زندگی جہد مسلسل کا نام ہے

ہفتہ 2 جنوری 2021

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

حرکت زندہ چیزوں کی فطرت ہے۔ زندگی حرکت کا تقاضا کرتی ہے اور حرکت سے زندگی رہتی ہے بندہ بظاہر زندہ بھی ہو لیکن حرکت نہ کرے تو وہ بدنی طور پر اگر زندہ بھی ہے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ مردہ ہے۔
البتہ یہ ہے کہ حرکت کیسی ہو؟
تو عقل کا تقاضا ہے کہ حرکت کسی بامعنی امر کے لیے ہو ورنہ تو ضیاع وقت اور ضیاع توانائی ہے ایک لغو اور بیہودہ کام ہے۔


ہمیں اللہ تعالی نے عدم سے نکالا، ہمیں وجود دیا جو کسی وقت تک باقی رہےگا ۔اس عدم سے نکلنا وجود میں آنا ہی اس بات کی غماز ہے کہ حرکت کرو، بے جان اور مردہ نہ بنو اور پھر یہ کہ یہ جو وجود ہے یہ تو وقتی ہے، عارضی ہے اور ہر کسی نے ایک دائمی وجود و بقاء کی طرف کوچ کرنا ہے ۔یعنی کوچ ہے عدم سے وجود، وجود سے عدم اور عدم سے پھر دائمی وجود کی طرف ۔

(جاری ہے)

یہ ارتقائی سفر ہے ارتقاء منزل نہیں الاآنکہ جب اس کو دوام ملے۔ اور پھر انسان ذی حواس اورذی عقل ہے ۔حکماء کے نزدیک یہ دو اور ان کے ساتھ خبر صادق یہ تین علم کے ذرائع ہیں ۔
خبر صادق سے مراد کوئی بھی خبر جو کوئی کسی کو دے اور یہ اس خبر کو صادق سمجھے چاہے وہ حقیقت میں صادق نہ بھی ہو لیکن اس نے تو اس کو سچا جانا اور یوں اس کو اس کے مضمون پر علم حاصل ہوا۔

لیکن مسلمان کے پاس تو یقینی خبر صادق آیا ہے اور وہ ہے وحی۔ حواس اور عقل کے ادراک میں تو غلطی کا امکان اور احتمال ہوتا ہے لیکن وحی جب ثابت ہوجائے تو اس میں تو غلطی کا کوئی گزرہی نہیں۔اس پر تو یقین واذعان پیدا ہوتا ہے۔
اب انسان سماجی بھی ہے باہمدگررہتا ہے اور ان کے ایک دوسرے کو حقوق و فرائض بھی متوجہ ہوتے ہیں ۔ اب بندہ زندہ ہو ،حرکت بھی کرے ،سماجی ہو ایک دوسرے کے حقوق کا بھی خیال رکھے تو یہ ایک گونہ مشکل کام تو ہے وہ بات بھی کریگا، کام اور عمل بھی کریگا۔

بعض باتوں اور کاموں کا تعلق صرف اسکی ذات سے ہوگا لیکن دیگر باتوں اور کاموں کا تعلق اوروں سے بھی بنتاجائےگا ۔وہ بات کرے تو ایسی کرے کہ دل حرکت پر مجبورہو اور حرکت کرے تو سوچےایسی حرکت نہ ہو کہ اس کا اپنا دل سسکیاں لے لے کے چلتا رہے ۔بات اوروں سے متعلق ہو تو ہوائی بات نہ ہو بلکہ اسے عملی تائید بھی حاصل ہو ۔یعنی وہ اگر نصیحت کی بات کرے تو خود اس کا عملی نمونہ پیشں کرے۔

کام اور عمل خیر کا ہو اور بات کرنے والا وہ کرے تو اس کی بات کا بھی اثر ہوتا ہے اور لوگ اس کی عملیت سے متاثر بھی ہوتے ہیں ۔معاشرہ میں بھی زیادہ لوگ اگر خیر کی بات بھی کریں اور خیر کے کام بھی کریں تو وہ تھوڑے جو برے کام کرتے ہیں وہ بھی دھیرے دھیرے رکتے رہتے ہیں اور اگر وہ تھوڑے لوگ خیر کا کام نہ بھی کرتے ہوں تو اکثریت کے خیر کی باتوں اور خیر کے کاموں سے متاثر ہوکر وہ بھی دھیرے دھیرے خیر کا کام شروع کرتے ہیں۔

یعنی گناہ کرنے والے کو گناہ میں اکیلاکرنا اسکی اصلاح کا ذریعہ بن جاتاہے کہ کوئی بھی بندہ اکیلا رہ کر گناہ میں نہیں رہ سکتا۔اس طرح گناہ کا تدارک ہوتا ہے اور معاشرےمیں اگر ایک سے زیادہ گناہ کرنیوالے موجود ہوں تو اس کا ارتکاب گناہ ایک دوسرے کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔
معاشرہ میں رہ کے بے جا ٹکرانے سے گریز لازمی ہوتا ہے۔

بچ نکلنے میں خیر ہے ۔سوچ مثبت ہو تو ذہن آسودہ رہتا ہے اور عمل مثبت ہو تو پوری زندگی آسودہ ہو جاتی ہے ۔ معاشرہ سے الگ تھلگ تو نہیں رہ سکتے انسانوں کے علاوہ دیگر انواع مخلوقات بھی جوڑوں میں ہوتے ہیں خصوصاً جو حرکت کرتے ہیں۔ ستارے اور سیارے جو افلاک میں متحرک ہیں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں اس کی حرکت ایک دوسرے سے منسلک اور ایک دوسرے پر موقوف ہوتی ہے اور پھر وسیع انداز میں ساروں کی حرکت ایک دوسرے پر موقوف ہوتی ہے کہ ایک نظام ہے جڑاہوا۔

خدا اگر دو ہوتے تو نظام نہ چلتا
‘‘لو کان فیھماآلھۃ الا اللہ لفسدتا’’
اور مخلوق اگر جوڑوں میں نہ ہو تو نظام نہیں چلے گا ۔
دنیا کا سیاسی نظام جب جب یونی پولر یعنی یک قطبی ہو جاتا ہے اور ایک پاور ہوتا ہے اس میں تو دنیا کا سیاسی نظام غیر متوازن اور ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔ باٹی پولر یا دوقطبی نظام نسبتاًمتوازن ہوتا ہے۔
حرکت و مشقت زندگی کی مٹھاس اور لذت ہے ۔

خاندان بھی وہی متوازن اور نسبتاً خوش حال رہتا ہے جس میں سارے حرکت اور مشقت میں لگے ہوتے ہیں ورنہ وہاں ہر وقت ٹینشن اور تو تو میں میں رہتا ہے۔ زندگی میں مشکلات آتی ہیں اور وہ وقت ہوتا ہے جس میں بندے کی خوبیاں آشکارا ہو جاتی ہیں کہ یہ کیا کرسکتا ہے ۔جن پر تا حال مشکل حالات نہیں آئے ان کو تو خود اپنی پہچان بھی نہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔

سو مشکلات سے گھبرانا نہیں اسے خندہ پیشانی اور جوان مردی سے فیس کرنا ہے۔
مصیبت میں بشر کے جو ھر مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردش قسمت سے ڈرجانا
تکلیفات بندے کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ باب جانسن نے کہا ہتھوڑا شیشے کو توڑتا ہے لیکن لوہے کی دھار کو تیز کر کے اسے کا رآمد بنا دیتا ہے۔ پھلدار پیڑ آسانی سے نہیں اُگتے نہ یار آور ہوتے ہیں اس کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے۔

بے کار جھاڑیاں خود اُگتی رہتی ہیں۔ بندے نے پھلدار بننا ہے جھاڑی نہیں۔ آزمائش میں دریافت بھی ہوتے ہیں اور ایجادات بھی۔ چیلنج آئے تو اس کو قبول کرو۔ مصیبت نہ دیکھی ہو تو راحت کی کیا آؤبھگت کروگے۔ جس بھی وقت کسی کام کا فیصلہ کرنا چاہتے ہو تو خوب سوچو۔ سوچ کے مطمئن ہوئے تو تحفظات ایک جانب رکھ کر عمل کے لیے قدم بڑھاؤ۔ چین دالے جب تک  بے ہمت پڑے تو افیون کھاکھا کرہر وقت خوابیدہ رہتے جب انہوں نے کچھ کرنیکا عزم کیا تو اب اوروں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

اور وجہ ظاہرہے وہاں ہر بندہ مشقت کرتا ہے چاہے کروڑ پتی ہو۔ ان کو لیڈرز ملے جو ورکرز اور مشقت کرنے والے تھے انہوں نے ان کو کام کا عادی بنایا۔ وہاں ایک سنڑل کمانڈ سسٹم ہے اور لیڈرشپ ایک محنتی اور دیانت دار ہے ۔ہمیں تو  طریقہ نہیں آیا بلکہ یہ کہ آج تک ہم فیصلہ نہ کرپا ئے کہ ہم زراعتی قوم ہیں، صنعت کار ہیں کہ مزدور ہیں۔ ہم تو کبھی صنعتوں کوقومیانے  اور کبھی حکومتی اداروں کو پرائیوٹائز کرتے ہیں اور ہر دو میں تباہی کردیتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ نہ کرپائے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت چلانا چاہتے ہیں یا کہ سوشلزم اور سنڑل کمانڈوالا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو سیاست کو روزگار اور روزگار کو سیاست وابستہ کیا ہے یوں  نالائقی اور نا اہلی کا دوردورہ اور میرٹ کا قتل عام ہورہاہے ۔ہمارے ہاں تو نجی اور ذاتی کا روباربھی حکومت سے تعلق کے أساس پر چلایا جاتا ہے یہ ہر دو کی تباہی ہے۔

حکومت کی بھی اور کاروبار  کی بھی ۔کاروبار کو منڈی کے اصولوں پر چلایا جانا چاہئے۔ محنت اور سرمائے کا تعلق فطری ہے اس کو جہاں جہاں توڑا جائے تباہی آئےگی۔ باقی اقوام فضاؤں اور خلاؤں کی تسخیر میں مگن، سمندروں کی تہوں میں جا کر دفینے نکالتے ہیں اور ہم اپنی سیاسی اور مالی مفاد کیلئے کبھی قوم اور قبیلے کے أساس ،کبھی مذہب و مسلک کی بنیاد جذبات ابھارتے ہیں اور ملت کو تقسیم در تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔

وہ اپنی تعمیر میں مگن ہیں اور ہم اپنی تخریب میں۔
ایسے میں نتیجہ کیا ہوگا؟
زبوں حالی اور غلامی ۔
تو آئیں سوچیں کیا ہم زندہ ہیں؟ سماجی ہیں؟ حواس اور عقل رکھتے ہیں؟ حرکت کرسکتے ہیں؟
اگر واقعی ہم سماجی ،ذی عقل اور زندہ ہیں تو زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔
ضمیر جعفری صاحب اٹھو کچھ کام فرماؤ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :