہ رکھتی ہے جو ’پہلے یا آج‘ کسی قسم کی تحریک کے ابھرنے سے انکاری تھے یا ہیں۔ کامریڈ لال خان نے یہاں پر ایک الگ سیاسی تاریخ کونئی نسل تک پہنچانے اور جعلی تاریخ کو طشت ازبام کرنے کیلئے ” پاکستان کی نئی کہانی “ لکھی۔

یہ حکمرانوں کی ”تاریخ“ کی دروغ گوئی کے مقابلے میں وہ اصل کہانی ہے جس کا ایک ایک لفظ عام لوگوں کی‘ بالخصوص محنت کش طبقے کی قوت محرکہ کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کہانی میں واقعات اور شواہد کی بنیاد پر ثابت کیا گیا ہے کہ حکمرانوں کے دانشوروں اور ابلاغ عامہ کے پراپگنڈہ کے برعکس حقیقی قوت اور ہر قسم کی تبدیلی کو معرض وجود میں لانے کی فیصلہ کن طاقت صرف اور صرف محنت کش طبقے میں موجود ہے۔


وہی عام محنت کش، وہی مزدور اور کسان جو ہر ستم کو قسم کا وار سمجھ کر برداشت کرتے چلے آتے ہیں اور جن پر ظلم اور جبر کرنے والے حاکم،مالک اور صاحب اختیار‘ انکو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے کبھی بھی کسی مذاحمت کا تصور تک ذہن میں نہیں لاتے ، وہی جب ہجو م سے طبقے میں بدلتے ہیں تو پوراسماج انکی مرضی سے حرکت کرتا ہے۔ ”پاکستان کی اصل کہانی“ ایک متبادل تاریخ ۔

کامریڈ لال خان نے موجود اور آنے والی نسلوں کو سرکاری تاریخ کی دروغ گوئی کی بجائے حقیقی تاریخ سے روشناس کرانے کا لازوال کام کیا ہے ،جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔    اسی طرح کامریڈ لال خان نے پاکستانی سماج پر ”افغان جہاد“ کے اثرات پر مفصل کتاب لکھی۔1980ء کی دھائی میں لکھی گئی اس کتاب میں افغان جہاد کی معیشت کے پاکستانی معیشت اور اسکے سماج اور سیاست پر دوررس اثرات کاتجزیہ کیا ۔

اسی تجزیے کی بنیاد پر پاکستان میں کالے دھن کے پاکستان کی سرکاری معیشت کے متوازی معیشت بن جانے اور اسکے اثرات کی نشاندہی کی گئی۔ یہ تجزیہ تب اپنی نہج کا منفرد جائیزہ تھا ،جس میں سماج کی مختلف پرتوں پر کالے دھن کے اثرات، ثقافتی گراؤٹ کے پھیلاؤ،سیاست میں کالے دھن کی سرائیت سے اسکے مہنگے تر ہونے کا جائیزہ لیا گیا تھا۔ اسی طرح سماج میں کالے پیسے کی بنیاد پر حاصل طاقت اور اسکے استعمال، دھونس اور جبر کے بڑھنے کا جائیزہ پیش کیا گیا تھا۔

کالے دھن کے ریاست اور اسکے اداروں کے اشتراک اور اسکے دوطرفہ اثرات سے اداروں کی ہیئت اور کردار میں تبدیلی کی پیش بینی بھی اسی تجزیہ کا ایک اہم حصہ تھی۔ کالے دھن کے متوازی معیشت بننے کے عمل کو اگلی دھائیوں میں بورژوا ماہرین معاشیات نے بھی کھلے عام ماننا شروع کردیا۔ کامریڈ لال خان کا بنیاد پرستی اور پاکستانی سماج کے مابین تعلق پر تجزیہ بھی عمومی تجزیوں سے یکسر منفرد رہا۔

وہ کبھی بھی پاکستانی سماج کی پسپائی اوربنیاد پرستی کی طرف مراجعت کے تجزیوں سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے افغان جہاد کے دوران، بعد کے ادوار اور پاکستان میں انتہا پسند مذہبی طاقتوں کے(ریاستی اعانت سے) مخصوص ابھار اورمملکت پرقبضے کی کوششوں کو سماجی مقبولیت کے نکتہ نگاہ سے قبول نہیں کیا تھا۔ انکا ”بنیاد پرستی“ پر لبرل یا کچھ بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کے برعکس تجزیہ تھا ۔

وہ برملا لکھتے اور کہتے تھے کہ پاکستا ن جیسے سماج کونہ صرف ماضی کے نظاموں سے چلانا ممکن نہیں بلکہ پاکستانی معاشرہ (مذہبی نعرہ بازی کے باوجود) ماضی میں واپس جاکر رہنے میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتا۔ان کے خیال کے مطابق ایسی کسی حرکت کوزبردستی کامیاب بنانے کیلئے بہت بڑی خونریزی کرنا ہوگا۔     کامریڈ لال خان نے برصغیر کی مظلوم قوموں، محکوم گروہوں، مذہبی اقلیتوں اور جبر کا شکار خطوں اور باشندوں پر جراء ت مندانہ پوزیشن اختیار کی۔

ان کا موقف بالکل واضع تھا کہ قومی جبر پر ہم چشم پوشی نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم قومی جبر کے نازک اور اہم مسئلے کو قوم پرستوں کے انتہا پسندنظریات سے حل کرنے کی تائید کریں گے۔لال خان کا تجزیہ تھا کہ ”بٹوارے کے بعد اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی حکمران طبقہ ایک یکجا ، جدید قومی ریاست اور ایک حقیقی پاکستانی قوم تشکیل دینے میں مکمل ناکام ہیں۔

طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی استحصال وجود رکھتی ہے اور محکوم قومیتوں کی بڑھتی ہوئی قومی محرومی بھی موجود ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قومی جمہوری انقلاب کا فریضہ پورا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ریاست نے محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں پر جبر کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ریاست سب سے زیادہ قومی جبر بلوچستان میں کر رہی ہے۔ بے تحاشا قتل و غارت ، اغوا اور بالخصوص سیاسی ورکروں پر وحشت جاری ہے۔

تاریخی طور پر متروک ، معاشی طور پر برباد اور رجعتی حکمران ٹولے نے اپنی ریاستی مشینری کے ذریعے پاکستان کو مظلوم قومیتوں کے جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔
وہ پاکستان میں قومی تحریکوں کے کردار پربھی واضع تھے ،انکے مطابق 1970ء سے قبل کی بالخصوص بلوچستان کی قومی تحریکیں نسبتاََ نظریاتی بنیادوں پر استوار تھیں مگر بعد ازاں (سویت یونین کے انہدام کے بعد )یہ تحریکیں سرمایہ داری کے اندرقومی مسئلہ حل کرنے اورسامراج کی مدد سے قومی آزادی کی توقعات کے سراب میں کھو کر اپنی منزل سے کہیں دور چلی جاتی ہیں۔

ان کا واضع موقف تھا کہ حقیقی معاشی اور قومی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہے اور یہ صرف طبقاتی جد وجہد کے ذریعے نہ کہ قومی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان سے محراب سنگت کے نام سے کامریڈ لال خان کو لکھے گئے قومی سوال کے بارے میں خط کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ” جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم سب بین الا قوامیت پسند ہیں۔

مارکسزم انٹرنیشنلزم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے ، اس کی مصنوعی سرحدوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے محکوم قوم کی قومی آزادی اور طبقاتی آزادی ممکن نہیں ہے۔ ہم محکوم بلوچ عوام کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہی موقف بلوچستان میں رہنے والے پشتون، ہزارہ اور جنوبی ایشیا اور دوسرے خطوں میں رہنے والے محکوم محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے بھی ہے“۔

اسی خط کے اگلے پیرے میں وہ لکھتے ہیں” مہراب سنگت کے ساتھیو ، ہم عالمی انقلاب کی پرولتاری فوج کے سپاہی ہیں۔ ہم آپ کی قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو دوسری محکوم قومیتوں کی طبقاتی جد وجہد کے ساتھ جوڑنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس سیارے کے ہر کونے میں اس استحصالی نظام اور اس کی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکنے کی عالمی جد وجہد میں آپ کو دعوت دیتے ہیں۔

سوشلزم نجی ملکیت کی نفسیات اور قومی جبر کا خاتمہ کرتی ہے جو آخری تجزیے میں وسائل ، دولت اور جائیداد کی ملکیت کا سوال ہے۔ بلوچستان کے وسائل صرف اسی صورت میں یہاں کے لوگوں کے ہوسکتے ہیں جب نجی ملکیت کے نظام اور ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت ، تقسیم اور تبادلہ کے نظام کا خاتمہ کر کے اجتماعی ملکیت کو رائج کیا جائے۔ یہ صرف محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے“۔


پاکستان کے قومی مسئلے پر بھی لال خان نے جو پوزیشن لی اسکو تمام مظلوم قوموں کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے پذیرائی ملی۔14جنوری 2020ء کو رحیم یارخاں میں کامریڈ لال خان کے تعزیتی ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے سرائیکی نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمجید کانجو نے کہا تھا کہ محکوم قوموں کی نجات کی لڑائی میں محکوم قوموں اورسوشلزم کے لئے جدوجہد کرنے والے انقلابیوں کو جوڑنے کا سب سے موثر اوزار لال خان کا قومی سوال پر نکتہ نظر ہے، لال خان کے بعد انکے ساتھی ہی انکے نظریات کی بنیاد پر پاکستان میں قومی سوال کو حل کرنے کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتے ہیں“۔

قومی سوال پر لال خان کا نکتہ نظر جو انہوں نے اپنے اساتذہ‘ مارکس،لینن اور ٹراٹسکی کے قومی سوال پر موقف سے اخذ کرکے مزید توانا کیا تھا نے‘ کشمیر پر تمام تر روائتی ‘ سرکاری اور غیر سرکاری مواقف سے زیادہ پذیرائی حاصل کی۔ اسی بنا پر بطورخاص کشمیر کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کامریڈ لال خان کی کتاب ”کشمیر کی آزمائش“ میں دیئے گئے تجزیے اور حل سے اتفاق کرتے ہیں۔

    کامریڈ لال خان جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے یہ ایک باقابل فراموش حقیقت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مندرجہ بالا نظریاتی مواقف کی گونج ہمارے کانوں میں ،ہمارے دماغ میں اور شعور میں ہر وقت لال خاں کو زندہ وتابندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہر روز سیاسی ،سماجی،معاشی،نظریاتی،علاقائی اور بین الاقوامی سوالوں پر لال خاں ہماری سوچوں کی راہنمائی کرتے پائے جاتے ہیں۔

ان کا تاریخ پر نکتہ نگاہ‘ سرکاری پراپگنڈہ پر استوار نصاب ونظریات کی بیخ کنی کرکے تاریخی مادیت کے اصولوں سے سوچوں کے دھاروں کو درست سمت لگانے میں مصروف کار ہے۔ یوں جب ہر پیدا ہونے والا شخص ‘زندگی کی چند دھائیاں گزار کرموت سے لازم ہمکنار ہوکر ہی رہتا ہے، محض راہنما سوچیں ، دیدہ ور شخصیات اور عالم گیر نظریات کے حامل اذہان تابندہ رہ کر مرے ہوئے اجسام کو امر کرتے رہتے ہیں۔

لال خان ‘ کانیاجنم تاریخ میں ہوگا۔لال خان کی ابدی زندگی کی راہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔ برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن لال خان کی منزل تھی۔ اس منزل کا حصول ہر انقلابی اور بطور خاص لال خان کے ساتھی کی زندگی کا مشن ہونا چاہئے۔ یہ مشکل فریضہ ممکن ہے، بس لال خان جیسی جراء ت،قربانی، ایثار،محنت اور مسلسل جدوجہد کاراستہ اختیار کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :