"ادخلواالارض المقدسۃ"

ہفتہ 9 جنوری 2021

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

ایک عربی شاعر نے کہا ہے
؎ خلق اللہ للحروب رجالا ورجالا لقصعۃ وثرید
اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں جنگوں کے کچھ لوگ اور کچھ دوسروں کو قصعۃ اور ثرید کھانے کے لئے پیدا کیا ہے۔
عرب کہتے ہیں
‘‘لکل مقام مقال ولکل فن رجال’’
ہرجگہ کے لئے اپنامناسب مقال ہوتا ہے اور ہرفن کے لئے اس کے ماہر ہوتے ہیں۔
کسی دوسرے میدان میں جو ہمارا ہے نہیں یا ہم اس کی مہارت نہیں رکھتے اس میں ٹانگ اڑانا اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے اور لوگوں کو بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے تو کیا لگانا ان کو گڑنگ میں ڈالنا ہے ۔

قرآن کریم نے فرمایا
‘‘ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا’’(الاسراء ۳۶)
اور نہ پیچھے لگو اس کے کہ جس کا تمہیں علم نہیں یقیناً سماعت ،بصارت اور فواد(عقل ودانش) ان سب کے متعلق پوچھا جائے گا۔

(جاری ہے)


کہ یہ تو امانات خداوندی اور عاریات خداوندی ہیں اور عاریۃًجو چیز ملی ہو اس کو مالک کے ہدایات کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے ورنہ ضمان واجب آتا ہے ۔

تواللہ کی دی ہوئی صلاحیات کو بے محل اور بے جا استعمال کرنا جرم ہے اور جرم کا سوال کیا جائے گا۔
اب انہیں صحیح کیسے استعمال کیا جائے ؟
اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وحواس بھی دیے اور پھر نقل ووحی بھی اتارے۔ اب جو جو میدان صرف حواس اور عقل کا ہے وہاں تو صاحب حواس وعقل کوشش کرے جو کرسکتا ہے اور عقل کے حوالے سے بھی میدان مختلف ہیں ۔

اب جس جس نے جس بھی فن میں مہارت حاصل کی ہے وہ میدان اس کا ہے اس کو کسی دوسرے میدان میں ٹانگ اڑانا مہنگا پڑتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمیں اس کے مشاہدات ہوتے ہیں مثلاً ایک ڈاکٹر ہے تو بس ڈاکٹر ہے اور میڈیسن اس کا میدان ہے بلکہ سپیشلائزیشن کے اس دور میں توہرعضو کا علیحدہ علیحدہ ڈاکٹر ہے توآپ ای این ٹی والے سے دل کے متعلق پوچھے گا وہ آپ کو ماہر امراض قلب کے پاس بھیج دے گا حالانکہ فی الجملہ اس نے سارے انسانی اعضاء وامراض کے حوالے سے أساسی ایم ڈی کیا ہوا ہے ۔

اب جس میدان کے مبادی سے بھی وہ واقف نہ ہو اور اس میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرے تواس کا کوئی تُک بنتا ہے؟بالکل بھی نہیں لیکن ہم ہیں جو باز نہیں آتے۔
یا مثلاً دینی میدان میں ایک بندہ محدث ہے اس سے استفتاءکیا جاتا ہے جس کا کہ اسے زیادہ مہارت نہیں تواگر ایک کامن قسم کا مسئلہ ہے تو وہ جواب دے دیتا ہے لیکن اگر مسئلے میں اغلاق اور عمق ہے تووہ سائل کو مفتی کے پاس بھجواتا ہے وھکذا ۔

الاآنکہ اللہ نے کسی کو مختلف میدان کا ماہر بنادیاہو
‘‘وقلیل ما ھم’’
جو بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاءورسل بھجوائے ۔ان کو شریعتیں اور کتابیں دیں نہ صرف یہ کہ یہ لے آئے بلکہ اس کی تعلیم بھی دی اور عملیت بھی دکھا دی ۔اللہ تعالیٰ نے رسول پاکﷺکو خاتم النبیین بناکے بھجوایا اورآپﷺ کو قرآن پاک دے دیا۔اب قرآن کریم اللہ کا کلام ہے ۔

رسول پاکﷺنے اپنے قول وعمل سے اس کی تعلیم دی ۔یعنی اس کی تفصیل وتفسیردی جوبھی آپﷺکو اللہ کی طرف سے القاء کیا گیا تھا۔
‘‘وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم’’
اور ہم نے آپ کو ذکرنازل کیا ہے تاکہ آپﷺلوگوں کے لئے واضح کردیں وہ جو ان کے پاس نازل کیا گیا ہے۔
اب ایک ہے ‘‘ذکر’’
اور ایک ہے
‘‘جوان کے پاس نازل کیا گیا ہے’’
سو جو نازل کیا گیا ہے وہ تو قرآن پاک ہے ہی ۔

جبکہ  یہ ذکرغیرقرآن ہے جسے بھی نازل کیا گیا ہے سو وہ حدیث رسولؐ اور سنت رسول ﷺہے کہ نزول تو آپﷺپر ہوتا تھا۔سوا ٓپﷺ نے اس قرآن کی تفصیل وتشریح کی اس لئے قرآن کریم کاجو مجمل ہے یعنی وہ جو ایک سے زیادہ وجوہ کا احتمال رکھتا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ہے تو حق کہ قرآن ہے لیکن اس پر عمل تب ہوتا ہے جب اس کا بیان کیا جائےاور اس کا بیان مُجمِل یعنی اصل متکلم کی ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ ہے۔

اب جیسا یہ قرآن آپ ﷺلاچکے ہیں آپﷺسے ہم نے جانا اور مانا کہ یہ اللہ کا کلام ہے تو اس کا جومجمَل ہے اس کے نیابۃً مجمِل بھی تو آپ ٹھہرے تو اسی مجمِل نے اپنے قول وعمل سے اس کا بیان فرمایا ہے اور وہی حق ہے اور یوں وہ مجمَل مفسّربن جاتا ہے اور یوں مفسّرہونے کے بعد اس میں تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہتی اس کو پھر
تاویل الکلام بمالایرضی قائلہ
کہتے ہیں کہ یہ تو قائل کی مرضی اور مراد ہے ہی نہیں جبکہ متکلم کا کلام توا س کی ملکیت ہے وہ اس کی تفسیر کرسکتا ہے اگر اس میں اجمال ہو ۔

البتہ مفسر ہونے سے پہلے کوئی اگر اس میں تاویل کرے تو تاویل کے اپنے مسلّم اصول ہیں اس کو بندہ نہ جانے تو وہ تاویل ناقابل اعتبار ہے کہ بندہ کی اہلیت ہی نہیں ۔تویہ تو ایسا ہے کہ قصاب کو سرجن کی جگہ بٹھایاجائے اس لئے کہ اس کے پاس بھی کاٹنے کے اوزار ہیں یعنی اس کا بھی ڈاکٹر اور سرجن کے ساتھ ایک مشابہت ہے کہ اس نے بھی ایپرن (Apron)لگایا ہے چھری کاٹنا پاس ہے اور اس کا بھی حلیہ وغیرہ ایسا ہے اور اگر وہ بندہ اہلیت وصلاحیت رکھتا ہے, تاویل کے اصول اس کو ازبر ہوں اور اس کو فن پر عبور ہو تو پھر اس کے تاویل کو قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی حتمی نہیں اس لئے کہ وہ مجِمل اور متکلم تو نہیں۔

سو قرآن وسنت شریعت کے أساسی اصول ٹھہرے ۔
اب صحابہ کرامؓ کی تشریح وتفسیر کو راجح کیوں تصور کیاجاتا ہے؟
اس لئے کہ وہ اصحاب واقعہ اور اصحاب مشاہدہ تھے ان کو پس منظر کا پتہ ہوتا تھا کہ آپ ﷺنے کسی آیت کو کیسے تطبیق کیا یا کوئی بات کس پس منظر میں کہی اور ان کے بعد تابعین جو ان کے بلاواسطہ شاگرد اور ان سے استفادہ کرنے والے تھے وہ اسی وجہ سے معتبر ٹھہرے۔

اور بعض علماء کے نزدیک اتباع التابعین بھی کہ خیرالقرون والے حدیث کی تشریح  تین قرون ہیں ۔
۱۔ایک صحابہ کا
۲۔دوسرا تابعین کا
۳۔ اور ایک اتباع التابعین کا
ان کے بعد کے تاویلات وتشریحات کے لئے تو وہ لوگ اور ان کے اطوار وطرق یااگر ان سے کوئی قاعدہ معلوم ہوتا ہے وہی قواعد واصول معیار ٹھہرے۔ انہی اصول وطرق سے صرف نظر کرکے قرآن وسنت کی تشریحات صرف اس حد تک صحیح ہوسکتے ہیں جب تک کہ مسلّمات وثوابت ومحکمات سے ان کا ٹکراؤ نہ آتا ہو ورنہ اگر وہ ناسمجھی سے کیا جائے تو جہالت اور سمجھ بوجھ کے ساتھ کیا جائے تو ضلال واضلال ہے۔

اس لئے تفسیر قرآن کریم کے لئے امت کے اسلاف کے زمانے سے طرق منحصر ہیں کہ
۱۔تفسیر قرآن ہو قرآن کے ذریعے
۲۔حدیث کے ذریعے
۳۔آثار الصحابہ کے ذریعے
۴۔آثار التابعین کے ذریعے
۵۔اور ایک قول ہے کہ آثار اتباع التابعین کے ذریعے۔
اور ایک طریقہ کہ لسان العرب دیوان العرب اور قواعد العربیۃ کے أساس پر ہواور یوں تحریف معنویہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کیا گیا ورنہ خاکم بدہن پھر تو تورات وانجیل ودیگر کتب منزّلہ کا کیا حشر ہوا۔

اور یہ بھی مظہر ہے
‘‘انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون’’
کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کو محفوظ رکھنے کا یقین دلایا ہے اور ذکر وحی ہے جو قرآن وسنت دونوں کو شامل ہے۔قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے لفظاً تو حفظ اور کتابت کے ذریعے محفوظ کیا ہے جبکہ حدیث کو بھی اس طرح محفوظ کیے رکھا لیکن چونکہ حدیث کا وافر حصہ ظنی الثبوت ہے اس لئے اس کے ثبوت کے لئے ایک بے نظیر اور مثالی فن درایہ اور اسماء الرجال مرتب کیا گیا اور یوں اللہ نے اپنا وعدہ سچا کرکے دکھایا۔


اب قرآن وحدیث کے الفاظ کے ساتھ تو کوئی ہیر پھیر نہیں کرسکتالیکن ہمیشہ سے یا توجہالت کی وجہ سے یا پھر بدطینتی کی وجہ سے کچھ لوگ معنوی تحریفات کرتے رہتے ہیں لیکن پھر وہی بات کہ
‘‘انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون ’’
کہ الفاظ کی حفاظت کا اصل مدعی ومقصد توان معانی اور مفاہیم کی حفاظت ہےجویہ الفاظ وکلمات دیتے ہیں توعلماء کرام پوری تاریخ میں اس قسم کے خرابات وخرافات وہفوات کا فوراً مؤاخذہ کرتے ہیں ۔


آج کل چونکہ اسرائیل کا مسئلہ ذرا زیادہ اجاگر ہوچکا ہے تو کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ نے بنی اسرائیل سے نہیں کہا کہ
‘‘ادخلواالارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم’’(المائدہ)
کہ داخل ہو اس مقدس زمین میں جو اللہ نے تمہارے لئے لکھا ہے۔
اب جیسا کہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کابیٹا حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسحاق کابیٹا حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اسرائیل اور بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ(۱۲) بیٹوں کی اولاد میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم بنے اور یوں حضرت یعقوب علیہ السلام اور خاندان مصر منتقل ہوئے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل پر مصر میں برے دن آگئے اور قبطی ان کے انسانی حقوق غصب کرگئے اور فرعون نے تو ان کا جینا دوبھر کردیا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھجوایا۔ فرعون کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا ۔اب ان کو ایک مصیبت سے نجات مل گئی توان کو حضرت موسیٰ علیہ کے ذریعےحکم ہوا کہ اب ارض مقدسہ چلے جاؤ جواللہ نے تمہارے لیے لکھا یعنی فرض قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا
اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ ٭ۖ وَ اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَا حَتّٰی یَخۡرُجُوۡا مِنۡہَا ۚ
اس میں جنگ جو قوم (اقوام فلستی،فینقی،عمالقہ،کنعانی آراجی ،مدیانی وغیرہ )ہیں اور ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہونگے جب تک کہ وہ اس سے نکلیں۔
انہوں نے یہ اس لئے کہا کہ وہ مدتوں زیرنگین ،محروم اور غلام بن کررہے تھے اور غلاموں میں بزدلی آتی ہے وہ کبھی آزادی کا سوچتے نہیں اس کے لئے مصیبت کیا لیں۔


دوسرا یہ کہ ان کو آس تھی کہ اب تو فرعونیوں کے گھروں اور زمینوں میں بسنے کے لئے مصر واپس جانا چاہئے  ۔تواللہ کریم نے فرمایا کہ اب یہ ارض مقدسہ ان پر حرام کیا گیا ہے
‘‘فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ ویتیھون فی الارض’’
چالیس سال یہ نہیں داخل ہوسکیں گے یہ زمین(صحرائے سینا کے وادی فاران)میں بھٹکتے رہیں گے ۔
اگر چہ وہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوال پر اللہ تعالیٰ نے ان پر بادل کا سائبان بنایا ان کو من وسلویٰ دیا ،ان کو پتھر سے بارہ چشمے نکال کے دیے لیکن رہے وہاں صحرا میں۔

تاآنکہ غلامی میں پھلے ہوئے لوگوں کی نسل ختم ہوگئی اور ایک نئی پود فطری ماحول میں آزاد منش پھلی پھولی اور حضرت موسی علیہ السلام کے بعد حضرت یوشعؑ ان کو ارض مقدسہ لے گئے ۔وہ اگر چہ کوئی باقاعدہ حکومت تو ان کی قائم نہ کرسکے البتہ اس نے ان کے لئے وہاں کے حکمرانوں سے ایک خودمختاری لے لی کہ ان کے معاملات ان کی شریعت کے مطابق فیصلہ کیے جائیں گے جس کے لئے ان کے اپنے قاضی اور اپنے بڑے ہونگےاور اگر پھر بھی فیصلہ نہ ہوسکا توبالعاقبت معاملہ ان کے پیغمبر کے پاس آئے گا۔

بعد میں ان پر جالوت نے حملہ کرکے تاخت وتاراج کیا کہ یہ پھر دنیا داری میں بہت ہی منہمک ہوچکے تھے اور دنیا دار قربانی نہیں بلکہ عافیت کی طلب میں رہتے ہیں اور یوں سب کچھ کھودیتے ہیں تو انہوں نے بھی کھودیا۔پھر طالوت کی بحیثیت حکمران تقرری ہوئی کہ ان کو مدتوں بعد کچھ احساس ہوا اور طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام بعد ازاں حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے بادشاہ بنے اور یہ ان کا سنہری دور تھا۔

حضرت قالب اور حضرت یوشع نے ان سے کہا کہ
‘‘فاذادخلتموہ فانکم غلبون’’
کہ جب اللہ نے یہ تمہارے لئے فرض کیا ہے تو جب داخل ہونگے تو غالب ہونگے۔
اور بعدازان جب یہ لوگ داخل ہوگئے تو غالب آگئے ،حکمران بن گئے ۔گویا حکم پر عمل ہوا لیکن مؤخراور نتیجہ بھی ملاجو اللہ نے فرمایا تھااور امر تو تکرار کا تقاضا نہیں کرتا الا آنکہ معلّل ہویعنی علت یا سبب پر مبنی ہو۔


سلیمان علیہ السلام کے بعد اس کا بیٹا رہام حکمران بنا لیکن دنیا داری میں لگا۔ریاست دو حصوں اسرائیلیہ اور یھودیہ میں بٹ گئی ۔قوت کمزور ہو ہو کے ان پر بخت نصر آمسلط ہوا اور ان کی انیٹ سے اینٹ بجادی ۔یہ قرآن کریم کا بیان
‘‘لتفسدن فی الارض مرتین’’
کا مصداق ہے کہ دو بار فساد کروگے زمین (ارض مقدسہ)میں۔
اور پہلی بار کے متعلق  فرمایا
‘‘بعثنا علیکم عبادالنا اولی بأس شدید فجاسو خلل الدیار’’
یہ جالوت کا تسلط تھا ۔


اور
‘‘فاذاجاء وعد الآخرۃ لیسوءا وجوھکم ولیدخلواالمسجد کما دخلوہ اول مرۃ ’’
بخت نصر والا معاملہ ہے۔کہ بیت المقدس کو بھی تاخت وتاراج کیا ہر دونے۔اور فرمایا
‘‘عسیٰ ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا’’
کہ ممکن ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم لوٹتے ہو تو ہم بھی لوٹیں گے۔
یعنی راہ راست پر آؤ گے تو ہم رحم کریں گے ،بدمعاشی پر جاؤ گے تو سزاپاؤ گے۔


بعد میں بھی یہی سلسلے جاری رہے اس لئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے بعد بھی تو عیسیٰ علیہ السلام تک ان کے پاس پیغمبر آتے رہے ۔اور انہوں نے کیا جو کیا۔
اب وہ جو آیت ہے وہ ان کا قصہ بیان کیا جارہا ہے کہ ان کو اس وقت ایسا کہا گیا کہ ان پر وہ داخلہ فرض کیا گیا تھا انہوں نے سرتابی کی سو عذاب بھی بھگتا۔اس قسم کے تدلیسی اور تلبیسی باتیں جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور خصوصاً جب کسی کے ذہن میں شیطان یہ بھی بٹھائے کہ تم تو نابغہ ہو آپ بات کریں گے تو لوگ اس کو گرم گرم پکوڑوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ قبول کریں گے اور تمہاری واہ واہ ہوجائے گی۔

اور اگر کوئی اس قسم کی تحریفات قصداً کرتا رہتا ہے تو پھر تو اسے سوچنا چاہئے کہ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟کسی قصے کے حکایتی بیان کو انشائی یا ماضی کو حال بنا کر تو کلا م کاستیا ناس کردیا جاتا ہے ۔ایسا کرنا تو کسی انسان کے کلام کے ساتھ ہو تو بھی جرم ہے جبکہ خدا کے کلام کے ساتھ ایساکرنا تو سوچ کے بھی دل لرز جاتا ہے۔بدگمانی نہیں لیکن اگر کسی کو خوش کرنے کے لئے کیا جارہا ہو یا کسی مفاد کے خاطر کیا جارہا ہو تو
‘‘وما الحیوۃ الدنیا الا متاع قلیل ’’
دنیوی زندگی بہت تھوڑی ہے
وان الدار الآخرۃ لھی الحیوان لوکانوا یعلمون’’
اور یقیناً دار آخرت بھی دائمی ہے اگر انکو سمجھ آتی ہو۔


رہی بات کسی بھی قوم کی انسانی حقوق کی تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہر قوم بلکہ ہر فرد انسانی محترم ہے اور اس کے حقوق محفوظ ہیں اور محفوظ ہونے چاہییں ۔کسی کو بھی کسی پر ظلم کرنے کا حق نہیں نہ کسی کو کسی کا حق چھیننے کا حق ہے نہ اس کے بنیادی حقوق کے سلب کرنے کا کوئی حق ہے۔حکومات اور ادارے مقامی ہوں کہ عالمی ہوں اس مقصد کے لئے بنائے جاتے ہیں اور بنائے گئے ہیں۔

یہ ریاستیں اور حکومات اپنے دساتیر اور قوانین پر اور عالمی فورمز اپنے قوانین اور چارٹرز پر متفق ہوچکے ہیں اور ان کاکام ان پر عمل کرنا اور عمل کروانا ہے۔
دنیا سے جب تک سٹیریو ٹائپ انداز کا خاتمہ نہیں ہوتا ظلم وبربریت کا بازار گرم رہے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد یعنی شہری اور حکومات اپنے معاہدات پر عمل کریں اور ریاستیں باہمدگر ان عالمی اداروں کے چارٹرز اور قراردادوں کو عملی بنائیں کیونکہ منافقتوں کے اپنے اپنے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں ا ن کے اپنے نتائج ہوتے ہیں اپنے آفٹر شاکس ہوتے ہیں۔


آج کی دنیا جو مشاکل میں ہے ان منافقتوں کی وجہ سے ہے اگر ہم جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ یہ دنیا انسانوں کے لئے ہے تو پھر ہم یہ انسانوں کا بناتے کیوں نہیں؟ اور اگر ہم مانتے ہیں کہ انسانوں کا ہے تو پھر انسانوں کو ہم انسان کیوں نہیں مانتے ؟کسی کا عقیدہ دوسرا ہو قومیت دوسری ہوئی ،رنگت دوسری ہوئی ،منطقہ دوسرا ہوا ،حیثیت کمزور ہوئی تو کیا وہ انسان نہیں رہے؟ان ساری خرابات اور خرافات کی ہمیں ضرورت پڑتی ہے منافقتوں کو چھپانے کے لئے یا مزید منافقت کرنے کے لئے یا پھر ہم جہالت کررہےہیں۔
اللھم احفظنا یارب!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :