یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہر کے سب سے بڑے سکول میں ہیڈ کلرک کے فرائض سرانجام دے رہا تھا اس وقت اس کے بالوں میں چاندی کی فصل آنا شروع ہو چکی تھی نہوت کی وجہ سے چہرے پر وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار موجود تھے وہ انتہائی محدود وسائل کا مالک تھا مگر اس کے باوجو اپنے اکلوتے بیٹے کو شہر کے مہنگے اور اچھے سکول میں پڑھا رہا تھا وہ جب بھی بیٹے کی سکول فیس جمع کروانے آتا سکول کے سامنے امیر لوگوں کی کھڑی ہوئی بڑی گاڑیوں کے درمیان چھپ چھپا کر آتا تاکہ اس کے بیٹے کو اس کی غربت کی وجہ سے اپنے کلاس فیلوز میں شرمندگی یا احساس کمتری کا سامنا نہ ہو اس کے کپڑے او جوتے پرانے پیوند لگے ہوتے پر صاف ستھرے ہوتے مگر بیٹے کو کسی لحاظ سے بھی آمیر لوگوں کے بچوں سے کم نہ رکھتا وہ جب بھی سکول آتا یا راستے میں کہیں ملتا ایک پالتو کُتا ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا دن گزرتے گۓ اس کا بیٹا کلاس میں پہلی پوزیشن نہ تو دوسری تیسری پر لازم براجمان ہوتا آخر کار سکول سے کالج اورکالج سے یونیورسٹی کا سفر طے کر کے پبلک سروس کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا اور بڑا آفیسر بن گیا اور باپ بھی پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کی ضروریات پوری کرتے کرتے وقت سے پہلے کھونٹی کے سہارے چلنے لگا آفیسر بنتے ہی اس کی شادی ایک بڑے گھر میں ہوگئی جہیز میں گاڑی کے علاوہ شہر کے پوش علاقے میں ایک عالیشان بنگلہ بھی ملا شادی کے چھ ماہ بعد جنت جیسی ہستی سے محروم ہوگیا ایک دن مجھے اس سے ایک کام آن پڑا میں بڑے غرور اور چاؤ سے آس کے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا دیکھا تو ایک بوڑھا شخص گیٹ کے باہر دیوار کا آسرا لیے بیٹھا رو رہا ہے پیشانی خون اور آنسؤوں سے تر تھی ایک طرف نظر والی عینک جس کی ایک کمانی تھی اور دوسری طرف دھاگہ بندھا ہوا تھا ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی پڑی تھی ایک طرف وہی پرانی پگڑی مٹی مٹی ہوئی پڑی تھی دوسری طرف کھونٹی ٹوٹی پڑی تھی جس پر خون واضح نظر آرہا تھا میں بوڑھے کی یہ حالت دیکھ کر ہمدردی کیلۓ قریب گیا تو مجھے جھماکا سا آیا اور میری یادداشت کئی دہائیاں پیچھے چلی گئی آہ یہ تو وہی شخص ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر آفیسر بنانے میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تھا مگر یہ اب اس حالت میں کیوں اور کیسے ؟ایک ہی لمحے میرے اندر کئی سوالات جنم لینے لگے اس وقت میرے پاس پانی کی بوتل تھی میں نے پانی پلاتے ہوۓ بوڑھے سے پوچھا آپ کے ساتھ کیا ہوا او کس نے آپ کی یہ حالت کی بوڑھے نے مجھے پہچاننے کیلۓ اپنے دونوں ہاتھوں سے اندھوں کی طرح عینک تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس کے ہاتھ میں بچی کھچی دھاگے والی سائیڈ آئی جو اب کسی کام کی نہیں رہی تھی تھوڑی خاموشی اور مجھے پہچاننے کی ناکام کوشش کے بعد اس نے پوچھا تم کون ہو پتر ؟ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ میرے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا میں نے بڑی مشکل سے اسے چپ کرایا اور دوبارہ وہی سوال کیا بابا آخر آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے کس نے کیا یہ سب کچھ ؟بتاتے کیوں نہیں آخر کپکپاتے ہونٹوں سے بوڑھے نے بمشکل چند الفاظ ادا کیے “بس پتر نا پچھ خون سفید ہوگیا اے ،، میں یہ سن کر ششدر رہ گیا میں ابھی سوچوں کے بھنور میں گردان تھا کہ اتنے میں میری نظر اس کے پالتو کُتے پر پڑی جو دور پڑی اس کر وہی پرانی جوتی منہ میں اٹھا کر اس کے قدموں میں آ بیٹھا ، میں یہ سب کچھ دیکھ کر اپنی آس اور حسرتوں کی گٹھڑی اٹھا کر جوں کا توں واپس گھر آگیا-
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔