افغانی سٹوڈنٹس اور ہماری قوم

بدھ 18 اگست 2021

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان میں امریکہ اس کے اتحادی اور سٹوڈنٹس یعنی (طالبان) کے درمیان جنگ جاری  تھی جس کا ڈراپ سین  سمجھ سے بالا تر ہے دنیا کے تمام تجزیہ نگار ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں کہ اتنی جلدی تو 1955 میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے ٹیسٹ سیریز میں نیوزی لینڈ کی 26 رنز کی کھیلی جانے والی اننگز میں وکٹیں بھی نہیں گری تھیں جتنی جلدی سٹوڈنٹس نے افغانستان کا دارالحکومت قابل فتح کر لیا ہے دانشوروں تجزیہ نگاروں اور عالمی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے تمام تجزیے دھرے کے دھرے رہ گۓ تمام پیش گوئیاں پل بھر میں ٹاماٹوئیاں ثابت ہوئیں اور ابھی تک کسی تجزیہ نگار کی راۓ یا پیش گوئی کو مستند نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا !
جو ہوگا سو ہوگا مگر  ! میں اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہماری قوم فیس بک ، ٹوئیٹر اور سوشل میڈیا پر کیوں اور کس لیے جشن منا رہی ہے شادیانے اور طالبان کے حق میں ترانے گا رہی ہے میں نے اس کی وجہ دریافت کرنے کیلۓ آج بڑی مدت کے بعد نورے سے خدمات حاصل کیں  تو نورے نے کہا بابا ہم قوم ہی ایسی ہیں کہ جس جس نے ہم پر ظلمات کے پہاڑ ڈھاۓ ہمیں جانوروں کی طرح ہانکا ہمارے لوگوں کو مارا ہمارے بچوں کی درسگاہوں میں بم پھوڑے ہم نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جو ہم پر قابض ہوۓ ہمارے وسائل پر ڈاکہ ڈالا ہماری دھرتی کے باسیوں کی عبادت گاہوں سے نوادرات اور مورتیاں چرائیں ہم نے انہیں ویلکم کہا اپنا مسیحا اور ہیرو مانا ہم نے افغانستان سے آۓ ہوۓ تمام حملہ آوروں کو اپنے نصاب کی کتابوں میں مسلم ہیرو لکھا ہم نے باپ کو قید کر کے اس کی آنکھیں نکالنے والے اور بھائیوں کو ہاتھیوں کے پاؤں تلے روند کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے کو بھی ہیرو بنا کر نہ اپنے نصاب میں جگہ دی بلکہ ان کی پرہیزگاری اور تقوی کی بھی مثالیں پیش کیں ہمارے ہاں بھلے شاہ بھی ہیرو ہے اور بھلے شاہ کا جانی دشمن ابدالی بھی ہیرو ہے ہمارے ہاں جلا ل الدین اکبر بھی ہیرو ہے اور اس کے دھوکے میں آکر مارا جانے والا دُلا بھٹی بھی ہیرو ہے ہمارے ہاں آج کے تمام ابتر حالات کا ذمہ دار اور بھٹو کو پھانسی دینے والا بھی ہیرو ہے پھانسی پر جھولنے والا بھی ہیرو ہے ہمارے ہاں بن قاسم ،، غزنوی ، غوری ، لودھی مغل ، اور ایسے تمام حملہ آور ہیرو ہیں اور اب ہمارے بچوں کو مارنے والے ہمارے ستر ہزار لوگوں کے قاتل ہماری سیکورٹی فورسز کو بموں سے آڑانے والے ہمارے ملک کی معیشت کو دھشت گردی کی آگ میں جھونکنے والے ہمارے شہروں بستیوں گلی محلوں میں موت بانٹنے والے ہمارے ملک میں کلاشنکوف ہیروئن چرس کلچرلانے والے ہماری مسجدوں اور عبادت گاہوں میں خون کی ہولی کھیلنے والے ہمارے کمسن بچے بچیوں کو اغوا کرنے والے ہمارے ہیرو بن گئے ہیں اور قوم ان کیلۓ دعائیں کر رہی ہے منتیں مانی جا رہی ہیں  نعرے لگاۓ اور شادیانے بجا ۓ جا رہے ہیں دھمالیں ڈالی جا رہی ہیں میں کہتا ہوں کہ پوچھیں اے پی ایس سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی ماؤں سے پوچھیں ان بچوں سے جن کے باپ مسجدوں میں شہید ہوۓ پوچھیں ان نو بیاہتی دلہنوں سے جن کے سرتاج سیکورٹی پر معمور تھے اورجب  ان کے تابوت گھر لاۓ گۓ  پوچھیں ان ماؤں سے جن کے جگر گوشوں کی لاشیں ڈی این اے کے ذریعے پہچانی گئیں پوچھیں ان بہنوں بیٹیوں سے جن کے سہاگ گٹھڑیوں میں بندھے گھر پہنچے پوچھیں ان کم عمر بچوں سے جن کی عمریں کھیل کے میدانوں میں جانے کی تھیں تلیاں پکڑنے کی تھیں جگنوؤں سے کھیلنے کی تھیں جن کا آخری سہارا ان کا باپ دھشت گردی کی بھنٹ چڑھ گیا اور وہ کم عمری میں کسی ہوٹل پر برتن مانجھ رہے ہیں یا چاۓ والے ڈھابے پر چھوٹے کا کام سر انجام دے رہے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کا آخری سہارا بنے ہوۓ ہیں پوچھیں اس بچے سے جس کا باپ بازار میں اس کیلۓ کھلونے لینے گیا تھا اور بم دھماکے میں بے گناہ مارا گیا پوچھیں ملالہ یوسف زئی سے جس کے سکول کو بموں سے مٹی کا ڈھیر بنا دیا گیا اور وہ اس ڈھیر پر بیٹھ کر اپنی کتابیں کھول کر پڑھتی ہوئی دھشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی پوچھو اس نوجوان اعزاز کے بوڑھے باپ سے جس کے بیٹے نےکم عمری میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دھشت گرد کو سکول کے اندر داخل ہونے سے روک کر سینکڑوں بچوں کی جان بچائی پوچھو اس ماں سے جس کو اکلوتے بیٹے کی موت کی خبر سنائی گئی تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھی اور پاگلوں کی طرح ہر آتے جاتے نوجوان کو اپنا بیٹا سمجھ کر گلے لگانے لگ گئی
کیا ان سب کو طالبان کی فتح کی خوشی ہوئی ہوگی یا وہ شادیانے بجا پائیں گے یا طالبان کو وہ اپنا ہیرو مان لیں گے وہ ان کیلۓ دعائیں مانگیں گے خوشیاں منائیں گے شادیانے بجائیں گے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیں گے ہرگز نہیں
اگر کسی مصلحت کے تحت وہ ایسا کر بھی لیں تو کیا سٹوڈنٹس (طالبان ) کو تاریخ معاف کر دے گی با الفرض تاریخ بھی مسخ کر دی جاۓ تو بے شک کر دی جاۓ ! اس کے بعد نورا سسکیاں بھرنے لگا
کچھ توقف کے بعد نورے نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ارشاد سنو!  کم ازکم میرے دل و دماغ سے تو یہ دل خراش اور دل دہلا دینے والے واقعات ہرگز فراموش نہیں ہوسکتے اس کیلۓ چاہے میری زباں بے زباں کر دی جاۓ یا میری یادداشت کو ختم کرنے کیلۓ میرے بھیجے میں گولی اتار دی جاۓ یا مجھے ہی ختم کرنے کیلۓ کسی زہر آلود تیز دھار آلےسے میری شہ رگ کاٹ دی جاۓ چاہے مجھے اور میری سوچ کو پابند و سلاسل کردیا جائے چاہے میری خمیدہ پشت پر تازیانے برسا کر گوشت ہڈیوں سے جدا کر دیا جاۓ نہ میں ان جلادوں کیلۓ خوشی مناؤں گا نہ ڈھول پیٹوں گا نہ سوشل میڈیا پر نہ کسی اور فورم پر ان کی حمایت میں ایک جملہ یا لفظ ادا کروں گاکیونکہ  ان کے ہاتھ میری قوم کے بچوں ،ماؤں ،بہنوں ،بیٹوں بھائیوں ،سیکورٹی فورسز اور بے گناہ مزدوروں دہقانوں اور ناتواں بوڑھوں کے خوں سے رنگے ہوۓ ہیں مجھ سے ہرگز ایسا نہ ہوگا
نورے کی تمام باتیں سن کر میرے اندر بھی نور جاگ اٹھا اور میں نے نورے کی تمام باتوں کی توثیق کرتے ہوۓ  نورے سے اجازت چاہی کیونکہ آج میرے بیٹے کے سکول میں امن ڈے کے حوالے سے تقریب منائی جا رہی تھی اور میں نے وہاں شرکت کرکے سپیچ کرنی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :