توہین رسالت کے مسئلے کو آئی سی جے اور یواین اومیں لے جایا جائے

منگل 26 جنوری 2021

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

مذہب انسان کا ایک فطری تقاضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی ایسی بستی نہیں دیکھی گئی جہاں مذہب کاتصورنہ ہو ۔یہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ کسی بستی کا کسی زمانے میں کیا مذہب تھا؟توہمات بھی مذہب بن جاتے ہیں کہ لوگ اس پر اعتقادرکھتے ہیں ،جادو بھی مذہب بن جاتا ہے کہ لوگ ان پر اعتقادرکھتے ہیں۔ یعنی ماوراء الطبیعیات امور یا قوی پر اعتقاد رکھنا ہر دور میں موجود رہا ہے ۔

یعنی انسان فطرتاً مذہب چاہتا ہے ۔یہ چاہت ان میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے جس طرح کہ کھانے پینے یا دیگر امور طبیعی امور اور تقاضے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سارے تقاضوں کو پورا کرنے کے کا سامان بھی پیدا فرمایا ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس مذہبی تقاضے کے حوالے سے مذہب بھی بھجوایا،انبیاءورسل بھجوائے اور ان کو مکلف کیا کہ انسانوں کو اس کی طرف بلائے اور انہوں نے اپنا اپنا وظیفہ نبھایا فجزاھم اللہ عنا خیرا۔

(جاری ہے)


مذہب کی أساس ہوتا ہے عقیدہ۔اب مختلف مذاہب میں یہ عقیدے مختلف ہوتے ہیں کہ وہ مذاہب اس کے بانی فلاسفہ نے اپنے سوچ وفکر کے مطابق دیے ہیں اگر وہ الہامی نہیں تھے جبکہ الہامی دین تو اصلاً ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔ تو ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاء ورسل نے اس دین کی دعوت دی اور اس کے أساسی عقائد ابتداء سے ایک ہی ہیں اور ان کو مان کر ہی بندہ مسلمان بن جاتا ہے ۔


عقائد کے بعد شخصی تعمیر کے لئے اخلاقیات ضروری ہیں اور ان انبیاء ورسل بلکہ غیر الہامی مذاہب کے بانیان نے بھی اخلاق واقدار وآداب کی تعلیم دی بلکہ ان میں بہت سارے مذاہب تو ہیں ہی اخلاق واقدار وآداب کے مذاہب۔اور اخلاق واقدار وآداب میں أساسی چیزیں ہیں
1۔ عدل واحسان کرنا
2۔ اورظلم سے بچنا۔
حاصل اینکہ تمہارے کردار اور گفتار سے کوئی دکھے نہ اور اس چیز کو آپ ایک اصطلاح میں سماسکتے ہیں امن ومحبت۔

اور ظاہر بات ہے کہ امن محبت ہی سے آتا ہے ۔تاریخ میں جتنے بھی مصلحین گزرے ہیں انہوں نے یہی پیغام اور تعلیم دی ہے۔البتہ یہ ہے کہ لوگوں نے مختلف اوقات میں اس اصطلاح کے حوالے سے اپنی اپنی تشریحات وتفصیلات دی ہیں اور اپنے اپنے حدود وقیود متعین کیے ہیں لیکن اصلاً اس سے منکر کوئی بھی نہیں ۔یعنی یہ ایک متفقہ چیز ہے اور متفقات پر فیصلے آسانی سے کیے جاسکتے ہیں ۔

بات صرف یہ ہوتی ہے کہ جن نے پامالی کی ہے اسے سمجھایا جائے کہ اس مصطلح کی تشریح وتفصیل یہ ہے ۔قوانین کو بھی اگر دیکھا جائے تو وہ امن کے خاطر وضع کیے جاتے ہیں بلکہ آئین اس سے ذرا آگے جاتے ہیں۔ جنگ بھی جس نے بھی لڑی ہے یالڑنا چاہتا ہے کسی نے بھی جنگ برائے جنگ وفساد کا سہارا نہیں لیا بلکہ وہ اس کے لئے ماحول بنانے کے لئے ایک چیز کو مشتہر کرواتا ہے کہ فلاں فلاں سے دنیا کے امن کو خطرہ ہے اور اس خطرے کا تدارک لازمی ہے اگر چہ وہ بسااوقات جھوٹ بولتا ہے اسے خود بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے لیکن اس کا مقصد ہوتا ہے جس کے حصول کے لئے اس متفقہ امر کے أساس پر ماحول بنانا پڑتا ہے۔


دنیا جہاں میں جتنے ممالک ہیں وہ ایک دستور اور ایک آئین کے أساس پر چلتے ہیں اور اس آئین کی روح ہوتی ہےامن قائم کرنا۔کہ امور واضح ہوں کہ ریاست کے حقوق وفرائض کیا ہیں اور رعیت وحکومت کے حقوق وفرائض کیا ہیں ۔نیز ہر ہر ادارے کے حدود وقیود کیا ہیں؟اس تعین کا مقصد ہے امن قائم کرنا تاکہ نہ تو بدمزگی پیدا ہواور نہ ہی دنگہ وفسادپیدا ہو۔

یعنی لوگ سارے حدود وقیود اور اخلاق واقدار وآداب کے دائرے میں رہیں یعنی کچھ حدودوقیود معاشرتی ہوتے ہیں اور بعض ریاستی اور قانونی ہوتے ہیں ۔اور مقصد ہر دو کاایک ہی ہےیعنی قیام امن۔
لیکن انسان تو أساساً حیوان ہے تو اس کے خواہشات ہیں وہ ان کو پورا کرنا چاہتا ہے اور اگر چہ اس کے حصول کے طریقے بھی واضح ہیں اور حدود وقیود بھی واضح ہیں لیکن یہ تو تب کہ جب کوئی ان کومانے ،ان کو جانے اور ان پر عمل بھی کرے جو ہوتا بہت کم ہے
’’ولکن اکثر الناس لا یعقلون‘‘
’’ولکن اکثر الناس لا یعلمون‘‘
کہ لوگوں کی اکثریت عقل وعلم نہیں رکھتے ۔

یعنی وہ یہ سوچتے ہی نہیں ۔
اب مذہب جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ایک فطری تقاضا ہے اور ہر ایک کو حق ہے حتی کہ کوئی کسی پر اپنا مذہب مسلط تو نہیں کرسکتا
’’لااکراہ فی الدین‘‘
اس طرح کسی کو یہ بھی حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے مذہب کی توہین وتحقیر کرے کہ یہ بھی تو اپنا نکتہ نظر کسی پر مسلط کرنا ہے اور بزور وجبر کسی پر اپنی فکر مسلط کرناتو فاشزم ہے۔

اس طرح ہر ملک کے باسی اس ملک کے آئین ودستور اور قوانین کے پابند ہوتے ہیں کہ یہ ایک باہمی معاہدہ کے أساس پر ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان ہے اور اس پر وہ اتفاق کرچکے ہیں ۔پھر امن جیسا کہ فرد کی ضرورت ہے ،افراد کی ضرورت ہے اسی طرح یہ ریاست کی بھی ضرورت ہے بلکہ اس کی توزیادہ ضرورت ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طبقہ کا جو مذہب ہے ہر ریاست اس طبقہ کو اپنے بہت سارے ذاتی اور خاندانی امور اپنے مذہب کے مطابق کرنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ اس کو آئینی اور قانونی کور اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔

کیونکہ ریاست تشکیل دینے اور آئین تشکیل دینے کے وقت معاشرتی اقدار اور اخلاق وروایات کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور مذہب سارے لوگوں کی قدر اور معاشرت ہی تو ہے۔ایسا نہ ہو تو وہاں تو بغاوت پیدا ہوجاتی ہے ۔تو کیا کوئی ریاست بغاوت کے لئے راستے چھوڑنا چاہے گی یاکہ اس کے ہونے سے پہلے اس پر سوچے گی کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے۔ تبھی تو سارے ممالک کے دساتیر کے حوالے سے ایک بات متفقہ ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات واحساسات کو ٹھیس نہیں پہنچاناکہ اس سے ایک لاوا ابلتا ہے اور بسااوقات وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ کر سب کچھ راکھ کردیتا ہے۔

پرنسپلز آف میگنا کارٹا،چارٹر آف دی لیگ آف نیشنزاور بعدازاں اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہی چیز لکھی گئ ہے کہ لیگ آف نیشنزاور اقوام متحدہ تو وجود میں آئی اس لئے کہ سارے اقوام اپنے متنازعہ امور اس کے پاس لے آئیں تاکہ جنگ اور خون خرابہ سے بچے رہیں۔اور یہ توثابت ہے کہ بسااوقات جنگ وجدل کسی کے مذہبی جذبات واحساسات کو مجروح کرنے یاکسی کے مذہب پر ناروا قدغن لگانے سے پیدا ہوتےہیں سو انہوں نے یہ لکھا ہے کہ یہ جرم ہے ۔


اب یہ علیحدہ بات ہے کہ اقوام متحدہ تو کوئی ملک نہیں بلکہ ادارہ ہے اور ادارہ بھی باہمی مشاورت ،باہمی مفاہمت اور باہمی مصالحت کا۔اس کی تو اپنی کوئی فوج بھی نہیں ہوتی کہ یہ کسی سے بات بزور منوائے یہ تو کہیں قیام امن کے لئے بھی ممبر ممالک کے امن فوج کی محتاج ہوتی ہے اور کسی سے بات منوانے کے لئے بھی طاقتور ممبران کے متفقہ قرارداد کی محتاج ہوتی ہے ورنہ تو ایک بھی مستقل ممبر کسی قرارداد کو ویٹو کرسکتی ہے اور یوں معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔

اور بسااوقات قرارداد تو منظور ہوجاتی ہے لیکن منوانے کے لئے ان ممالک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی تب جب وہ اسے عملی بھی کرناچاہیں تو ۔ورنہ تو بس مطالبات بعد مطالبات ہی ہوتے رہیں گے کہ قراردادوں پر عمل کروایاجائے۔
گیدڑ نے گدھے سے کہا ماموں تربوز کا باغ ہے آج رات وہاں کھانے جائیں گے۔ گدھے نے کہا بھانجے!لیکن ہے کس کا؟مارکھاجائیں گے ۔

گیدڑ نے کہا ماموں اس کے کاغذات میرے پاس ہیں ۔دونوں گئے اور جیسے ہی تربوزکھانے شروع کیے مالک لاٹھی اٹھا کے آیا۔گیدڑ تو تیز بھاگتا ہے وہ تو بھاگ کے ایک ٹیلے پر چڑھ گیا البتہ گدھے کو اس نے گھیرا اور اس کا حشر کرنا شروع کیا ۔گدھا چیخ رہا تھا گیدڑ سے کہہ رہا تھا بھانجے کاغذات لا کے دکھاؤ ۔اس نے کہا ماموں!لیکن یہ تو کاغذات کو مانتا ہی نہیں ۔


اب آئے دن بدطینت لوگ خاتم النبیین ﷺ کی توہین کرتے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ وہ ان مسلّمات اور متفقات کو ماننے کے لئے تیار نہیں جوممالک کے دساتیر میں ہیں اور جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہیں ۔افراد کرتے ہیں تو کہاجاسکتا ہے کہ ان کو شاید امن برقراررکھنے سے اتنا سروکار نہیں لیکن وہ ممالک جس کے کہ وہ شہری ہیں ان ممالک کی حکومات کو بھی اپنے ملک کا امن اور شہریوں کی ہم آہنگی مطلوب نہیں کہ وہ اس کا تدارک کریں کیونکہ لاکھوں مسلمان ان ممالک میں رہتے ہیں اور وہ ان ممالک کے شہری ہیں اور وہ وہاں کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں ۔

اب کہیں کسی ایک کمیونٹی میں گنتی کے دو چار افراد جو ہر کمیونٹی میں ہوسکتے ہیں غلط ہوں تو کیا ساری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے یا ان کے جذبات واحساسات کا تمسخر اڑانے کا پروانہ ملتا ہے۔حکومتوں کے ذمہ داران  کی اس قسم کی پراسرار خاموشی تو یہ دلالت کرتی ہے جیسا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں ۔یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ اظہار رائے کی آزادی ہے کسی کے ماں باپ کی توہین یا کسی کی توہین کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟اس کے لئے تو ہتک عزت کا دعوی دائر کیا جاتا ہے ۔

اب وہ تو فر د ہے اس کو یہ حق حاصل ہے لیکن رسول پاکﷺ کی توہین تو ارب ھا انسانوں کی توہین ہے کہ ان کو آپﷺ اپنے ماں باپ اولاد او ر جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔اورپھر فرانس کے صدر صاحب کے حوالے سے جو بات آئی وہ تو مہذب دنیا میں ایک ایسا ناشدنی امر ہے کہ مہذب لوگوں کے لئے تو اس کاتصور بھی محال ہے کہ ایک اتنا ذمہ دار بندہ ایسا کرسکتا ہے۔فرانس میں ایک والٹیرگزرا ہے زدفہم تھا ایک نپولین گزرا ہے ۔

بے باک فعالیت کا حامل تھا تو کیا اس میں وہ زد فہمی اور فعالیت آئی ہے جو اس نے دکھائی ۔اسی فرانس میں تو سارتر جیسا فلسفی بھی گزرا ہے جو الجزائر پر فرانس کے قبضے کا شدید ترین مخالف تھااور اس کے خلاف بولتارہتا۔کسی نے جنرل ڈیگال سے کہا کہ اس کو جیل میں ڈالا جائے اس نے کہا ایسے آدمی کو جیل میں ڈالوں جو فرانس کی زبان اور اس کی پہچان ہے جو جس چیز کو غلط سمجھتا ہے اسے غلط کہتا ہے ۔

اور اس فرانس میں تو ڈیگال بھی گزرا ہے جس نے فرانس کو تاریکیوں سے نکال کر ترقی کی راہ پرڈال دیا۔بڑے لوگ تو بڑا سوچ رکھتے ہیں وہ تو اوروں کو اکاموڈیٹ کرتے ہیں وہ تو لوگوں کو ہارم نہیں کرتا ہے۔
بہر تقدیر اپنے رسول کی توہین پر مسلمانوں کا غم وغصہ ایک فطری امر ہے اور فطرت کو دبایا نہیں جاسکتا۔البتہ مسئلہ یہ ہے کہ مغرب میں بہت سارے ممالک شاید اس توہین کو فوجداری جرم نہیں سمجھتے لیکن یورپی یونین جس کا کہ فرانس بھی ایک رکن ہے کی سپریم کورٹ نے تو اس کو فوجداری جرم قراردیا ہے ۔


اب مسلمان کیا کرسکتے ہیں؟
کسی غیر مسلم پر نہ تو ہم اپنی فکر امپوز کرسکتے ہیں اور نہ اپنا قانون۔اور ان کے قانون میں تو اس حوالے سے کوئی صراحت نہیں۔البتہ ان جنرل رولزکو جو کہ ہم نے ذکر کیے اور اقوام متحدہ کے چارٹر نیز یورپی یونین کے کورٹ کے فیصلے کے أساس پر ان سے مطالبہ بھی کرسکتے ہیں اور عین ممکن ہے مسلمان ممالک جو ستاون اٹھاون ہیں وہ اس معاملے کو صرف تقریر نہیں بلکہ اس کے لئے باقاعدہ لابنگ کرکے ایک قرارداد کی شکل میں اقوام متحدہ میں لے جاسکتے ہیں ۔

نیز انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں بھی اس حوالے سے جاسکتے ہیں ۔یہ ہماری رائے ہے کیونکہ ہمیں دائرہ اختیار کا پتہ نہیں ہے۔اس معاملے پر مسلمان ممالک کو فوراً سے بھی جلدی او آئی سی کا اجلاس بلاکر ایک ہی بار اس بار بار کے مشکل سے پوری دنیا کو چڑھانا ہے ورنہ پر پانچ چھ مہینے بعد یہ توہین اور پھر احتجاجات اور مظاہرے جس سے ایک جانب تو روزگار اور معمولات زندگی میں بھی بہت خلل آتا ہے لیکن اس سے مسلمانوں کو جو دکھ ہوتا ہے اس کو تو ماپاہی نہیں جاسکتا اور یوں مسلمانوں کو اپنے حکمرانوں سے نفرت ہوجاتی ہے کہ وہ اتنے سارے ہوکے بھی اس متفقہ شخصیت کے حوالے سے بھی کوئی متفقہ اور بامقصد قدم نہیں اٹھاسکتے ۔

اس مسئلے سے جذبات تو یقیناً برانگیختہ ہوتے ہیں لیکن اس کو تو وہ بدطینت لوگ منفی انداز میں مسلمانوں کے خلاف پورٹریٹ کرتے ہیں ۔تواس کے لئے ایک سنجیدہ قدم اور اقدام کی ضرورت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کا تدارک نہ ہو۔اگر ہولوکاسٹ سے انکار یا اس کو سچ نہ ماننا جرم مانا جاتا ہے اور یقیناً جرم تھا کہ مذہب کے أساس پر یہودیوں کے ساتھ ایک بھیانک ظلم ہوا جس سے کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ بھی ایک مذہب پر ایک جاری وساری ظلم ہے جو ہرروز ہورہا ہے ۔

مسلمان حکمران متفقہ طور او۔آئی۔ سی کے پلیٹ فارم سے اسے ایک سیاسی مسئلہ بتاکر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف لے جائے کہ ان دونوں کے پاس حکومتیں ہی جاسکتی ہیں۔
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :