کامریڈ واحد بخش بھٹی

پیر 7 فروری 2022

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

کتابوں کی بھی ایک وسیع اور لا متناہی دنیا ہے ان کی وجہ سے آپ  زندہ لوگوں سے تو ملتے ہی رہتے ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ آپ کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتی ہیں اور آنے والی نسلوں سے آپ کو متعارف کرواتی رہتی ہیں گزشتہ روز میں نے اولڈ بک سنٹر سے ایک کتاب خریدی جس کا ٹائٹل تھا ( تم کب تک بھٹو مارو گے) جس کا رائیٹر  گل بخشالوی تھا گل بخشالوی شاعر بھی ہے اور نثر نگار بھی میں نے کتاب بھٹو کی تصویر دیکھ کر خریدی کیونکہ میں ہر وہ کتاب پڑھنا چاہتا ہوں جو بھٹو کی زندگی کے کسی بھی پہلو پر لکھی گئی ہو
کتاب کے کچھ صفحات کھنگالنے کے بعد  میرے سامنے ایک مضمون آیا جس کا ٹائٹل تھا (جگر زینب چاہیے صدمات سہنے کیلۓ )
اس مضمون کے لکھنے والے کا نام (واحد بخش بھٹی ) جونہی یہ نام میری نظروں سے گذرا مجھے جانا پہچانا سا لگا کیونکہ میں لیہ کے اکثر دانشوروںاور سیاستدانوں  کے زبانی یہ نام کئی مرتبہ سن چکا تھا مضمون محترمہ شہید بھٹو کی شہادت پر امریکہ سے لکھا گیا تھا اور  معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ لکھنے والے کا تعلق میرے شہر لیہ سے ہے اور وہ زندگی کا بڑا حصہ ریلو لے مزدور یونین کے لیڈر کے طور پر لیہ اور مختلف شہروں میں گزار چکے ہیں جی ہاں کامریڈ واحد بخش بھٹی جو ضیا دور میں جیلوں اور کوڑوں کی سزاؤں سے تنگ ہوکر معلوم نہیں کیسے امریکہ جا پہنچے وہاں اس کی محنت رنگ لائی اور ایک ایسا دن آن پہنچا کے چاچا بھٹی وائٹ ہاؤس میں تقریر کر رہا تھا چاچا بھٹی نے نیو یارک میں وطن کی محبت اور لیہ شہر کو دل میں سموۓ رکھا اور نیویارک میں اپنے ذاتی گھر کا نام بھی “لیہ ہاؤس “ کے نام سے رکھا واحد بخش بھٹی ؤہاں صحافت سے منسلک ہوگۓ اور صصحافیوں کی ایک تنظیم بھی بنائی مشہور کالم نگار ادیب شاعر ڈرامہ نگار منو بھائی بھی امریکہ جاتے تو ان کی میزبانی کا شرف حاصل کر کے چاچا بھٹی اپنے لیے شرف سمجھتے منو بھائی چاچا بھٹی کے بیٹے کی شادی پر آن کے آبائی گھر لیہ بھی  تشریف لاۓ تھے واحد بخش بھٹی نظریاتی پاکستان پیپلز پارٹی کے تھے اور بھٹو اور اس کی بیٹی بی بی شہید سے والہانہ محبت وعقیدت رکھتے تھے  صرف لیہ نہیں پورے پاکستان سے جو بھی امریکہ جاتا واحد بخش  بھٹی کو ان کی میزبانی کر کے دلی راحت نصیب ہوتی لیہ سے جہانگیر خان سیہڑ ملک غلام حیدر تھند مولا داد خان ان کے نیو یارک لیہ ہاؤس میں مہمان ٹھہرے محترمہ بے نظیر بھٹو کی میزبانی بھی واحد بخش بھٹی کو نصیب تھی لیہ میں سابق صدر پاکستان پیپلز پارٹی لیہ ممتاز رسول خان ان کے بیٹے لالہ طارق خان جگنو  مولا داد خان ملک عاشق کھوکھر صاحب رانا امتیاز  مقصود خان چانڈیہ اور بہت سے پروفیسر دانشور شعرا حضرات واحد بخش بھٹی کے ذاتی حلقئہ احباب میں شامل تھے
میرا یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک متوسط طبقے کا مزدور یونین لیڈر لیہ سے اٹھ کر امریکہ پہنچ کر اپنی محنت اور لگن سے اتنا بڑا مقام حاصل کر لے تو یقیناً قابل رشک اور قابل تحسین ہے
مگر ! موت ایک اٹل حقیقت ہے۔

(جاری ہے)

اس دنیا میں موجود ہر انسان، ہر ذی روح نے ایک نا ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی بنیاد ہے ماسوائے انسان کے۔۔۔ انسان جہاں تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے وہیں زندگی کے معاملے میں سب سے بڑھ کر عدم یقینی کا بھی شکار ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب کہاں کس حالت میں ساتھ چھوڑ جائے۔ ایک سانس کے بعد اگلا سانس لینا نصیب میں ہے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں، کوئی ضمانت نہیں۔


قدم قدم پر موت کو ساتھ لیے چلنے والا انسان بڑی دور رس پالیسیاں بناتا ہے۔ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے جتن کرتا ہے۔ لیکن کون جانے یہ مستقبل دیکھنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔۔۔
سامان سو برس کا پل بھر کی خبر نہیں
دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات۔

۔۔ یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔


جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی۔۔۔ تو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔
دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز۔۔۔ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔
واحد بخش بھٹی عرف چاچا بھٹی بھی ایسی ہی چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھے۔

انہوں نے چمنستانِ حیات کو اپنی دیدہ وری سے منور کیے رکھا۔ ان کی شخصیت میں کوئی خام پہلو نہیں تھا۔ آپ کہہ  سکتے ہیں کہ شاید یہ سب انشا پرداز ی مگر ایسا ہرگز نہیں یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی چا چا بھٹی کی معیت میں گزارے ہوں ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔
آخر کار واحد بخش بھٹی  سات فروری 2014 کو نیو یارک میں اس دار فانی کو چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے۔

لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی زندگی چھوڑ گۓ جو دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کا سرفخرسے بلند کر دیتی ہے۔ صرف یہی نہیں ان سے ملنے والا ہر شخص اس کی مثال دیتا ہے۔
غریب کیا امیر کیا، اپنے کیا پرائے کیا۔۔۔ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تھے بھی ایسے۔۔۔ اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ تحمل، بردباری اور برداشت ان کا خاصہ تھے۔

نرم و شفیق لہجہ، صلح جو طبیعت، حسن اخلاق، زندہ دلی اور دور اندیشی و دانائی۔۔۔۔ ان سب خوبیوں سے مرقع تھے واحد بخش بھٹی کی ہر سال سات فروری کو لیہ میں مختلف مکتب فکر کے دوست برسی بڑے احترام وعقیدت سے مناتے ہیں اس سال خاکسار نے بھی واحد بخش بھٹی کو ٹربیوٹ پیش کرنے کیلۓ اپنے قلم سے طبع آزمائی کی کوشش کی ہے جو بحضور قارئیں پیش خدمت ہے
آخر میں دست دعا ہوں لم یزل واحد بخش بھٹی کو غریق رحمت کرے اور ہم سب پر سحاب کرم کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :