سماجی بنو تاکہ انسان بن سکو

منگل 5 جنوری 2021

Qazi Fazal Ullah

قاضی فضل اللہ

ہمارے سیاسی دوستوں میں ایک صاحب جو اب بھی بقید حیات ہیں اور مختلف اوقات میں مختلف طاقت ور عہدوں پر رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق صاحب مرحوم کے دور میں جب ہم ایم آر ڈی کے نام سے مارشل لاء مخالف تحریک چلارہے تھے اور کارکنان آئے دن آنسو گیس ،لاٹھی چارج کاسامنا کرتے رہتے۔بہت سارے گرفتار بھی ہوتے اور سندھ میں کچھ مرے بھی۔تویہ صاحب بھی گرفتار ہوگئے اور اس کے ساتھ اس کی پارٹی کا دوسرا بڑا آدمی جواب مرحوم ہوچکے ہیں وہ بھی تھے۔

سینکروں اور بھی تھے ۔بنوں جیل میں انتظامیہ کی پابندیوں اور سختی کے خلاف انہوں نے ہنگامہ کیا اور وہ سختی مارشل لاء کا حکم تھا تو جیل انتظامیہ کیا کرتی اور جیل میں بھی لاٹھی چارج اور آنسو گیس ہوا جس میں یہ صاحب وہ دوسرے صاحب اور کئی ایک بری طرح زخمی ہوئے ۔

(جاری ہے)

اس کا تو سر پھٹ گیا تھا اورلاٹھیوں سے ہاتھ میں بھی فریکچر آیا تھا۔بعدمیں یہ حکومت میں آئے ۔

میں نے اس سے پوچھاکہ اس سپرنٹنڈنٹ جیل سے کبھی اس حیثیت میں سامنا ہوا ہے جو پولیس پروٹوکول اور سکیورٹی آگے پیچھے ،ساری انتظامیہ دست بستہ اور کمر بستہ۔
تو اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا ہاں ایک جگہ ایک شادی میں گیا تھا اس سے آمنا سامنا ہوا۔
 میں نے کہا کوئی علیک سلیک؟
اس نے کہا وہ مجھ سے چھپتا رہا اور میں اس سے آنکھیں نہ ملاتا۔


میں نے کہا ابھی تک وہ سروس میں ہیں؟
اس نے کہا ہاں ۔
میں نے کہا اس کے خلاف کچھ کرنا ہے؟
اس نے کہا بالکل بھی نہیں ۔
میں نےویسے ازراہِ مزاح کہا اس لئے کہ ممکن ہے کل کلاں پھر حکومت چلی جائے اور آپ جیل میں ہوں ا ور اس سے واسطہ پڑے ۔
اس نے کہا وہ وواقعہ لوگ بھول چکے ہیں اب میں اس کے خلاف ایکشن لوں جن کے بیسیوں طریقے ہوسکتے ہیں کہ انتظامی امور کا میدان بہت وسیع ہے لیکن اسے تبدیل کروں ،اس کی تنزلی کروں یا اس کے خلاف کوئی کیس بناؤں چاہے وہ صحیح بھی ہو لیکن قصہ کہانی تو یہ ہوگی کہ وہ کہے گا کہ میں نے اس کو جیل میں اس حد تک مارا تھا تو اس لئے اس نے یہ کیا ۔

تو بھولے ہوئے واقعے کی پھر تذکیر ہوگی۔اور دوسرا یہ کہ ہم نے اس ملک میں سیاست کرنی ہے اور سیاسیات میں بنا کے رکھنا پڑتا ہے ۔
بات یوں یاد آئی کہ اب نہیں ہمیشہ سے سنتے چلے آئے ہیں مقتدرہ ،مقتدرہ اور ایجنسیاں۔اگر حکومت کے خلاف اپوزیشن اٹھتی ہے تو وہ حکومت اگر کمزور ہے تو کہتی ہے ایجنسیاں ہمارے خلاف سازش کررہی  ہے اور اگر حکومت کھڑی ہے تو اپوزیشن کا وااویلا ہوتا ہے کہ مقتدرہ یہ سب کچھ کررہی ہے۔

اگر پارٹی کے اندر کچھ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں تو جو اختلاف کرتا ہے اس کے متعلق کارکنوں کے ذہن میں ڈال دیاجاتا ہے ایجنسیاں اسے ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں یا وہ اختلاف کرنے والا کہتا ہے پارٹی کی پالیسیاں ایجنسیاں بناتی ہیں یاپھر کہتا ہے ملک کی سالمیت کے خلاف دشمنوں کے ہاتھ کھیل رہا ہے ۔یہ چورن اتنا بیچنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب کوئی خریدنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اسے سننے کے بھی روادار نہیں۔

کون نہیں جانتا کہ کوئی استثناء نہیں ہر جماعت مقتدرہ کے ساتھ راز باز یا ساز باز رکھتی ہے حالانکہ یہی مقتدرہ ان کو یکےبعد دیگرے ٹریش بھی کرتی رہتی ہے کہ انہوں نے تو مستقلاً ملک کو چلانا ہوتا ہے کہ وہ دائمی حکومت ہے ۔سیاسی جماعتیں تو آتی رہتی ہیں اور سیاسی لیڈران کو تو معاملات خصوصاً خارجہ معاملات کا بہت کم ہی پتہ اور ادراک ہوتا ہے اور مقتدرہ تو دن رات اسی پر نظر رکھی ہوتی ہے ۔

یہی تو وجہ ہے کہ کسی بھی حکومت میں خارجہ امور کا قلمدان اس بندے کے پاس ہوتا ہے جو مقتدرہ کے ساتھ راز باز رکھتا ہو۔اس طرح داخلہ امور کا وزیر بھی اس قسم کا شخص ہواکرتا ہے کہ مقتدرہ نے ہی ملک کو داخلی اور خارجی فتنوں سے بچاناہوتا ہے ۔دفاع کا معاملہ جوبھی ہے وہ تو وہ کسی سے بھی چلاسکتے ہیں اور خزانہ تو ویسے بھی مقروض ملکوں کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی اداروں کے نمائندوں کے پاس ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ بہتیرے اختلافات کے باوجود بسااوقات خزانہ کا وزیر ان پارٹیوں کا مشترک ہوتا ہے اسی طرح خارجہ امور کا وزیر بھی ۔
 اب جب حقائق یہی ہیں تو مسئلہ صرف اقتدار اور مفاد کا ہوتا ہے اور مقتدرہ بھی ان اختلافات سے ہی قوت میں رہتی ہے کہ اقتدار والے سے کہتی ہے یہ یہ کام کرو ورنہ وہ مارکھائیں گے تمہیں۔ اور اگر اس کو چلتا کرنا چاہتی ہے تو یہایں پر گرین سگنل دیتے ہیں۔


تو بات وہی ہے جو اس صاحب نے کہا کہ میں نے کوئی ایسا ایکشن نہیں لینا جس سے میری رہی سہی عزت بھی چلی جائے کہ اس کو مارا تھا اور بہت مارا تھا۔اور پھر یہ کہ میں نے اب سیاست کرنی ہے تو بنا کے رکھنا ہے ۔
اب ان پارٹیوں نے بھی سیاست کرنا ہے تو یہ بھی بنا کے رکھتے ہیں ان کے بیانات میں زیروبم اور حرکات میں تیزی اور سستی تو اس وجہ سے ہوتی ہے اور ہرہربندے کا ایک ایک فائل مقتدرہ کے پاس ہوتا ہے جب یہ ذرا سرخ لکیر سے آگے جاتے ہیں تو وہ دور سے وہ فائل دکھادیتے ہیں تو یہ ایسے انداز میں پیچھے آجاتا ہے کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ اس نے بھی سیاست کرنی ہے اور اگر محسوس کیا جائے تو اس کو حکمت عملی کہہ دیتے ہیں۔

تو ان میں ہر بندہ بنا کے رکھتا ہے اور ایک غیر مکتوب باہمی معاہدہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ہم سٹیج پراشاروں ،کنایوں میں کچھ کہیں گے تو آپ برانہ مانیں کہ وہ سٹریٹجی ہوگی اور ان کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ایسا نہ کریں تو ان کے پیچھے لوگ نہیں ہونگے اور یوسف بے کارواں ہوکر پھر تو یہ ہمارے کسی کام کے نہیں۔اس طرح مقتدرہ کچھ پیر او رمولوی حضرات کو Paidرکھتے ہیں کبھی تو وہ فری لانس قسم کا ہوتا ہے کہ کانفرنس کی ،کنونشن کیا ،پریس کانفرنس کی وغیرہ وغیرہ ۔

اور کبھی اس کو کسی وزیر اعظیم یا وزیر اعلیٰ وغیرہ کا مشیر لگادیا جاتا ہے ۔اس طرح کچھ دیگران بھی ہوتے ہیں جو اگر الیکشن ہار بھی جائیں تو ان کو جگہ دی جاتی ہے ۔اسے کبھی صوبے سے مرکز میں اور کبھی مرکز سے صوبے میں لے جایا جاتا ہے اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجھے بیک جنبش قلم ہٹایا اس لئے کہ اس جاب کے لئے تو اسے رکھا گیا ہے ۔اسے تو اپنے بس ہٹانے کھپانے کا پتہ ہوتا ہے کہ میں تو مہرہ ہوں یہاں لگائیں یا وہاں لگائیں۔

کبھی ان کو کسی کونسل میں لگادیتے ہیں کبھی ہٹادیتے ہیں اور ایسے میں کسی کی اہلیت کو نہیں دیکھا جاتا کہ معیشت کے متعلق کونسل ہے تو یہ بندہ کتنا جانتا ہے،شریعت کے متعلق ہے تو اس بندے کا تاریخ جغرافیہ علمی کیا ہے۔ویسے بھی اس قسم کی کونسلیں کچھ لوگوں کو کھپانے کے لئے ہوتے ہیں۔اور ان میں سے کئی ایک جب ایک طرف کیے جاتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اتنی خدمت اور تابعداری کے بعد یہ حشر۔

تو پھر سے وہ بڑے گھروں کا یاترا شروع کردیتے ہیں وہ اس کو ایک نئی Thesisدے دیتے ہیں کہ اب اس پر کام کرنا ہے ۔اب اس نے تو کرنا ہی ہوتا ہے ۔
خیر تو یہ سیاست اس طرح چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔البتہ باوقار لوگ وقار کے ساتھ اپنی فکر کے ساتھ لگے رہتے ہیں وہ کسی کی تحقیر وتذلیل نہیں کرتے اور نہ ہونا چاہئے انسانوں کے مختلف انواع وکردار ہیں البتہ انسانیت مقدم اور محترم ہے تو اقدار واخلاق کا لحاظ لازمی ہے۔


اس طرح مقتدرہ اخبارات میں باخبر ذرائع یا پھر ٹی وی پر اینکرز کے ذریعے کچھ خبریں چلادیتی ہے ۔اب اگر کسی میں تھوڑی بہت آزاد روی ہے تو اس کے خلاف تو اخبارات میں اخلاقی حوالے سے کوئی خبر بریک کردیتے ہیں جس کی کچھ نہ کچھ بنیاد تو ہوتی ہے چاہے اتنا نہ ہو اور اگر ایسا نہیں تو یہ مال کا فتنہ توایسا عذاب ہے کہ اس سے بچنا بہت مشکل ہے
    ؎    چون گل بسیار شود فیلان بلغزند
کیچڑ زیادہ ہو تو اس میں ہاتھی بھی پھسل جاتے ہیں۔


اور یہ مال  کا کیچڑ بہت ہے خصوصاً مذہبی لوگ اخلاقی اعتبار سے تو ذرا زیادہ محتاط ہوتے ہیں لیکن مال کے حوالے سے تو ان کی حالت بھی پتلی ہوتی ہے الا ماشاء اللہ۔
تو اس حوالے سے ایک تو مالیاتی باتیں کروائی جاتی ہیں کبھی اخبارات یا ٹی وی اینکرز کے ذریعے اور کبھی پارٹی سے جس کے اختلافات ہیں اس کے حوالے سے یہ لیک کرواتے ہیں  اور میں نے تو عرض کیا کہ فائل تو ہر ایک کا ہوتا ہے وگرنہ ہتک عزت کے حوالے سے کیس کردے کہ قانون موجود ہے لیکن عدالت میں تو پھر کچا چھٹا کھول دیا جاتا ہے تو یہاں سے بھی جواب ہی دیا جاتا ہے کہ یہ سازش ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔


بہرتقدیر حالات اتنے ناگفتہ بھی ہیں کہ زمانہ بھی زبان حال سے پوچھ رہا ہے
‘‘الیس منکم رجل رشید’’
کياتم میں سے کوئی بھی عقل مند آدمی نہیں رہا۔
ایسے حالات تو ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔حضرت لوط علیہ السلام نے تو یہ بات اس وقت کہی جب وقت کے بدمعاشوں نے اقدار واخلاق کا ستیاناس کردیا تھا ۔پیغمبر توعموماً یاس کے شکار نہیں ہوتے کہ یہ تو وہ لوگ یاس کا شکارہوجاتے ہیں جو یا مفادپرست ہوں یا ڈرپوک ہوں اور پیغمبروں میں یہ خامیاں توہوتی نہیں ۔

البتہ فی الجملہ یاس آجاتا ہے کہ یہ لوگ اب انفعال سے بالکل خالی ہوچکے ہیں تبھی تو حضرت نوح علیہ السلام نے بددعا کی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بددعا تو منقول نہیں البتہ یہ کہا کہ
‘‘لوان لی بکم قوۃ او آوی الی رکن شدید’’(ھود)
کہ کاش کہ میری قوت ہوتی تم پر (کہ تم کو دبوچ لیتا)یا میں ایواء(پناہ یعنی سپورٹ)حاصل کرتا کسی مضبوط قوت کا(تمہارے خلاف)۔


تو یہ متضمن ہوسکتا ہے اس کا کہ وہ دلالۃً دعا مانگ رہا تھااور آپ کی یہ بات تب تھی جب انہوں نے فرشتوں سے دست درازی کا ارادہ کیا کہ وہ خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں تھے سوان فرشتوں نے کہا کہ ہمیں تو چھوڑیں یہ تو
‘‘لن یصلواالیک’’
تمہیں بھی ہاتھ نہیں لگاسکتے۔
بہرتقدیر اب اس گئے گزرے دور میں تو ناشدنیاں ہوتی رہیں گی اور ہم نے بھی اس دنیامیں رہنا ہے ،یہاں سانس لینا ہے، زندگی گزارنی ہے ۔

حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ رسول پاک ﷺ کے متعلق
‘‘یختارالاھون مالم یکن اثما’’
کہ آپﷺ احوال وظروف میں دوچیزوں میں انتخاب کرتے اور اھون یعنی کم تر کا انتخاب کرتے جب تک کہ وہ گناہ نہ ہوتا۔
فقہاء کرام نے
‘‘یختارالاھون الشرین ’’
کا قاعدہ اس سے لیا کہ دو مصیبتیں ہوں توبدتر کو رکوانے اور دفع کرنے کے لئے اس میں سے کمتر کو گلے لگا۔

اور اس حوالے سے کئی ایک قواعد فقہیہ مثلاً
‘‘یدفع الضرر الاعم بالضرر الاخص’’
اور
‘‘یدفع الضررالاشد بالضرر الاخف’’
کے قواعد فقہ میں موجود اور کئی ایک مسائل حل کرنے کا وسیلہ ہیں کہ عام ضرر کو خاص ضرر سے دفع کیا ہے اور شدید ضرر کو خفیف ضرر سے دفع کیا جائے گا۔
اب شدید اور خفیف کیفیت کے حوالے سے ہوتا ہے اور عام اور خاص کمیت کے حوالے سے ۔

تو اجتماعی فائدے کے لئے انفرادی یا فرد کا ضرر کا قبول کیا جائے ۔
اب حالات سے فرارتونہیں بلکہ حالات ہی میں راستہ نکالنا کہ زندگی جاری وساری رہے۔کسی پر جبر تونہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے سیاست کرنی ہے یہ بھی نہیں جبر کیا جاسکتا کہ فلاں جماعت میں کرنی ہے ۔اب اگر کوئی سیاست نہ کرے تو نہ کرے کوئی ایک خاص جماعت میں نہ کرے توبھی نہ کرے یہ تو اختیار اور فری ول کا مسئلہ ہے۔

البتہ جو لوگ خود کو مذہبی کہتے ہیں وہ تو ظاہر ہے کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہوں گے اور پھر وہاں پاکستان میں تو ایک سے زیادہ مذہبی جماعتیں ہیں اور ان پر مسلک کا چھاپ بھی ہے اور سیاسی میدان میں دیوبندی مکتبہ فکر والے زیادہ متحرک رہے ہیں اور رہتے ہیں اور وہ ملک آئینی اعتبار سے اسلامی ہے تو وہاں مذہبی سیاست پر کوئی پابندی نہیں لگاسکتا۔

بولنے والے تو بولتے رہتے ہیں اور ان میں ننانوے فیصد یا تو ناسمجھی کہ وجہ سے یا بدنیتی کی وجہ سے اور یا حسد کی وجہ سے ایساکہتے ہیں۔البتہ مذہبی سیاسی جماعت کو لازم ہے کہ وہ سیاست کو مذہبی بنائے مذہب کو سیاسی نہ بنائے۔ یعنی ان کے ذاتی اور جماعتی کردار میں دین کارنگ غالب ہو سیاست کا نہیں۔ورنہ پھر تواور بھی بہت ساری جماعتیں ہیں اور بڑے بڑے لوگ بھی ہیں۔

اور مذہب کی أساسی شناخت سادگی اور قناعت ہے یہ جتنی بھی زیادہ ہوقابل تعریف ہے ۔نمود ونمائش گھرکا ،گاڑی کا،جائیداد کا،مال کا ،لباس کا ،گھڑی اور چھڑی کا اور اب کے موبائل فون کا کہ کون سی ہے ؟اس کا کیا تعلق ہے بندے کے کردار سے ۔یہ ذات سے باہر کی چیزیں ہیں ذات کی ساتھ لگی بلکہ اس میں گوندھی ہوئی چیز تو اعلیٰ اخلاق اور اقدار ہیں ۔اب کوئی بندہ اندر سے اقدار واخلاق سے بھرا ہوا ہو اس کو باہر کے اس تزئین وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اندر سے کھوکھلا ہو تو وہ اس کھوکھلے پن کو باہر سے پوراکرنا چاہتا ہے جو ہونہیں سکتا اس کا امکان ہی نہیں ہے ۔

ہربندے میں کمزوریاں ہوتی ہیں لیکن کمزوریوں کو دور کرنا لازمی ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس کوکمال سمجھ کر آگے بڑھتے رہتے ہیں ۔جماعتوں اور حکومات میں صاحب ثروت لوگوں کا تسلط Plutocracy یا Oligarchy جو کہلاتی ہے جس کی وجہ سے مخلصین اور صاحبِ علم وفہم اور صاحب الرائے اور صائب الرائے لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا ۔شاید وقتی طور پر تو وہ کام چلتا رہے لیکن ان دی لانگ رنIn the long run یہ چلنے کا نہیں ہوتا ۔

یہ نہیں کہ صاحب ثروت لوگوں کو دھتکارا جائے یہ کوئی گناہ تو نہیں اگر کسی کے پاس مال ہو اور اس نے قانونی طریقے سے کمایا ہو نہ اس کے مالدار ہونے کی وجہ سے اس کی انسانیت ختم ہوئی ہے ۔خرابیاں ہوتی ہیں انسانوں میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ لیکن ہیں توسارے انسان ہی۔اور یہ دین آیا بھی ہے انسانون کے لئے تو سب کو ساتھ چلانا ہے اور ہرا یک کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام بھی دینا ہے اور مقام بھی۔

لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ایک بندہ جس میں علمیت ہے اور صلاحیت ہے اور اس کو آگے لایاجاتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بھی اپنی علمیت اور صلاحیت کا زیادہ مظاہرہ کرنے کے بجائے دنیا اور دنیاداری کی چکاچوند میں گم ہوجاتا ہے کہ مال کیسے بنانا ہے؟ حالانکہ مال بنانا تو ایک جانب کسی بندے کو اگر معاشرہ میں کسی خصوصیت کی وجہ سے مقام اور حیثیت مل چکی ہے وہ تو کسی کا حق کیا مارے یا خیانت کیا کرے یا مفادات کا اسیر اور قیدی بنے یہ تو درکنار حیثیت اور حق کا مقابلہ آئے تو اسے اپنے حق کی قربانی دے کر اس حیثیت کو بچانا لازمی ہے کہ یہ حق کیا ہے؟چند روپے ،چند مرلے ایک مکان یا جو بھی ہے بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو دنیا ہی تو ہے اس عزت مقام اور حیثیت کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت ہے ۔


‘‘ولکن اکثرالناس لا یعلمون’’
جو اس متاع قلیل کے لئےاپنے کو ذلیل کرواتے ہیں ۔اس کا تومعنی ہے کہ وہ بکاؤ مال تھا لیکن ابھی تک اس کو منڈی نہیں ملی تھی مارکیٹ مل گیا تو ذات اورحیثیت دونوں کو بیچ دیا۔
‘‘افلا تعقلون’’
تومیری درخواست ہے کہ جو لوگ دین کا نام لیتے ہیں دعوت میں ہیں ،سیاست میں ہیں طریقت  میں ہیں کہ درس وتدریس میں ہیں ان کی بہت بڑی حیثیت ہے۔

البتہ یہ حیثیت نازک بہت ہے اس پر داغ چھوٹا بھی ہو بہت بڑا نظرآتا ہے سو چھوٹے داغ سے بھی بچنا ہے۔ ان کی اولین ترجیح وہی حیثیت ہونی چاہئے کہ حالات جو بھی ہوں میں نے اس حیثیت پر حرف نہیں آنے دینا میں نے کسی کی مال ومتاع سے مرعوب نہیں ہونا کہ اوھو!اس فلاں کے پاس یہ یہ ہے اور میرے پاس نہیں۔رسول پاکﷺ نے دنیا کے حوالے سےفرمایا کہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھو اور دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو۔


دنیا میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو گے تو شکر کروگے کہ اللہ نے میرے اوپر بہت احسان کیا ہے میں دووقت کی روٹی تو کھاتا ہوں سر پر چھپر بھی ہے یہ بندہ تو ہوم لیس اور بے گھر ہے۔ اور دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو گے تو حرص پیدا ہوگا کہ میں تو ایسا نہیں کرتا سو مزید کی جستجو ہوگی ۔
ہمارا معاملہ الٹ ہوگیا ہے دنیا میں اوپر والے کو دیکھتے ہیں تو حریص بنتے رہتے ہیں اور پھر حرص تو بندہ سے وہ کچھ کرواتا ہے کہ اللہ کی پناہ!اور یوں اچھا خاصا دینی بندہ اپنے کو رسوا کردیتا ہے۔


‘‘فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث وان تترکہ یلھث ’’
اللہ بچائے رکھے آمین
اور دین میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھتے ہیں کہ یوں زعم پارسائی پیدا ہوتی ہے اوریوں دن بدن دین کے حوالے سے بے ہمتی آتی ہے اور کبھی تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مولوی ہوکے بھی اگر لوگ دیکھیں تو نماز پڑھ لی ورنہ اللہ اللہ خیر صلا۔
اور اب کے ہمارے مسئلہ یہ بنا ہے کہ ہم یا سیاسی ہوئے یا تدریسی ہوئے یا دعوتی ہوئے یا خانقاہی ہوئے یا تقریری ہوئے اور پھر اس میدان میں مقابلہ اور وہ بھی مالیات کے حوالے سے ۔


ضرورت اس کی ہے کہ ہم انسان بن کے سماجی ہوجائیں تو یہ باقی امور اس کے ذیلی شعبہ جات ہیں۔ ایک وحدت آجائے گی ،جامعیت آجائے گی ،ایک دوسرے کی تائید ہوگی باہمی محبت آجائے گی اور سب سے بڑھ کر قناعت اور سادگی آجائے گی جو نام ونمود اور حرص واستغلال کا گلا دبوچ لے گی اور خیر کا سفر شروع ہوگا۔وگرنہ یہ تو ایک گرتی پھسلتی ہوئی خندق کے کنارے پر کھڑا ہونا ہے جو آج نہیں تو کل گرنے والا ہے ۔


تو جماعت والے لوگ جماعت سے وابستہ رہیں اور جماعت جو دینی ہے تو دین ہی کو مطمح نظر بنا کے رکھے اور خود بھی دینی رہے ورنہ پھر تو کہا جائے گا یہ دین بیچ رہے ہیں یہ دن کے بیوپاری ہیں ۔یعنی ہمارے کردار کی وجہ سے اس دین پر دھبہ لگتا ہے یہ تو ملاوٹ ہے اور ملاوٹ سارے ازمان اور امکنہ میں قابل دست اندازی جرم ہے اور پھر دین میں ملاوٹ۔
اس کے لئے جماعت کے بڑے بام بالا سے ذرا نیچے آکے مخلصین کو ساتھ لے کے چلیں ہاں صاحب ثروت کو دھتکاریں نہ وہ انسان ہیں ،مسلمان ہیں اور اچھا ہے کہ تمہارے ساتھ لگے ہوئے ہیں لیکن کوشش یہ ہو کہ تمہارے کردار سے ان میں دین آئے نہ یہ کہ ان کی وجہ سے تمہیں دنیا داری کا کتا کاٹے یہ تو ریبیز  Rabiesہیں ناقابل علاج ہیں ۔

کیا کوئی عقل مند کبھی خود کو دیوانے کتے سے کٹوائے گا؟
اور کارکنان تو ہیں مخلصین ۔ان کے پاس کیا ہے ان سے تو لیڈر ہاتھ بھی ملائے تو اپنے ہاتھ کو حجر اسود کی طرح چھومتا رہتا ہے
‘‘واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا ’’(الکہف)
اور رکھو اپنے کو ان کے ساتھ جو بندگی کرتے ہیں اپنے رب کی صبح اور شام اس حال میں کہ چاہتے ہیں رضا اس کی اور نہ مڑیں تمہاری آنکھیں ان سے اس حال میں کہ تم دنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہو۔


نیز کارکنان بھی بات بات پر بڑوں کے متعلق نہ بولیں
‘‘اقیلوا عن ذوی الھیئات عثراتھم’’
ذوی الھیئات (بڑوں اور ذمہ داروں)سے ان کے عثرات(ٹکریں اگر انہوں نے کھائے)وہ ان سے اقالہ کرے یعنی دور کرے یعنی ہر ٹکر پر ان کی پکڑ نہ ہو یا ان کے مشاکل کا ان سے اقالہ کرو یعنی دور کرو ۔
ہاں اگر کوئی جماعت کے ساتھ نہیں چلتا تو یہ کوئی جبر والا معاملہ نہیں۔

البتہ اخلاق کا دامن چھوڑ کر اس کے خلاف بدزبانی کرنا یہ تو بالکل بھی مناسب نہیں بلکہ بدزبانی تو مخالف کے خلاف بھی صحیح نہیں کہ آپ تو دین میں ہیں۔ بند ہ مسجد میں ہو کوئی باہر سے اسے گالی دے تو وہ مسجد کے احترام کی وجہ سے اسے گالی نہیں دے گا کہ میں مسجد میں ہوں اور دیکھئے یہ مسجد اس کے لئے حصار بن جاتا ہے تو دینی جماعت سے آپ کا نکلنے کا ارادہ تو نہیں تو اس میں ہوکے بدزبانی ۔

بس جماعت سے جڑے رہو حسن ظن رکھو ۔ہاں بڑوں سے درخواست ہے کہ سماجی بنو اپنے اسلاف کے طریقوں کو اپناؤ۔دنیاد ار نہیں دیندار بنو ۔اپنی شناخت برقرار رکھو جو دنیاد اری نہیں ۔اور بڑے بھی کسی اور کے لئے نہیں اپنے پروگرام اور نظریہ کے لئے کارکنوں کو بروئے کار لائیں کہ یہ غریب اور مخلص کارکن صرف دین کے لئے آپ کے ساتھ ہیں کسی کی نفرت یا تائید کے لئے نہیں اور کسی کامال بنانے کے لئے بھی نہیں ۔مال کیا ہے یار دھتکارو اسے۔ کون کون ساتھ لے گیا ؟اس منحوس چیز کوآج کون خیر سے یاد کررہاہے ۔نمروذ،قارون ،فرعون اورابوجہل کو۔ اور کون نہیں جانتاابراہیم ؑموسیؑ اور محمدپاکﷺ کو مانتے ہو یا نہیں؟بحیثیت رسول کے انہیں جانتے سب ہیں اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :