ماڈل ٹاؤن سے ماڈل ٹاؤن تک

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

خاکسار ماڈل ٹاؤن ضلع لیہ کی سب سے پہلی کالونی میں سکونت پذیر  ہے جو فوارہ چوک سے چوک آعظم جاتے ہوۓ ایک کلو میٹر کی مسافت پر حدود کمیٹی میں واقع ہے مگر تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے نہ وہاں آج تک بجلی ہے نہ پانی ہے نہ پختہ گلیاں اور نہ نکاسی آب کا کوئی سسٹم یا منصوبہ ہے نہ کبھی کسی سیاست دان یا کمیٹی کے ذمیداران آفیسر ان نے توجہ دی ہے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بجلی پانی اور نکاسی آب کے سسٹم چلا رہے ہیں یوں سمجھو ہم آج بھی قرون اولی کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں مگر دوسری طرف کل ماڈل ٹاؤن لاہور جانا ہوا لاہور تو کئی بار جا چکا مگر ماڈل ٹاؤن کل پہلی بار گیا وہاں سابق گورنر اور موجودہ صدر پاکستان پیپلز پارٹی ساؤتھ پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے ساتھ لیہ کے تنظیمی معاملات پر میٹنگ تھی لہذا ماڈل ٹاؤن اور مخدوم ہاؤس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تقریباً آدھا ماڈل ٹاؤن بھی گھوم پھر  لیا وہاں کے بنگلے عالیشان کوٹھیاں پختہ اور کشادہ کارپٹ سڑکیں خوبصورت پارک لائف کی تمام بنیادی سہلولتیں اور رنگینیاں دیکھ کر مجھے میرے ماڈل ٹاؤن لیہ کے ساتھ ساتھ تمام جنوبی پنجاب کی محرومیاں یاد آنے لگیں اور میں نے گمان کیا کہ جیسے اسلام آباد کی سڑکوں کو دیکھ کر مجیب الرحمان نے کہا تھا کہ مجھے ان سڑکوں سے پٹ سن کی بُو آرہی ہے میں نے بھی دل ہی دل میں یہی سوچا کہ مجھے بھی یہاں کی سڑکوں کو دیکھ کر  جنوبی پنجاب کے گنے اور کپاس کی بُو آرہی ہے یا میں کہیں کسی اور سیارے  پر آگیا ہوں کیونکہ پینتیس سال سے تخت لاہور نے جنوبی پنجاب کے ساتھ جو سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہوا ہے وہ نہایت قابل افسوس اور قابل مذمت ہے اور اب جبکہ سی ایم پنجاب جنوبی پنجاب کا ہے اور مرکز میں بھی جنوبی پنجاب کے منتخب سمجھیں یا چنتخب سمجھیں وزیر اعظم ہیں مگر جنوبی پنجاب کی محرومیوں میں کمی لانے اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں لیہ سے شورکوٹ تک سڑک نہ ہونے کے برابر ہے مگر جہاں سے ن لیگ کا پنجاب شروع ہوتا ہے وہاں موٹر ویز اور دو رویہ کارپٹ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے تمام بنیادی سہو لیات اچھے سکول اچھے ہسپتال اورینج ٹرین میٹرو بس سروس جیسے وائٹ ایلیفنٹ منصوبے اپر پنجاب والوں کو مہیا ہیں قارئین حضرات یہاں میں ایک عرض کرتا چلوں کہ جب محرومیاں ایک حد سے بڑھ کر ناقابل برداشت ہو جائیں اور ان کا بروقت ازالہ نہ کیا جاۓ تو نتائج پھر بنگلہ دیش اور بلوچستان جیسے نکلتا شروع ہوجاتے ہیں خیر چھوڑیں اس موضوع پر پھر کبھی طبع آزمائی کریں گے ۔

(جاری ہے)

آخر کار آدھا گھنٹہ ماڈل ٹاؤن لاہور کا طواف کرنے کے بعد ہم مکان نمبر ایک سو ایک مخدوم ہاؤس پہنچ گۓ میرے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینئر وائز پریزیڈنٹ ضلع لیہ ملک عاشق حسین کھوکھر ، سینئر رہنما عبدالرحمان مانی ، حال ہی میں پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق ایم پی اے چوہدری اشفاق احمد،  سٹی انفارمیشن سیکرٹری رانا امتیاز احمد اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری فضل خان جسکانی میرے ہمراہ تھے تین بجے مخدوم صاحب سے ملاقات کا ٹائم طے تھا تقریباً پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد مخدوم صاحب نے ہمیں بلا لیا جاتے ہی ہائی ٹی سے ہماری تواضع کی گئی مخدوم صاحب کو چونکہ وضع داری اور مہمان نوازی اسلاف سے روائتی طور پر نصیب ہوئی ہے اور وہ اس وضع داری اور مہمان نوازی کو اپنا شعار بناۓ ہوۓ ہیں  لہذا چاۓ سے پہلے کھانے کا بھر پور اصرار کیا گیا کیونکہ ہم کھانا کھا چکے تھے تو ہم نے معذرت کی چاۓ سے فراغت کے بعد تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہماری ملاقات جاری رہی ہماری تمام باتیں اور مطالبات مخدوم صاحب نے بڑے غور اور خندہ پیشانی سے سنے اور ان کو حل کرنے کی فوری یقین دہانی کرائی جن باتوں پر ہمارے  شدید تحفظات تھے اور جن باتوں پر ہم نے زیادہ توجہ دینے کی استدعا کی ان باتوں پر مخدوم صاحب نے فی الفور دو سینئر لوگوں کی کمیٹی بنا دی جو طرفین سے رابطہ کرکے لیہ کا دورہ کریں گے اور مسائل کی رپورٹ مخدوم صاحب کے روبرو پیش کریں گے ۔


یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں مخدوم صاحب کا جس طرح کا تاثر اپنے ذہن میں لے کر گیا تھا مخدوم صاحب اس کے باالکل برعکس نکلے اور چند سیکنڈوں کے بعد میرا وہ تاثر زائل ہو گیا اور  ایک لمحے تو مجھے ایسے لگا کہ ہم اپنے کسی ہم جولی دوست سے گفتگو کر رہے ہیں جس طرح مخدوم صاحب نے ہماری باتیں سنیں اور ہمیں ٹریٹ کیا یا سینئر رہنما ملک عاشق کھوکھر اور دیگر سینئر ورکرز کو عزت و احترام بخشا مجھے تو بینظیر بھٹو (لم یزل انھیں غریق رحمت کرے ) یاد آ نے لگیں وہ بھی اسی طرح جیالوں اور ورکروں کی کڑوی کسیلی باتیں بڑی خندہ پیشانی سے سنا کرتی تھیں اور فوری مسائل کا حل تلاش کیا کرتی تھیں ۔


اس کے بعد فوٹو سیشن ہوا مخدوم ہاؤس کے کیمرہ مین ولید نے شاندار تصویریں بنائی جب ہم ماڈل ٹاؤن سے نکلے تو شام کے اندھیرے گہرے ہونے لگے تھے سٹریٹ لائٹس آن ہوچکیں تھیں پارکوں اور بنگلوں پر برقی قمقمے دل لبھانے والا منظر پیش کررہے تھے رات دن کا منظر پیش کر رہی تھی کہتے ہیں لاہوریوں کا دن بھی شام کے بعد شروع ہوتا ہے مگر ہم نے ایک لمبی مسافت طے کر کے گھر پہنچنا تھا لہذا ساڑھے پانچ گھنٹے کی طویل ڈرائیونگ کے بعد ہم اپنے سیارے یعنی ماڈل ٹاؤن لیہ واپس پہنچے تو وہی اندھیرے بجلی کی لوڈشیڈنگ ٹوٹی پھوٹی گلیاں جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ ا ہمارا استقبال کر رہے تھے اور ہم ایک مرتبہ پھر اکیسویں صدی کی دنیا سے قرون اولی کے دور میں آگۓ کہتے ہیں اپنا گھر جنت ہوتا ہے اور اس کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا تو بالآخر ہم اپنی جنت میں خیروعافیت سے پہنچ گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :