
صحیح سوچ اور پھر صحیح عمل
جمعہ 22 جنوری 2021

قاضی فضل اللہ
تو مقصد یہ تھا کہ بچہ پیدا ہوجاتا ہے ،دھیرے دھیرے بڑھتا ہے ،بالغ ہوجاتاہے پھر جوان بن جاتا ہے، پھرکہولت میں چلا جاتا ہے ،پھر بوڑھا ہوجاتا ہے ۔
(جاری ہے)
بالفاظ دیگر ہر چھوٹے کو بڑا ہونا ہوتا ہے یہی فطرت ہے طوعاً ہو کہ کرھاً اس نے بڑاہونا ہے الاآنکہ درمیان میں موت اس کا پتہ کاٹ دے۔
لیکن کیا ہر بڑا معنیً اور صفۃً بھی بڑابناہوا ہوتا ہے کہ بڑے پن کا معنی کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
تو ایسا نہیں ہوتا بہت سارے کبھی بھی زندگی میں بڑے نہیں ہوتے مرنے تک وہ بچے رہتے ہیں کہ بڑا ہو نا عقلمند ہوناہوتا ہے ۔ بابا عبدالرحمن نے فرمایا
؎ تورہ گیرہ م شوہ سپنہ حق حیران یم چہ رحمن لا نہ عاقل شوم نہ بالغ
میری کالی داڑھی سفید ہوگئی لیکن حیران ہوں کہ میں رحمن ابھی تک نہ عاقل بن سکا اور نہ بالغ۔
ارتقاء کے یہ منازل افراد بھی طے کرتے ہیں اور ادارے بھی ۔ انسانون کا ارتقاء جو اجتماعیت اور سماجیت کے رنگ میں ہوتا ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اس کے چار مدارج ارتقایات کے نام سے بیان فرمائے ہیں ۔ تو ہم جیسے فرد کے طور پر مرتقی ہوتے ہیں اس طرح ادارے بھی ہوتے ہیں ۔البتہ ارتقاء ہم آہنگی سے ہوتا ہے کہ بچے کا سارا بدن گروتھ کرجائے جس میں دماغ بھی شامل ہے ۔ ہاں بعض اوقات کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے بدن کا ارتقاء تو ہوتا رہتا ہے البتہ دماغ کا ارتقاء نہیں ہوتا۔ بندہ اٹھارہ بیس سال کا بالغ ہوا ہوگا لیکن اس کا دماغ ابھی تک آٹھ دس سال کے بچے کا ہوگا۔ اب بدنی قوت سے تو وہ کسی کو بچھاڑ سکتا ہے لیکن اگر دماغ بھی گروتھ کرچکا ہوتا ہے تو بندہ سوچتا ہے کہ کیا بچھاڑنا بھی ہے کسی کو؟ اور بسا اوقات اس کا دماغ اس کے عواقب کی خبر دیتے ہوئے اسے منع کرتا ہے تو وہ رک جاتاہے۔ اب بچے کا دماغ تو ایسا کام نہیں کرتا لہذا یہ قوی جو ان فوراً چڑھ دوڑتا ہے اور پھر بعد ازاں مدتوں تک عواقب سہتا رہتا ہے ۔
عقل مند لوگ ادارں کو جوممالک کے لیے اعضاء کی طرح ہیں ان کے ایک ساتھ گروتھ کو یقینی بناتے ہیں کہ سارے ادارے آگے بڑھیں تاکہ بدنظمی ،بد انتظامی، دنگہ فساد اور اضطراب نہ ہو اور ملک و قوم کی حالت بہترہو لیکن کیا کیا جائے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ
انفرادیت پسندی اور افرادی زندگی نے ہر بندے کے حرص و بخل اور سر کشی و انانیت کو مہمیز دیا ہے اور یوں یہ چیزدن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ حالات ایسے ہوں تو اصلاح کرنےبہت کم ہی معاشرہ میں کوئی اٹھتا ہے کہ اسے بھی یہ وائرس یا اس کا کوئی اثر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یااس وائرس کے پھیلاؤ نے اسےکم از کم دبا کے رکھا ہے۔ وہ اگر وہ اپنے اوپر جبر کرکے اٹھ بھی جائے تو اس کے متعلق کسی کا ذہن نہیں بنتا کہ ان حالات میں کوئی انفرادیت سے اٹھ کے اجتماعیت کابھی سوچ سکتا ہےیا کرسکتا ہے بلکہ وہ اسے اس کا ٹریپ سمجھتے ہیں کہ یہ ہے پھنسانے کا ایک نیا طریقہ اور بسا اوقات ایسا ہوا بھی ہوتا ہے ۔
ایسے میں بجائے اس کے کہ اللہ والے کو رفیق ملیں اس کا واسطہ دشمنوں سےپڑتاہے ۔ وہ بندہ پھر بھی اگر صاحبِ عزم ہو تو اپنے کو آگے کی طرف کھنچتا رہتا ہے اور اگرہمت کہیں ہاربھی جائے تو یا تو بددلی سے ایک جانب ہوجاتا ہے کہ
‘‘لکم دینکم ولی دین’’
یا پھر غیظ و غضب کا اظہار شروع کرتا ہے۔
بعض اوقات اس قسم کےخیر کیلئے اٹھنے والے بندے کے ذہن میں شیطان یہ بٹھا دیتا ہے کہ صرف آپ ہی ہیں اور تو کوئی ہے نہیں کیونکہ شیطان اپنے کام سے سوتا بھی نہیں اور غفلت کا ارتکاب بھی نہیں کرتا۔ اس نے
‘‘لاقعدن لھم ’’
اور
‘‘لاغوینھم’’
جیسے کلمات کے ذریعے اپنا عزم بہت پختہ انداز سے ظاہر کیا تھا جس میں‘‘لام’’ہےتاکیدبلکہ موطئہ للقسم یاللقسم کا اورنون ہے تاکید کا اور وہ بھی ثقیلہ کا یعنی آگے پیچھے سے اس نے اپنی بات کو مؤ کد اور پختہ کردیا ہے۔ تو اس بندے کے ذہن میں بھی آجاتا ہے کہ میں فرد کامل ہوں۔ سو اسکی تگ ودو اس بات کی کہ دیگر کا ملین کو تلاش کرکے ساتھ ملائے وہ تگ ودورک جاتا ہے۔ وہ تو اب فالورز کوڈھونڈے لگتاہے جو اس کے پیچھے لگ جائیں حتی کہ جاتے جاتے اسے کامل مل بھی جائیں وہ ان کو بھی اپنے پیچھے لگانا اور اس کی بات پر آمنا وصد قنا کہنے والے بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کامل نہیں ویسے اٹھ دس عام لوگ ساتھ ملیں وہ ان کو لیکر انقلاب برپا کرنے نکل جاتا ہے ۔
دوسری طرف اگر کچھ کامل قسم کے لوگ ہوں بھی تو ان کا اس پر اعتماد کہ صحیح ہے اور صحیح رہےگا یہ نہیں بنتا۔ اور بسا اوقات اگر وہ ساتھ دیں بھی تو اس کا ان پر اعتماد نہیں بنتایہ ان کے متعلق شک میں مبتلا رہتا ہے کہ شاید یا تو مجھے ناکام بنانے ساتھ ہوئے ہیں یا خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے شامل ہوئے ہیں۔ اس کے دل میں نہ بھی ہودیگر لوگ اس کو ہمیشہ اس قسم کی القاءات کرتے رہتے ہیں ۔ لہذا وہ ایک جانب ہوکر پھر کوئی اور طریقہ اختیار کرجاتا ہے۔یعنی اب اس کا سوچ منفی ہوجاتا ہے اور وہ تنقید کرنے اور تنقیص کرنے لگ جاتا ہے اور یہ ثابت کرتا رہتا ہے کہ میں صحیح ہوں باقی لوگ غلط ہیں ۔اس طرح وہ ایک فکر متعارف کرتا ہے۔ اور اگر کچھ لوگ اس فکر کو قبول کرے تو ایک فرقہ وجود میں آجاتا ہے اور آگے کی بات تو معلوم ہے کہ بندہ اگر علمی میدان سے کچھ واجبی سا تعلق بھی رکھتا ہو تو وہ چیلنچ کرنا شروع کردیتا ہے اور اگر کوئی اور بھی اس جیسا اس میدان میں ہو تو وہ بھی یہی کرتا ہے اور یوں ایک دومسئلوں پر مناظرے، تعصبّات ،گروہ بندیاں اور بسا اوقات قتل و قتال بھی ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم کبھی بڑے اور بالغ نہیں ہوئے۔
یہی مسئلہ دیگر میدانوں میں بھی ہے ۔آپ سیاسی میدان کو دیکھیں یا تعلیمی میدان کو لےلیں وہاں بھی بلوغت نہیں ۔ سیاست میں وہی کھینچاتانی ،ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنااور سیاست کو کاروبار بنانا۔ اور کاروبار میں تو رقابت ہوتی ہے رفاقت نہیں ہوتی ہے۔تبھی تو نہ ملک بنا اور نہ قوم اور قومیت۔ رہی بات کسی نظریے کی ترویج اور عملیت کی تو وہ تو ملک اور قوم بننے کے بعد کا مرجلہ ہے۔ گویا ابھی تک ہم بنیاد بھی نہ بناسکے ۔ ملک بننا کسی خطے کا ہونا نہیں بلکہ کسی خطے پر موجود ملک کا عالمی برادری میں وقار ہوناہے، عزت ہونی ہے حیثیت ہونی ہے ۔اور یہ تب ہوگی جب معیشت جو آج کل محور بن چکا ہے اور دنیا اور دنیا کے معاملات اس کے ارداگرد گھومتے رہتے ہیں وہ مستحکم ہو۔ اس کا استحکام آج کل ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے میدان سے ہے کہ آج کی تو صنعت ،تجارت ،تعلیم حتی کہ زراعت بھی ٹیکنالوجی پر موقوف ہے۔
کسی زمانے میں صرف مہارت کی ضرورت ہوتی تھی کہ کیسے کرنا ہے؟ لیکن اب کے دانش کی ضرورت مہارت سے مقدم ہے کہ کیا کرنا ہے پہلے وہ طے ہوجائے پھر اس میں مہارت ہو۔ سوسوچناضروری ہے کہ تعلیم اور کون سی تعلیم یعنی دنیا کے حوالےسے ۔ اور یہ اس لیے کہ تعلیم اور ترقی باہمدگرمربوط ہیں۔
سو اول سوچنا ہے کہ کیا کرنا ہے ؟اور پھر سوچ کے بعد جب بات ذہن میں آئے اس کو عملی جامہ پہننانا ہے۔ یعنی بحیثیت فرد بھی اور بحیثیت قوم بھی میدان جاننا اور جانچنا اورپھرسوچنا اور سوچ کا طریقہ جاننااور بعد ازاں عمل کا طریقہ جاننا۔ ہم سوچنے سے زیادہ جذبات سے کام لیتے ہیں جذبات فطرت میں ہیں لیکن انسان اس میں اعتدال لانے کا مکلف ہے ۔ یعنی جذبے کو سوچ اور عمل کے پیچھے لگائیں تاکہ وہ سوچ کو بھی توانائی فراہم کرے اور عمل کو بھی ۔سوچ اور عمل کو جذبات کے پیچھے لگانا تو ٹانگے کے پیچھے گھوڑا باندھنا ہے جو چلنے والا نہیں بلکہ یا تو ٹانگہ ٹوٹے گا یا گھوڑا زخمی ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قاضی فضل اللہ کے کالمز
-
توہین رسالت کے مسئلے کو آئی سی جے اور یواین اومیں لے جایا جائے
منگل 26 جنوری 2021
-
صحیح سوچ اور پھر صحیح عمل
جمعہ 22 جنوری 2021
-
اتحاد مطلوب ہےمگرکیسے؟
جمعہ 15 جنوری 2021
-
"ادخلواالارض المقدسۃ"
ہفتہ 9 جنوری 2021
-
سماجی بنو تاکہ انسان بن سکو
منگل 5 جنوری 2021
-
زندگی جہد مسلسل کا نام ہے
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
سائنس اور مذہب کا پیداکردہ اختلاف
جمعہ 25 دسمبر 2020
-
نامردنہیں مرد بنائیں
منگل 22 دسمبر 2020
قاضی فضل اللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.