افسوسناک سانحہ ، سبھی پہلو توجہ طلب

جمعرات 17 ستمبر 2020

Rais Saleem Chachar

رئیس سلیم چاچڑ

گجر پورہ کے علاقے میں موٹر وے کا واقعہ جو بیان ہوا ہے ، درندگی ہے ، سفاکی ہے ، ظالمانہ وحشت کے مرتکب عبرتناک انجام کو پہنچیں ، مظلوم خاتون اور معصوم بچوں سے اظہارِ شرمندگی ہے کہ ہماری قوم میں ایسے بد فطرت اور شیطان خصلت انسانوں کے روپ میں زندہ پھر رہے ہیں ، بے رحم اور وحشیانہ سوچ رکھتے سماج کے یہ بد نما داغ اہل محلہ اور پوری قوم کے درمیان رہتے ہوئے وارداتوں پر وارداتیں کیے جا رہے ہیں ۔

اس مجرمانہ قبیح حرکت سے ملتے جلتے سانحات اس سے قبل بھی متعدد یو چکے ہیں ، شکلیں اور انداز مختلف ہیں ۔ یاد دلاتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
ہم انہیں پہچان نہیں پا رہے کہ ان کی ہر سفاکی پر احتجاج کے وقت ، متعدد ہیں ، جو سماج کی جڑوں میں پلتے ، فروغ پاتے شر کے محرکات کو ڈھونڈنے کی بجائے ، ایشو کی بحث کو اپنے اپنے مفادات کی تکمیل میں ، دور پرے لے جاتے ہیں ، گجر پورہ کے موجودہ بھیانک دکھ میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔

(جاری ہے)


ٹی وی اینکرز ہیں ، قلم کار ہیں ، غصہ دلا رہے ہیں ، رلا رہے ہیں ، سیاست نے بھی موقع ہاتھ آیا جانا ، سارا زور سی سی پی او کے خلاف مہم پر لگائے جا رہی ہے ، آج کا نہیں اس کا پرانا چلن ہے ، اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر محض خود پر آئی آفتیں ٹالنا اور قوم کے جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول  اور سیاست کرنا ۔
کہا کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا ہاں مگر درست ، کہنے کا یہ موقع نہ تھا ، لمحہ نہ تھا ۔

سماج کا مزاج نہیں کہ سچ کو کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی کہہ دے اور سچار کہلا کر داد سمیٹ لے ، بھلے وقتوں ، کوئی سماج ہو گا جس میں سچار کی بات سنی گئی ہو گی اب یہ عالم ہے کہ سچ گوارا ہی کہاں ہوتا ہے ۔ کوئی مثالی سماج ہو گا جس کے لئے کہا گیا ہو گا " سانچ کو آنچ نہیں "
یہاں جھوٹ کی گرد اس قدر زیادہ اڑائی جاتی ہے کہ سچ کو کچھ کہنے کا حوصلہ ہی کم ہوتا ہے ، مقبول بیانئے فروغ پاتے ہیں ، کہی بات پر غور کرنے سے قبل ہی بولنے کا شوق ، ٹیلی ویژن چینلز کی بھرمار ، شہرت کے رسیا ، شوق کی تسکین ہو رہی ہے ، بھیڑ چال ہے جس کو دیکھو اکثریت جو کہے ، اسی کی ہاں میں ہاں ملانے کو بیقرار ہے ، بغیر سوچے ، بغیر سمجھے بغیر غور کیے ۔


پولیس اہلکاروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سماج کے نبض شناس ہوتے ہیں مگر سینئر اہلکار کو خیال ہی نہ آیا ، کہنے کے لئے نہ صرف جگہ اور وقت کا دھیان رکھنا پڑتا ہے بلکہ سماج کو اپنے شکنجے میں لئے طاقتور میڈیا کے سقراط ، بقراط کے ہاتھوں میں دینے سے پہلے لفظوں کے انتخاب میں احتیاط نہایت ضروری ہے ۔ کئی ہیں جو حیرت میں ڈوبے کہتے رہ گئے
یہی کہا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا
سچ یہی ہے کہ سی سی پی او نے بات غلط نہیں کہی مگر کہنے کا یہ لمحہ ، نہ موقع تھا ۔

واقعہ اس قدر کربناک اور شرمناک تھا کہ قوم کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے کے  کسی اہلکار کی زبان سے کہاں سنا جانا تھا ۔ بالکل نہیں ۔ غور کرنے کی نوبت کی حسرت ہی رہتی ہے مگر ہم لوگ سننے اور سمجھنے سے بھی پہلے یہ دیکھنے کا مزاج رکھتے ہیں کہ کہا کس نے ہے ۔ سی سی پی او مذکور بھی بخوبی واقف ہوں گے ، اس سے قبل ہو چکا ہے ، ملک بھر میں جان کا سب سے زیادہ خطرہ ہر دلعزیز اور مقبول عوامی شخصیت کو تھا ، پر ہجوم شاہراہ پر ، اپنی بلٹ پروف گاڑی سے باہر نکل آنا ، سی سی پی او کے منصب پر فائز پولیس اہلکار جنہوں نے رات دن ایک کرتے ہوئے ہزاروں کے ہجوم میں کسی ایک بھی اسلحہ بردار دہشت گرد کو جلسہ عام میں گھسنے نہ دیا ، مگر سبھی محنت اکارت گئی اور نہ صرف اپنا کیریئر گنوا بیٹھے بلکہ نظر بند بھی ہو بیٹھے ۔

سابق صدر بھی الزامات کی زد میں آ گئے ، یہ کیوں کہا کہ بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلنے کی احتیاط کی ہوتی تو سانحہ نہ ہوا ہوتا ۔
احتیاط کا شعور اجاگر کرنا ، اسے پذیرائی دینا ہمارے سماج کی سرشت سے لگتا ہے کب کا رخصت ہو چلا ۔ سی سی پی او نے یہ بھی کہا کہ سزاؤں سے مجرم کو خوفزدہ کرتے ہوئے جرم سے باز رکھنا اہم مگر سماج میں اخلاقی اقدار کے فروغ پر بھی توجہ دینا ہو گی ۔

مگر یہ نصیحت اس پولیس اہلکار سے کون سنے کہ جو اپنے ادارے میں اپنے اہلکاروں کی غلطی کے سخت احتساب پر یقین رکھتا ہو ۔ ڈیرہ غازی خاں میں تعیناتی کے وقت جنابِ عمر شیخ کے نام دور افتادہ گاؤں کے ایک عمر رسیدہ شخص نے کاغذ قلم اٹھایا اور خود پر بیتے ستم کی سبھی کہانی لکھ بھیجی ، دن بھر کی مصروفیات کے بعد جب آنکھوں میں غنودگی اتر رہی تھی ڈاک کے ذریعے آئے خطوط کو پڑھنے لگے تو نیند آنکھوں سے اڑ گئی ، گاڑی نکالی اور بغیر کسی متعلقہ علاقائی اہلکار کو اطلاع دیئے اس دور افتادہ گاؤں جا پہنچے خط لکھتے کو جا ڈھونڈا ، تفصیل سنی ، معافی کے طلبگار ہوئے اور متعلقہ تھانے کے انچارج کو جا ہتھکڑی لگوائی ۔

جہاں ہر کوئی ریلیف پا جاتا ہے ، نکل جاتا ہے ان روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر " کورٹ مارشل " کے اصرار سے مشہور عمر شیخ ، سماج میں جڑیں پکڑے مافیاز کے ہدف پر ہے اور وہ بھی لاہور کے ۔ موٹر وے سانحے میں گرفت کا سارا زور لگتا ہے عمر شیخ کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے ہے ۔
اس اندوہناک واقعے کے مجرم عبرتناک سزا کے مستحق ہیں ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے ۔

موٹر وے سانحے کا شکار معزز خاتون اور ان کے معصوم بچوں سے پوری قوم شرمندہ ہے ۔ سماج ایسا ہے کہ دن کے وقت بھی اکیلی عورت کا سڑک پر چلنا دوبھر ہو جاتا ہے کجا آدھی رات جب ڈھل چکی ہو اور شہر ہی نہیں بلکہ شہر سے بھی باہر اکیلے سفر پر نکلتے ہوئے ، احتیاط ضروری ہے ۔
علم سماجیات اور عمرانیات کے ماہر دانشور ، اینکرز اور قلم کار سماج میں مجرمانہ ذہنیت کے پھلنے پھولنے کا راستہ روکیں ، فروغ پاتے جرائم کی روک تھام کریں ورنہ یہ شکلیں بدل بدل کر دکھ دیتے رہیں گے ، قیامت ڈھاتے رہیں گے ، رلاتے رہیں گے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :