21ویں صدی کا درویش

بدھ 22 اپریل 2020

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

دانشور کالم نگار ادیب میل ملاپ کے حوالے سے دو قسم کے ہوتے ہیں
ایک مجلسی یا مجلس مزاج دوسرا غیر مجلسی یا غیر مجلس مجاز تنہا تنہا اکیلا  ، مجلس مزاج پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ بلا ناغہ مجلس لگاۓ کتر کتر چرب زبانی سے باتوں کے ماوئٹ ایورسٹ کھڑے کرے محفل یا مجلس لگانے کے یہ مقاصد نہیں ہوتے کہ دوسروں کی سُنے مشکل یہ ہوتی ہے کہ اگر مجلس نہ لگے یا نہ سجے تو اپنی بات کیسے اور کسے سناۓ
جنوبی پنجاب کے مشہور دانشور کالم نگار مظہر کھوکھر جو میری  دانست میں اکیسویں صدی کے درویش ہیں مجلس مزاج ہرگز نہیں میری طرح تنہا ہے تنہا بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو محفل یا مجلس سے گھبراتے ہیں کتراتے ہیں اور اکیلے میں خود کو مکمل اور سالم محسوس کرتے ہیں دوسرے وہ جو نہ گھبراتے ہیں نہ کتراتے ہیں نہ ادھورا محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنی مرضی سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں
مظہر کھوکھر بھی الگ رہنے والوں میں سے ہیں یہ نہیں کہ وہ انسانیت بیزار یا میل جول کو برا سمجھتے ہیں بلکہ وہ میل ملاپ سے خوش ہوتے ہیں مگر میل ملاپ یا میل جول کیلۓ وہ نہ کسی کے پاس چل کر جاتے ہیں نہ فون پر اپنے فلسفے جھاڑنے کیلۓ لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں کوئی دوسرا اس کے پاس چل کر آ جاۓ تو اپنے مخصوص انداز اور مسکراہٹ سے گرم جوشی کا اظہار کرتے ہیں وہ لوگوں کو بلا بلا کر کبھی محفل لگاۓ گا نہیں لگ جاۓ تو فی سبیل اللہ کبھی معترض نہیں ہوتے اور اگر بیٹھک لگ جاۓ تو وہ محفل کا حصہ بنے گا ڈوبے گا نہیں وہ محفل میں پانی پر تیراق کی طرح تیرتا رہتا ہے
وہ بھیڑ اور مجمع کااول تو حصہ نہیں بنتا اور کبھی اتفاقاً بن بھی جاۓ تو یکتا اور تنہا رہتا ہے ہم جن باتوں پر منٹوں قہقے لگاتے ہیں وہ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا ہے دوسروں سے الگ رہنا مظہر کھوکھر کے کردار کا جزوِاعظم ہے  
یقین کیجۓ مجھے شخصیت نگار ہونے کا زعم ہے نہ کبھی رہا ہے میرا علم خام ہےاور میں صاحب نظر بھی نہیں ہوں لیکن مظہر کھوکھر کے بارے میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یوں سمجھیۓ کئی سالوں کی تپسیا کے بعد میں نے انھیں جتنا سمجھا جتنا جانا ہے بس اس کی پراسرار شخصیت کے نیچے کاربن پیپر رکھ کر قرطاس پر اس کی تصویر اتارنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے آن کی شخصیت کے جو خدوخال میں نے دیکھے اور محسوس کیے قرطاس پر چھاپ دیے یہ میرا سچ ہے مگر حتمی اور قطعی سچ نہیں
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ کا بڑا لکھاری مظہر کھوکھر درمیانہ قد ، گندمی رنگت ، عاجزانہ وفقیرانہ طبیعت فوارہ چوک لیہ کے قریب سینیٹر ی کی چھوٹی سی دکان پر دن کے بارہ گھنٹے ہشاش بشاش گاہکوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتا ہوا ملتا ہے
گھر کا واحد کفیل ہے شادی شدہ اکلوتی بیوی چار بچے اور تیرہ مرلے کا گھر تمام تر منقولہ وغیر منقلولہ جائیداد ہے عمر کی انتالیس بہاریں لوٹ چکا ہے بچوں کو محدود وسائل  کے باوجود اعلی تعلیم دلوا رہا ہے بھائیوں میں پہلے سے گنتی کرو تو آخری نمبرپر براجمان ہے اور آخری سے شروع کرو توصرف ایک ان سے پہلے ہے میں نے اپنی زندگی میں درویش نہیں دیکھے اور درویشوں کے جو خدوخال بزرگوں کی زبانی سنے یا کتابوں میں پڑھے ہیں مظہر کھوکھر ان تمام خوبیوں پر بدرجہ اُتم پورا اترتے ہیں
یقین مانئیے محبت اور سچائی کے جذبات کے بغیر کسی کی شخصیت نگاری کرنا ممکن ہی نہی اور میں مظہر کھوکھر کی جس ادا پر بطور خاص فریفتہ ہوں وہ ہے اس کی اتھاہ محبت مظہر اپنے کھیت کھلیانوں میں نفرت کدورت یا دشمنی کے بیج نہیں بوتا مظہر کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک دور مار توپ ہے جس کا گولہ ہمیشہ کسی نہ کسی سماجی و معاشرتی برائی پر جا پڑتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے وہ کشتوں کو پشتے نہیں لگاتا وہ خود بھی زندہ رہنا چاہتا ہےاور اپنی تحریروں میں دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے
میں سمجھتا ہوں کہ لیہ میں سب لکھاری دانشور، شاعر، اور ادیب بہت اچھا لکھتے ہیں مگر مظہر کھوکھر کمال لکھتا ہے اس جیسا لکھنا بہت مشکل ہے
آخر میں دست دعا ہوں کہ لم یزل مظہر کھوکھر کو طولعمر دے اور ہر چشم زخم سے محفوظ رکھے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :