یہ گراؤٹ انہیں برباد کر دے گی !

جمعرات 11 نومبر 2021

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

جو بھی موجود ہوتا ہے' سب بدلتا رہتا ہے۔ حرکت، تبدیلی، ارتقاء اور انقلابات سب کچھ بدل دیتے ہیں۔ مگر تبدیلی کے بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں، کوئی ترتیب و ترکیب ہوتی ہے۔
  لفظوں اور تراکیب کی حرمت دائمی نہیں ہوتی۔ بلکہ تاریخی تغیرات اور معاشی نظاموں کا تبدل'  سماج کی پرتوں کو اتھل پتھل کر کے نئی ترتیب کے ساتھ نئے حفظ مراتب تشکیل دیتا ہے۔


 یہاں اپنے ہاں کچھ اور واقعہ ہے ۔ عہد حاضر میں   لفظ، لفظوں کے معنے،اصطلاحیں،القابات، خطابات حتی کہ الزامات تک جتنے بے توقیر اور غیر اہم ہوئے ہیں اسکی مثال ماضی میں خال خال ملتی ہے۔
 حب الوطنی اورغداری، پاکستانی وفادار یا انڈین ایجنٹ، پرامن سیاسی سرگرمیاں یا دھشت گردی، دیانتدار اور بد عنوان، کارآمد سیاسی کارندے اور بے کار مہرے۔

(جاری ہے)

وطن پرست راہ نما یا سیکورٹی رسک لیڈر، لٹیرے اور معزز' سمیت کتنے خطابات، القابات، الزامات ہیں جن کے معنے حسب منشاء بدلے ہی نہیں جاتے بلکہ اس رقص بے ہنگم کو کبھی کپڑے پہنا کر اور کبھی برہنا کر کے میڈیا پر ناچ کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والا عام انسان تعین نہیں کر سکتا کہ ریاست کی طرف سے دھشت گرد کا الزام یافتہ ابھی بھی دھشت گرد ہی ہے یا کسی وزارت پر فائیز ہو چکا ہے۔

یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ یہ ایجنٹ ابھی تک انڈین حمائت یافتہ ہے یا ریاست نے اسے وطن پرستی کی چھتر چھاؤں مہیا کر دی ہوئی ہے۔ لٹیرا کب کسی عوامی منصب سے سرفراز ہو کر 'راہ نما' بن چکا ہے، اسکی خبر میڈیا نہیں چلاتا بلکہ راہ نمائی کے ان مناظر کو دیکھنے کی صعوبت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ کبھی اسی ہاتھ میں آتشیں اے۔کے 47 ہوتی ہے اور پھر یہی ہاتھ منصوبوں کی تختیوں کی نقاب کشائی کر رہے ہوتے ہیں۔

رگوں میں اندھیرا انڈھیلنے والے نشے کے بیوپاری اور ہیرا پھیری کے رسوا کردار بڑی بڑی عبادت گاہیں اور شفا خانے بنانے کی بھی سعادت حاصل کرتے اور 'اطمینان' حاصل کرتے ہیں۔  پس پردہ یا پردے سے آدھا منہ نکالے طاقت ور حکمران اور عدالتیں جس کو بد عنوانی کا طوق پہنا کر تخت سے اتارتے اور جیلوں میں ڈالتے ہیں پھر اگلی دفعہ نئی سیٹنگ سے اقتدار تک پورے احترام اور پروٹوکول سے رسائی بخشتے ہیں۔

یہاں تاریخ نے عجب واقعات دیکھے
اپنی شکست و حزیمت کے بدلہ زمہ داروں سے لینے کی بجائے ' اسے ہی پھانسی چڑھا دیا گیا' جس نے دشمن کےزندان خانوں کو کھلوایا، زنجیریں تڑوائیں اور اسیروں کو پھول پیش کئے تھے۔
پاکستانی معصوم طلباء کے گلے کاٹنے والے "قاتلوں" کے اقرار نامے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے انکے 'نمائندے' کا لاڈ و پیار سے شرماتا لہراتا چہرے' ٹیلی وژن سکرینوں پر دکھایا جاتا ہے۔

گویا قاتل نہ ہو ہیرو ہو۔ پھر سینکڑوں اور ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں سے 'میثاق دوستی' کوئی جزا و سزا تو کیا' بغیر شرمندگی و خفت کے کر لئے جاتے ہیں، نہ وضاحت، نہ جواز اور ہی کسی سوال کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ماضی سے کوئی نہیں سیکھتا،   2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو  کو'  اسی عفریت نے راول پنڈی میں دن دیہاڑے قتل کر دیا تھا، حالانکہ سی آئی اے کے ہاتھوں ان 'جہادیوں' کی پیدائش کے پراجیکٹ میں محترمہ جنرل بابر  نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔


سرکاری الزام کے مطابق'  بھارت سے پیسے لے کر ملک میں فسادات، بلوے، سرکاری اہلکاروں کے قتل کروانے والوں کو دھمکیاں دیتے دیتے یکا یک مستقبل کا بھی سیاسی دوست قرار دے دیا گیا کہ سننے والوں کو حیران ہونے کا بھی موقع تک نہیں دیا جاتا۔
اپوزیشن اور اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل میں 'عہد'  کی قرار دی جانے والی اخلاقی قدروں کو ہر مرحلے پر پامال کیا جاتا ہے۔

اپوزیشن کا سچ اقتدار میں آکر جھوٹ میں بدل جاتا ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں، بد اعمالیاں، مفاہمتیں اور تاویلات اور ہوتی ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہی مناظر کی تفہیم یکسر بدل دی جاتی ہے۔ آمریت کی کوکھ میں پلنے والے سول بالادستی  کے دعوی کے ساتھ ساتھ رات کے اندھیروں میں غیر سویلینز کی شفقت کے بھی طلب گار پائے جاتے ہیں۔
عیار طاقت ور حلقے ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ لفظوں، معنوں، القابات،خطابات اور الزامات کی برسر عام بے حرمتی کے بار بار واقعات  کچھ اور اثرات بھی مرتب کرتے جاتے  ہیں۔

عام ذہن' مسلسل دھوکوں، چالاکیوں اور 'کہہ مکرنیاں' کا یہ کھیل "حرمت و تقدس" کے معنوں اور جذبات کو بھی کھوکھلا کر کے بے معنے بنائے جا رہا ہے۔ وہ جعلی حرمت اور تقدسات پہ مبنی نظریات' اخلاقیات اور خیالات' جن کو حکمرانوں نے اپنے تسلط کے لئے گھڑا(یا ماضی سے مستعار لیا تھا) اور ریاستی وسائل سے پروان چڑھایا' اخلاق کے بحران' کے باعث شکستگی کا شکار ہو رہے ہیں۔

خود ساختہ اعلی اقدار کی مالا کے دانوں سے گزرنے والا دھاگہ گل سڑ  چکا ہے۔ ہلکے سے سماجی دھماکے سے یہ دانے بکھر کر مٹی میں مل جائیں گے۔ اس جعلی نظام کی بنیادوں میں اس سے مستفید ہونے والوں نے ہی اپنی ثقافتی گراؤٹ  کا ڈائنا میٹ بچھا رکھا ہوا ہے۔ اگر کوئی نظام یا انتظام اپنے عہد کی ضروریات پورا کرنے کے قابل ہو تو وہ استحصال، جبر اور لوٹ مار کے باوجود طوالت اختیار کر جاتا ہے۔ مگر جو نظام اور اس کے حکمران اپنے زمانے کے لئے بے سود ہو کر ناکارہ ہو جائے تو پھر اس کا مٹ جانا ناگزیر ہو جاتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :