اتحاد مطلوب ہےمگرکیسے؟

جمعہ 15 جنوری 2021

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

ویسے تو دنیا جس کو یونیورس کہتے ہیں کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک جیسی چلتی ہے یعنی اس کا ایک مستحکم نظام ہے
‘‘صنع اللہ اتقن کل شئی’’
یہ اس اللہ کی صنعت ہے کہ جس نے ہر چیز کومستحکم بنایا ہے۔
یہ تکوینی نظام اللہ کریم فرماتے ہیں
‘‘فارجع البصر ھل تری من فطور’’
لوٹاؤنظر کو کیا تم کچھ فطور (یعنی دراڑ)دیکھ سکتے ہو
‘‘ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا وھو حسیر’’
پھر لوٹاؤ نظر کو بار بار لوٹا کے تمہارے پاس تمہاری نظر خوار ہوکے اور وہ تھکا ہوا ہوگا۔


اس اِحکام اور اتقان کے ساتھ اللہ کریم نے اس عالم کے حدوث ہونے کے ناطے جو ایک مسلسل تغیر پذیر ہونے کا پراسیس نتھی کردیا ہے وہ تغیرا ت ہوکے بھی اس کے أساسی نظام میں کوئی فرق نہیں آتا اس لئے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور چلانے والا ایک ہی ہے۔

(جاری ہے)


‘‘لوکان فیھما آلھۃ الا اللہ لفسدتا’’
اگر ہوتے ان دونوں(یعنی زمین اور آسمان میں)خدا سوائے اللہ کے تو یہ دونوں فاسد ہوجاتے(یعنی ان کانظام ختم ہوجاتا)
سو کائنات کا یہ اِحکام اور اس کے أساسی نظام دن رات اور اجرام فلکیہ کا ایک مستحکم انداز سے چلنا قادر مطلق اور قدرت مطلقہ کی دلیل ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے میزان کہا ہے
‘‘والسماء رفعھا ووضع المیزان الا تطغو ا فی المیزان ’’
اور آسمان کو رفعت دی ہے اس نے اور وضع کیا ہے ایک توازن تاکہ یہ لوگ توازن میں طغیان نہ کریں۔


یعنی توازن کے فطری نظام کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔
اور پھر
‘‘واقیمواالوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان’’
اور قائم رکھو (یا سیدھا رکھو )وزن (توازن)اور توازن کو(یا وزن کو)کو خراب نہ کرو۔
یہ تصریح بما علم ضمناً ہے اور ساتھ یہ کہ
‘‘الا تطغوا فی المیزان’’
فطری توازن کو خراب نہ کرنا ہے ۔
اور
‘‘اقیمواالوزن بالقسط الآیۃ
شرعی توازن کو خراب نہیں کرنا ۔


یعنی فطرت کے قوانین اور شریعت کے قوانین دونوں کا لحاظ رکھنا لازم ہے ۔
اب فطرت تو قانون وجود ہے لہذا اس سے تو تجاوز ممکن نہیں جو اس سے تجاوز کرے گا منہ کی کھائے گا کیونکہ وہ حاکم ہے اور ساری مخلوقات اور اس کے ہر ذرے ذرے پر حاکم ہے۔ دنیا کا سارا نظام طبیعی فعلیت وانفعالیت ،سبب اور نتیجہ یعنی کاز اور رزلٹ پر مبنی ہے اسی میں کائنات کے سارے راز پڑے ہوئے ہیں اور تاقیامت انسان انہی رازوں کو وا کرنے میں مصروف رہے گا یہ مخفی اسرار اور امکانات
‘‘وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا’’
انسان اس کا شمار نہیں کرسکتا نہ سب کو پاسکتا ہے کہ یہ ذات قدیم اور لامحدود ذات کا پیدا کردہ ہے ۔

اس میں ایک گونہ لا متناہیت کا عکس موجود ہے جو لامتناہیت حقیقی تو نہیں کہ وہ تو صرف اللہ کی ذات ہے
‘‘لا یحدّ’’
جس کا کہ نہ ذات کی تحدید اور نہ صفات کی اور نہ ذاتیات پر اس کی تعریف کی جاسکتی ہے کہ منطق کی اصطلاح میں حد محدود کی ماہیت پر احاطہ کرنا ہوتا ہے اور اللہ کی ذات پر یا اس کی صفات پراحاطہ تو ممکن ہی نہیں
‘‘ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء ’’
واللہ احاط بکل شئی علما
کہ وہ ذات محیط ہے تو محاط نہیں ہوسکتا۔


البتہ انسان لگا رہے گا معرفت ذات کی متلاشی بھی اور معرفت کائنات کے متلاشی بھی اور پھر دو پر احوال بھی آئیں گے اور مقامات بھی ۔احوال میں وہ اضطراب میں رہیں گے اور مقامات میں کچھ سکون نصیب ہوگا۔یہ مخفیات ذات ہوں کہ کائنات کے متلاشی اس کا کشف کرجاتا ہے اس پر حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے وہ غیب کو شہود بنادیتا ہے ۔سو فطرت قانون وجود ہے اہل سلوک اسے مادہ مہجور کہتے ہیں اس کے وسیلے سے خالق نے غیر میں اپنا اظہار کیا ہے ۔

اہل سلوک نے جو فرمایا
‘‘کنت کنزا مخفیاً فاردت ان اعرف فخلقت خلقا لاعرف ’’
کہ میں ایک مخفی کنز تھا میں نے ارادہ کیا کہ مجھے پہچانا جائے تو میں نے ایک خلق پیدا کیا تاکہ میری معرفت اور پہچان ہو۔
اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کائنات کی مختلف چیزوں کو بطور دلائل عقلیہ پیش کرکے اپنے وجود ،توحید، قدرت ،ربوبیت اور تصرف ثابت کرتا ہے
؎ وفی کل شئی لہ آیۃ  تدل علی انہ واحد
اور ہر چیز میں اس کی نشانی ہے جو دلالت کرتی ہے اس پر کہ وہ ایک ہے۔


؎ ہر گیاہے کہ از زمین روید وحدہ لا شریک لہ گوید
زمین سے جو گیاہ نکل آتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ کہتی ہے۔
؎  برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہرورقے دفتریست معرفت کردگار
درختوں کے سبز پتے ہوشیار کی نظر میں ہر پتا اللہ کی پہچان کا ایک دفتر ہے۔
یعنی ہر ذرہ مظہر ہے ۔
اس سے وحدۃ الوجود اور وحدت الشھود کے تصورات نکل آئے ۔مختلف مذاہب میں مختلف تعبیرات ہوئے ۔

اب جس جس مذہب نے صرف انسانی عقل وفہم کے أساس پر کوئی فلسفہ گھڑ لیا وہ زیادہ تر بھٹک گئے ،گمراہ ہوگئے اور جن کی تعبیرات نقل سے مستنبط ہوئے وہ حق تک پہنچ گئے۔کہ اللہ کے دو قوانین ہیں۔
1۔ایک فطرت
2۔اور ایک ہدایت
فطرت اور اس کے قوانین سمجھنے کے لئے انسان کے پاس عقل ہے جسے علوم سے جلاء ملتی ہے ۔
اور ہدایت کے قوانین کے لئے نقل ہے جوہمارے پاس انبیاء کرام لے آئے ہیں بلکہ خاتم النبیین ﷺ کے آنے کے بعد پوری انسانیت کے لئے ان کے پاس قرآن وسنت ہے کہ اللہ کا دین ہے اسلام جو تکمیل کے مراحل سے گزر کر آپﷺ پر مکمل ہوا تبھی تو اس کے بعد کسی دوسرے نبی کے دور کے اسلام کی جو شکل تھی وہ باقی نہیں رہی اور اب ایک ہی شکل ہے اور وہ ہے جو آپ لے کر آئے ہیں اور صرف وہی ہدایت پر ہیں جو اس کو قبول کرچکے ہیں۔

امام مسلم ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
‘‘والذی نفس محمد بیدہ لایسمع بی ھذہ الامۃ یھودی ولا نصرانی ثم یموت ولم یومن بالذی ارسلت بہ الا کان من اصحاب النار’’
قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے نہیں سنے گا میرے متعلق میری امت(دعوت)میں سے کوئی یہودی ہو کہ نصرانی ہو اور پھر مرے گا اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا تو وہ اصحاب النار میں سے ہوگا۔


تو فطرت کی قوانین ساری مخلوق بشمول انسان کے لئے ہے ۔اور ہدایت کے یعنی شریعت کے قوانین انسانوں کے لئے ہیں ۔کائنات اور مخلوق تکوینی اعتبار سے صحیح رہیں گے جب تک کہ فطرت کے قوانین پر چلیں گے جبکہ انسان تشریعی اعتبار سےصحیح رہیں گے جب تک کہ ہدایت یعنی شریعت کے قوانین پر چلیں گے
‘‘لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط’’
یقیناً ہم بھجواچکے ہیں اپنے رسولوں کو بینات (وہ چیزیں جو خود روشن ہوں اور دوسری چیزوں کو روشن کرتے ہوں)اور نازل کیا ہم نے اس کے ساتھ کتاب اور میزان (نظام عدل وتوازن)تاکہ لوگ قسط(عدل)پر قائم ہوسکیں۔


سو فطرت وجودی حجت ہے اور شریعت علمی یعنی اعتقادی اورعملی حجت ہے ۔فطرت کے مطابق فھم ہو تو اسے رشد کہتے ہیں
‘‘ولقد آتینا ابراہیم رشدہ من قبل ’’
یا
‘‘فان آنستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم’’
کہ ابراہیم علیہ السلام کو ہم نے رشد دیا تھا اس سے پہلے یعنی بلوغ سے پہلے وہ میچور بندے تھے ۔
اور اگر آپ لوگوں نے دیکھا ان(یتامی)سے رشد یعنی میچیورٹی تو دو ان کو مال ان کے ۔


جبکہ شریعت کے مطابق فہم وعمل ہو تو اس کو ہدایت کہتے ہیں
‘‘اھدنا الصراط المستقیم’’
1۔اب ایک کائنات کی وحدت جو اس کے تکوینی نظام کے حوالے سے ہے ۔
2۔پھر ہے انسانی وحدت جس کے لئے انسانی ضابطے انسانی اصول اور حدود ہیں ۔
3۔اور ایک ہے اسلامی وحدت جس کے لئے أساس دین ہے اور اس دین کے اصول وضوابط ہیں۔
ہر علم کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور ہر عمل کے بھی اپنےا صول اور حدود وقیود ہوتے ہیں مثلا ً میڈیکل سائنسز کے اپنے أساس اور اصول ہیں اور فلکیات کے اپنے أساس اور اصول ہیں۔

بطور علم اور تعلیم کے تو اس میں وحدت ہے لیکن بطور ایک خاص علم کے ان میں تفریق ہے جو ان کی شناخت ہے ۔ہاکی بھی ایک کھیل ہےا ور کرکٹ بھی کھیل ہے ۔بطور کھیل کے ان میں ایک وحدت ہے لیکن بطور ایک علیحدہ علیحدہ کھیل کے ان میں تفریق ہے جو ان کی شناخت ہے ۔
اب دین تو اللہ کے ہاں صرف ایک ہی ہے
‘‘ان الدین عنداللہ الاسلام’’
اور اب کے اس کی وہ شکل متعین ہے جو آپﷺلے آئے ہیں کہ یہ اللہ کی دین کی اکمل دائم شکل ہے۔

باقی تو رہے نہیں نہ ان کی اہمیت رہی ۔کسی نے پی ایچ ڈی کرلی تو اس کے کیس میں پرائمری یامڈل کے سرٹیفیکیٹ کی کیا اہمیت رہتی ہے بلکہ عملاً تو وہ ختم ہوچکا ہےسوائے اس کے کہ کہا جائے کہ وہاں سے ہوکے آیا ہے ۔
اب کے لوگوں کو جہالت کی وجہ سے ایک نشہ چڑھا ہے جس سے ان کے حواس مخدوش ہوچکے ہیں ۔کہتے ہیں کہ سب سے بڑی مذہب انسانیت ہے اور اس کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی کسی مذہب کا تذکرہ نہ کیا کرے ۔

مذہب ایک حقیقت ہے موجود تھی ،موجود ہے اور موجود رہے گی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنا تصور انسان کی فطرت میں گوندھی ہے لہذا فطرتاً وہ اللہ کی ٹوہ وطلب میں رہتا ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ان میں سے اکثر بھٹک جاتے ہیں۔اب ہر سفر کرنے والے کو توصحیح نہیں کہا جاسکتا بلکہ مقصود تک پہنچنے والے ہی کو صحیح کہا جائے گا۔اور مذہب کی أساس عقیدہ ہے تو اگر عقیدہ نہ ہو تو مذہب کاہے کا۔

اور عقیدہ بنا ہی ہوتا ہے اس پر کہ بندہ صرف اس کو ہی صحیح سمجھتاہے اگر ایسا نہیں تو وہ تو عقیدہ نہیں ہوا اس کو زیادہ سے زیادہ آپ تصور یا نظریہ کہہ سکتے ہیں ۔پھر یہ کہ ہم مسلمان ہیں تو مذکورہ بالا بات اگر کرتے ہیں تواس کا تو معنی ہوگا معاذاللہ کہ نہ اسلام انسانیت ہے اور نہ محمد رسول اللہ ﷺ معلم انسانیت ہے حالانکہ آپﷺ تو اغیار کی نظر میں بھی انسان کامل واکمل اور محسن انسانیت ہے ۔


؎ آدمیت کا غرض سامان مہیا کردیا
 اک عرب نے آدمی کو بول بالا کردیا
پھر کچھ ناسمجھ خودساختہ فلسفی بن کر وحدت ادیان کا راگ شروع کردیتے ہیں ۔اب بھائی ایک وقت میں صرف ایک ہی دین صحیح ہوگا اور ایک ہی صحیح ہوتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ وحدت مطلوب ہے تو وحدت دین سے آتا ہے وحدت ادیان سے نہیں ۔

ادیان جمع کا صیغہ ہے اور جمع افراد کا ہوتا ہے افراد شخص ہوتے ہیں اور ہر شخص علیحدہ ہوتا ہے زید،عمرو،بکر سب کو انسان کہا جاتا ہے لیکن زید شخص علیحدہ ہے ،عمرو علیحدہ ہے اور بکر علیحدہ ہے وہ واحد ہیں نہیں تو آپ ان کوواحد نہیں کرسکتے اگر چہ ان کا انسان ہونا کلی متواطی ہے جبکہ ادیان کی صورت میں تو کلی مشکک بھی نہیں کہ وہاں تو حق اور باطل کا مسئلہ ہے یعنی ان کی تو نوع اور جنس ہی علیحدہ ہے ۔

ایک دین اللہ کا فرستادہ جبکہ باقی انسانوں کا اختراع اور یہ کسی زمانے میں ایک دین اللہ کا فرستادہ تھا ۔لیکن وہ تو اسلام تھا یہودیت اور نصرانیت تو ان کے دین کا نام نہیں وہ ان کی شریعت کا نام تھا کہ دین تو روز اول سے ایک ہی ہے
‘‘شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسی ان اقیمواالدین ولا تتفرقوا فیہ کبر علی المشرکین ما تدعوھم الیہ اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویھدی الیہ من ینیب’’
کہ ان انبیاء کو ایک ہی دین دے دی گئی تھی اور تبھی تو سب ایک ہی امت ٹھہرے
‘‘وان ہذہ امتکم امۃ واحدۃ ’’
اور پھر نہ صرف یہ کہ انہوں نے تو اپنی شریعت کا ستیا ناس کردیا بلکہ وہ رہے ہی نہیں ۔

آپ ﷺ کے آنے کے بعد جیسا کہ ہم نے حدیث نقل کی ۔اگر چہ وہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں اور وہ بقول یہود کے یہودی اور بقول نصاری کے نصرانی تھے۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
‘‘ما کان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما ’’
کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ مخلص مسلمان تھے۔
اور مزید فرمایا کہ یہودیت تورات سے اور نصرانیت انجیل سے متعارف ہوئی
‘‘وما انزلت التوراۃ والانجیل الامن بعدہ ’’
کہ تورات اور انجیل تو ابراہیم علیہ السلام کے بعد آئے تھے۔

تو وہ کیسے یہودی یا نصرانی ہوئے۔
اور بعض لوگ کہتے ہیں نفرتیں نہ ہوں اس لئے ہم ایساایسا کہتے ہیں ۔اس بات پر تو کسی کابھی اعتراض نہیں۔ لیکن نفرتیں کسی فکرو نظر سے نہ ہوں یا حاملین فکر ونظر سے؟تواگر کوئی کسی فکر ونظر کے حامل سے نفرت کرے یہ تو بالکل بھی صحیح نہیں ہے کہ وہ بھی آپ جیسا انسان ہے البتہ اس کی فکر ہے وہ غلط ہے تو کسی غلط فکر سے نفرت یہ عقل کا بھی تقاضا ہے اور منطق کا بھی اس لئے کہ فکر عمل سے اہم ہے بایں معنی کہ یہ فکرہی ہے جو بھی ہو وہی عمل پر اکساتا ہے ۔

اب فکر جڑ ہے اور عمل اس کا ثمرہ ہے ۔اب کوئی چوری کرے ،زناکاری کرے توکیا یہ صحیح ہوگا؟ کہ بندہ کہے نہیں نفرتیں نہیں ہونی چاہیئں لیکن کس سے ؟چور سے کہ چوری سے؟زناسے؟ زنا سے کہ زناکاری سے؟اب اگر کوئی کہے کہ چور سے یازناکار سے تو یہ صحیح نہیں کہ اس کی تو اصلاح مطلوب ہے تاکہ وہ گند سے نکل کر صاف ہو۔لیکن اگر یہ کہے کہ چوری سے یا زناکاری سے نفرت نہ ہو جو کوئی بھی عقل مند نہیں کہے گا کیونکہ اس میں تو خود وہ اپنے مال اور عزت پر تعدّی کی دعوت دے رہا ہے کہ آئیں کریں جو کرنا چاہے کہ مجھے ان کاموں سے نفرت نہیں حالانکہ یہ اعمال ہیں جو افکار سے نیچے کی چیزیں ہیں اور پھر عقیدے کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔


ایسے میں ہم دو چیزوں میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرجاتے ہیں ۔
1۔یعنی یا تو ہم مذہب اور عقیدے کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنا کہ ہماری نظر میں کسی عمل کی ہے حالانکہ عمل تو عقیدے سے بعد کی چیز ہے ۔
2۔یا پھر یہ ہے کہ ہم اتحاد اتحاد کا رٹ جو لگارہے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اتحاد ہوچاہے وہ عقیدے اور دین کی قیمت پر ہو ۔
ارے دوست!اتحاد دین کی أساس پر ہوتا ہے دین کی قیمت پر نہیں ہوتا۔

قرآن کریم نے فرمایا
‘‘واعتصموابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا’’
اور مضبوطی سے پکڑو اللہ کی رسی کو سب کے سب اور تفرق نہ کرو۔
اور حدیث شریف میں قرآن کریم کو حبل اللہ کہا گیا ہے یعنی تفرق نہ ہو وحدت ہو قرآن کی أساس پرقرآن کی قیمت پر نہیں اور قرآن پر عمل ہوتو اس کی تعلیمات کے أساس پر تو انسان کیا حیوانات اور نباتات وجمادات تک کے ساتھ اتحاد ہوجاتا ہے کہ باقی تو چھوڑیں پانی جو ہے تو ذریعہ اور وسیلہ حیات لیکن خود تو جماد ہے اور جاری تو درکنار کھڑے پانی کے متعلق آپﷺ نے فرمایا
‘‘لایبولن احدکم فی الماء الراکد’’
کھڑے پانی میں کوئی پیشاب نہ کرے۔


یہ نہی اس لئے کہ جاری پانی میں پیشاب کرنے سے تو ویسے بھی واجبی سا عقل رکھنے والا بھی اجتناب کرتا ہے کہ بھائی نیچے کوئی استعمال کرتا ہوگا لیکن کھڑے پانی کے متعلق تو ایسا سوچ کم ہی کسی کو آئے گا تو آپﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ شاید کوئی پرندہ وحشی جانور کوئی کیڑا وغیرہ اس سے پیا کرے اور ان میں بہت سارے ہوتے ہیں جن کی طبیعت بدبوسے اور خصوصاً پیشاب کی بو سے اباء کرتے ہیں بلکہ شیر تو اس جوہڑ سے بھی پانی نہیں پیتا جہاں سے کتے نے پانی پیا ہوکہ کتے کی خصلت مجھ میں نہ آئے۔


؎ وتجتنب الاسود ورود ماء اذاکان الکلاب ولغن فیہ
اب جن سے اصل کام نہیں ہوتا یعنی وہ آگے کی طرف نہیں جاسکتا توریورس پر شروع ہوجاتا ہے ارے بھائی!آگے جاؤ اسلام کو عملی کرو ،قرآن کو عملی کرو تاکہ انسانیت کا اتحاد ہو،مخلوق کا اتحاد ہو بایں معنی کہ سب کے حقوق محفوظ ہوں ۔نفرتیں حق تلفیوں سے آتی ہیں حق تلفیاں ختم ہوں ،ہر ایک کو حق ملے تو وحدت ہی آئے گی۔

لیکن وحدت کے ساتھ ساتھ امتیاز رہے گا کہ یہ زید ہے اور یہ عمرو ہے دو اشخاص ہیں۔یہ انسان ہے اور یہ گدھا یا بیل گائے ہے دو انواع ہیں ۔یہ حیوان ہے ،یہ درخت ہے دو اجناس ہیں۔یہ مرد ہے ،یہ عورت ہے دو اصناف ہیں ۔اور یہ مسلمان ہے اور یہ غیر مسلم ہے دو علیحدہ افکار کے حامل ہیں۔یہی امتیازات اور تنوعات مخلوق کی دوئی ہے اور خدا کی یکتائی کا مظہر ہے ۔


‘‘ومن کل شئی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ’’
کہ خدا میں وحدت ہے اور مخلوق میں دوئی ہے اس لئے کہ خالق خالق ہے اورمخلوق مخلوق ہے ۔یہ تنوعات ہی اللہ کے قدرت کی دلیل ہے یعنی تفرق ہوگا پھر تو حد کا درس ہوگا لیکن توحد کے ساتھ ساتھ بھی مختلف اندازوں کا تفرق رہے گا کہ یہ فطرت ہے اور اس کو سمجھنا شریعت ہے ۔فطرت وجودی حجت ہے اور شریعت وہدایت عملی حجت ہے
سو تفرق میں توحد اور توحد میں تفرق
؎ رفتم بسوئے صحرا دیدم عجب تماشا
دریا  درون  کشتی  کشتی درون دریا
بدقسمتی سے آئے دن مفکر اور مفتی دانشور پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اچھے بھلے لوگوں کو مسلّمات کے حوالے سے بھی کنفیوز کردیتے ہیں۔


؎ نام کے ساتھ مفتی کا لگانا آسان فی البدیہ فتوی جماعت پہ ستم ہوتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :