نامردنہیں مرد بنائیں

منگل 22 دسمبر 2020

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

کسی مولوی صاحب نے بیان میں حضرت خضر کاذکر کیا۔بقول اس کے اس کو خضر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سبز پوش ہیں۔ یعنی جوتوں سے لے کر سر تک سبز ہی سبز پوشاک بلکہ اپنی بات کو مزید سنسنی خیز بناتے ہوئے کہا کہ جہاں وہ بیٹھ جاتا ہے تو اس کے ارداگرد فوراً سبزہ اُ گ آتا ہے۔ اور وہ رہتے چلتے بھی سمندرکے نیل گون پانیوں پر ہیں۔اس نے لوگوں سے کہا اگر وہ نظر آئے تو اس سے اپنے حق میں دعاکروائیں وہ مستجاب الدعوات ہیں وہ آسانی سے مانے گا نہیں کہ میں ہوں لیکن وہ ہوگا۔


ایک سیدھا سادہ غریب آدمی محفل ختم ہونے کے بعد مسجد سے نکلا ۔اس کے ذہن میں حضرت خضر کاتصور گھومتارہا کہ کاش وہ ملے اور میں اس سے دعا منگواؤں کہ میرا فقر وفاقہ ختم ہو اور زندگی کی آسائشیں مل جائیں۔

(جاری ہے)

اس تصور میں گم وہ جارہا تھا کہ یکایک گلی میں اس نے اس قسم کا سبز پوش بزرگ آدمی آتا ہوا دیکھا ۔وہ اس کی طرف لپکا اور بزور اس سے بغلگیر ہوگیا اور کہتا رہا واہ! اللہ کا شکر ہے آپ تو فوراً ہی مل گئے ۔

ابھی مولوی صاحب آپ ہی کا تذکرہ کررہے تھے آپ ہیں ناں حضرت خضر؟
اس نے کہا کہ میں نہیں ہوئی بھائی۔
اس نے کہا ہاں مولوی صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ وہ مانے گا نہیں اور وہ اسے چھوڑ نہیں رہا تھا۔
اب بزرگ نے سوچا کہ پھنس گیا ہوں اس نے کہا بھائی!میں خضر نہیں ہوں میں اللہ کا چھوٹا بھائی ہوں(معاذاللہ)۔
اس شخص نے کہاپھر توآپ اور بھی آگے کے بندے ہیں توآپ پھر میری یہ اندھی آنکھ اس دوسری کی طرح کروائے تاکہ دونوں ایک جیسے ہوجائیں۔


اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں یہ کردیتا لیکن یہ چونکہ لالایعنی بڑے بھائی نے ایسا کردیا ہے تو میں اس میں مداخلت تونہیں کرسکتا البتہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی اس دوسری آنکھ کو اس کی طرح کرواؤں اور یوں دونوں ایک جیسی ہوجائیں گی۔
بات یہ ہے کہ پاکستان میں آئے دن قوانین پہ قوانین بنائے جاتے ہیں اور جرائم ہیں کہ رکیں تو کیا نئے قوانین آنے سے ان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ قانون نہ تو کوئی دم اور رقیہ ہے کہ جس پر تکیہ کیا جائے کہ یہ از خود کام دکھائے گا نہ یہ کوئی دوایا ویکسین ہے کہ اس سے از خود جرائم رک جائیں گے ۔قوانین کو تو عملیت دینا ہوتا ہے۔ اگر قوانین پر عمل نہ ہو تو وہ تو کاغذاور قانون کی کتابوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔
ملک میں مسئلہ قوانین کا نہ ہونا نہیں بلکہ ان کا ہونا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوتا۔

اس لئے کہ نہ تو حکومت اس کے لئے سیریس اور سنجیدہ ہے اور نہ اس میدان کے ذمہ داران۔ قوانین کے پراسیس ،نفاذ اور اجراء کو ایسا کیا گیا ہے کہ وہ پراسیس شیطان کی آنت ہے جو لمبی ہوتی جاتی ہے اور جاتے جاتے یہ عمل اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔
اب کے سوشل(ان سوشل میڈیا)کے عذاب  نے تو شیطان والی ذمہ داری اپنائی ہے یہ ہم تو سمجھتے تھے کہ شیطان سے کچھ چھوٹی ہے لیکن اب کے تو پتہ لگتا ہے کہ اگر شیطان سے بڑی نہیں تو اس کے مثل تو ضرور ہے۔

بڑے،بوڑھے ،بچے ،مرد،عورتیں سب لگے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ اسے خیر کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا تناسب بہت تھوڑاہے کیونکہ بہت سارے جن کا استعمال بظاہر خیر کا معلوم ہوتا ہے ان کابھی مدنظر یہ ہوتا ہے  کہ فالورز زیاویورز کتنے ہوگئے ۔مجھے تو بخدا نہیں معلوم تھا کہ اس پر پیسے کمائے جاتے ہیں توگویا انہوں نے خیر کے کام کو بھی کچکول بنا کردنیا کمانے کاذریعہ بنایا ہے۔

دین کا تو مزاج ہے
‘‘مااسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین ’’
اور ہمارے اس جیسے عمل ان دونوں باتوں کی نفی ہے۔یعنی اس پر مانگتے بھی ہیں اور تکلف بھی کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ بچائے رکھے آمین۔اللہ برے عمل سے توبچائے ہی لیکن صالح عمل میں اخلاص نصیب فرمائےتاکہ وہ اللہ اور اس کے دین کے لئے ہو۔
توبات کررہا تھا کہ برائیاں اس میں بہت ہیں۔

اور پورنو گرافی دیکھ دیکھ کے نوجوانوں بلکہ بوڑھوں کے شہوانی جذبات برانگیختہ ہوجاتے ہیں جس کی پھر وہ تشفی چاہتے ہیں اور اس کے لئے آئے دن جو واقعات ہوتے ہیں تو اللہ کی پناہ!سن کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور غیرارادی طور پر خوف کے مارے استغراللہ ،انا للہ وانا الیہ رجعون جیسے کلمات منہ سے نکل جاتے ہیں کہ چارسال یا پانچ سال کی بچی یا بچے سے جنسی زیادتی پر قتل ،پھر لاش جلانا یا ویرانے میں پھینکنا ،کسی عورت سے اجتماعی زیادتی کرنا جیسی خبریں۔

اوہ میرے خدایا!یہ کیا ہوا اس دنیا کو۔توایسے میں تو لازمی بات ہے فکر مندی تو ہوتی ہے ۔
اب سننے میں آیا ہے کہ حکومت نے ایک قانون بنانا ہے کہ ایسے لوگوں کو نامرد کیا جائے ،ان کو چوائس دیں کہ یاعمر قید یا نامرد بننا۔کسی ایک کا انتخاب کریں۔
تو بات یہ ہے کہ پاکستان آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔اپنے کو نامرد کرنا یا کسی دوسرے کو نامرد کرنا کیا یہ شرعاً جائز ہے؟تو حدیث شریف میں ہے کہ
امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے ابن مسعودؓ سے نقل کیا ہے کہ ہم ایک غزوہ میں تھے توآپﷺ سے خصی ہونے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے اجازت نہ دی ۔


(حضرت عثمان بن مظعونؓ سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے)ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ پھر ہمیں متعہ کرنے کی اجازت دے۔ہاں بعد میں متعہ کو حرام قراردیا۔
توعلماء امت نے بالاجماع اپنے کو خصی کروانا ناجائز قراردیا ہے کہ ایک قسم کامُثلہ ہے اور مثلہ کا معنی ہے عضو یا اعضاء کاٹنا۔اور مسئلہ یہ ہے کہ خصی کرنا نہ اپنا جائز ہے اور نہ کسی اور کا حتی کہ آپﷺ نے میدان جہاد میں دشمن کے اعضاء کاٹنے کو بھی منع فرمایا ہے۔


دوسری بات یہ ہے کہ شریعت میں دو قسم کے جرائم ہیں ۔
1۔ایک وہ جن کے لئے حدود یعنی سزائیں متعین اور مقرر ہیں۔اور ان میں کسی کو بھی حق نہیں نہ کمی کرنے نہ اضافہ کرنے کا۔مثلاً غیرشادی شدہ زناکار کے لئے جب اس پر عدالت میں جرم ثابت ہوبلاشبہ تو اس کو سودرے لگائے جائیں ۔اب نہ تو اس کو ننانوے کیے جاسکتے ہیں اور نہ ایک سو ایک کہ یہ تو حکم خداوندی میں حک واضافہ ہے اور یہ پوری دنیا کو بھی حق نہیں کہ حکم خداوندی میں اس قسم کی مداخلت کریں۔

اس طرح چور کے لئے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے تو اس میں بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ جس پر اس کی ایک انگلی کاٹ دیتے ہیں یا پھر اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اور پھر حدود صرف ان جرائم پر جاری کیے جائیں گے جن کے بارے میں یہ نصوص قرآن یا نصوص حدیث میں موجود ہیں۔کسی اور جرم کا ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
2۔دوسرے قسم کے جرائم وہ ہیں جن کے لئے شریعت میں حد مقرر نہیں ان پر تعزیر کا حکم ہے ۔

سو تعزیری سزا حکومت یا قضاء کا حق ہے ۔آج کے دور میں حکومت کا کہ اس کا ذمہ دار ادارہ اس کے لئے قانون بنادے ۔لیکن عام حالات میں وہ حدود کے قسم کا نہ ہو۔مثلاً چوری یا ڈاکے کے علاوہ کے کسی جرم پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا یاکسی دوسرے جرم پر سوائے شادی شدہ کے زنا کے سنگ سار کی سزا ۔ہاں تعزیرمیں دروں کی سزا ہوسکتی ہے لیکن وہ بھی حد کے مقدار اقل سے کچھ کم ہو۔

اور شراب نوشی میں سزا اسی دروں کی ہے جو غلام اور کنیز کے لئے نصف یعنی چالیس درے ہیں تو فقہاء فرماتے ہیں کہ تعزیر میں سزا چالیس (40)دروں سے کم ہو مثلاً اٹھتیس(38) یاانتالیس(39)  درے ہوں۔
لواطت Sadoomy  کے لئے أساسی سزا تو امام ابوحنیفہؒ کے ہاں تعزیر ہی ہے۔  جبکہ جمہور کے مختلف اقوال ہیں کہ فاعل کو زانی کی سزا اور مفعول کو تعزیر کی سزا۔


ایک قول میں کہ دونوں کی سزا زنا والی ہو ۔
ایک قول میں دونوں کی سزا زانی محصن یعنی شادہ شدہ کی ہو اگر چہ وہ شادی شدہ نہ بھی ہوں۔
ایک قول میں دونوں کو دروں کی سزا زناوالی اور کئی ایک اقوال ہیں۔
جبکہ امام ابویوسف ؒاور امام محمدؒ سے تعزیری حوالے سے منقول ہے کہ لواطت والوں کو پہاڑی سے یا اونچی جگہ سے گراکر مروایا جائے یا کسی خندق میں گراکر مروایا جائے وغیرہ وغیرہ۔


جبکہ ایک قول بعض فقہاء کا آگ میں ڈالنے کا ہے اگر چہ اسے زیادہ توجہ نہیں دی گئی کہ تحریق بالنار کی سزا سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے سوائے علاجاً داغ دینے کے ورنہ کسی موذی جانور کو بھی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔آپ ﷺ نے فرمایا
‘‘عذاب لا یعذب بہا الا اللہ’’
کہ یہ عذاب صرف خدا دے سکتا ہے ۔
البتہ حالات کے مطابق دیگر فقہاء کے قول کو لیاجاسکتا ہے بلکہ مقصد تو اس جرم کا تدارک اور معاشرہ کی اصلاح ہے ۔

اس طرح جیسے کہ سننے میں آتا ہے کہ کچھ بدبخت بدعملی کے بعد قتل کراتے ہیں تو پھر تو پبلک میں سزا ہی اصلاح اور جرائم کا تدارک ہے۔
ہاں البتہ امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ جرم بھیانک ہواور معاشرہ کے لئے خطرناک ہو تو تعزیراً قتل کی سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے کیس ٹوکیس سٹڈی ہوگی ۔
لیکن یہ جو نامرد بنانے کی سزا ہے اس کا شریعت میں کوئی تصور نہیں اور اس قسم کے جرائم کے لئے پہلے سے سزائیں موجود ہیں لیکن ہمیں جوکرنا چاہیئے وہ نہیں کرتے اور جوکچھ نہیں کرنا وہ کرنا چاہتے ہیں۔

شریعت کا حکم ہے
‘‘ولیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین’’
کہ ان دونوں کی سزا کے لئے مومنوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔اس کو دیکھیں یعنی یہ سزا برملا دی جائے تاکہ معاشرے کو میسج چلا جائے۔اب یہ حکم خداوندی ہے لیکن اس قسم کی سزا پر آج کی اصطلاح میں مہذب دنیا جو کہ درحقیقت طاقت ور دنیا ہے ورنہ کون دیکھتا ہے کمزوروں کی تہذیب اور مہذب ہونے کو۔

تو ان کے ہاں یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔لیکن جو ایسے انسان کررہے ہیں کیا وہ انسانیت کی توقیر تھی؟یاوہ تہذیب تھی؟
اب ملک میں ایک سے زیادہ بار ایسے واقعات میں عوام کا بھرپور مطالبہ بھی ہوا لیکن کہتےہیں کہ سپریم کورٹ نے اس کو غیرقانونی قراردیاہے۔توپھرایک بار سپریم کورٹ میں جایا جائے اور وہاں پر بتایا جائے کہ اگر چہ بہت کم ہی اس قسم کے جرائم پر سزا ہوئی ہے اور ایک دوکیسز میں اگر ہوئی بھی ہے تو وہ عامۃ الناس کے بھرپور احتجاج پر تا آنکہ وہ کیس انجام تک پہنچ گیا وگر نہ ایک دودن کے شوروغل کے بعد یہ کیسز بھلائے جاتے ہیں ۔


تواگر کسی کو صبح چار بچے ایک مجسٹریٹ ،ایک ڈاکٹر ،ایک دوسپاہیوں اور جلاد کی موجودگی میں پھانسی لگی بھی تو ٹھیک ہے اس مجرم کو اپنے کیے کی سزا ملی لیکن معاشرے نے کیا دیکھا ؟اس کو کیا میسج ملا؟جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا؟
توسزا موجود ہے ۔اس کےپراسیس کو ذراآسان بنائیں اور کچھ سزائیں پبلک میں ہوں تو یہ باصطلاح قرآن ‘‘نکال’’ ہے ،عبرت ہے حیات اور زندگی ہے۔

لیکن سزائیں تو ضرورت کی وجہ سے دی جاتی ہیں اصل کام تو جرائم کا تدارک کرنا ہے اور اس کا راستہ روکنا ہے جس کے لئے ایک جاری وساری محنت لازمی ہے ۔
سب سے پہلے تو سوشل میڈیا کے گند کا تدارک جس کے لئے اولاد کی تربیت دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ان کو برائیوں کے انجام سے مطلع کرنا ہے یہاں بھی اور آخرت میں بھی ۔ساتھ ساتھ ان کی تعلیم اور روزگار کی فکر کرنا ۔

بالفاظ دیگر ان کو مرد بنانے کے انتظامات کرنا نہ کہ نامرد کرنے کا ۔اور ویسے بھی شہوت رانی کے لئے دو چیزیں ہیں۔
1۔ایک چاہت
2۔اور دوسرا آلہ۔
تو خصی کرنے سے تو آلہ اس قابل نہیں رہے گا کہ وہ کچھ کرے لیکن اس کی چاہت توموجود ہوگی ۔اور ساتھ ساتھ اس نامرد بنانے کا غصہ بھی تووہ تو معاشرہ کے لئے اور بھی خطرناک ہوگا ۔وہ تو خونی بن جائے گا وہ تو اپنی چاہت کی تشفی دیگربہیمانہ اور وحشیانہ طریقوں سے کرے گا۔


توخدارا! ایساکام نہ کریں کہ لینے کے دینے پڑجائیں۔اگر واقعی جرائم کا تدارک مقصود ہو تو ان موجود سزاؤں کی سنجیدہ انداز سے اجراء کریں اور اولین کام کہ قوم کے بچوں کو مرد بناؤ نامرد نہیں۔
ہم مرد نہیں بناسکتے کہ وہ لالا(معاذاللہ)یعنی خدا کاکام ہے ہاں اگر نامرد بننا ہے تو بسم اللہ!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :