
جنگ ، کس کی تھی جو لڑی گئی
اتوار 20 ستمبر 2020

رئیس سلیم چاچڑ
کیا ممکن ہے ، کچھ دیر کو تسلی سے بیٹھ ، کھلے ذہن کے ساتھ سوچیں ، نصف صدی کا قصہ ہے ، پشاور ، کابل ، کوئٹہ اور قندھار کے آر پار ہنستے مسکراتے ، خوشیاں مناتے لوگوں کی زندگی میں ایسی کیوں اور کب کوئی چنگاری بھڑک اٹھی جس کے شعلوں کی دہکتی آگ میں لاکھوں جان سے گئے ، معذور ہوئے ، رخساروں پر کس قدر آنسو بہے ، فضائیں انسانی چیخیں سن کر کتنی بار رو پڑیں ۔ اس آگ کی تپش نے نہ صرف افغانستان اور پاکستان کو جھلسایا بلکہ دنیا بھر میں شدّت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ۔ دونوں ملکوں کے لوگ آگ میں جھلستے رہے ، بیرونی ملکوں نے علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی سیاست کے کھیل رچائے ۔
ڈیورنڈ لائن ، پاکستان اور افغانستان کی سرحدی حدود ہے ۔ نصف صدی ہونے کو آئی ، اس کے دونوں اطراف لوگ خاک و خون دیکھ جی رہے ہیں ۔
ایک ہی مذہب ، مشترکہ ثقافت اور زبان رکھتے سرحد کے آر پار آباد پشتون قبائل کے دونوں ہمسایہ ملکوں میں بداعتمادی اور بے اعتباری کا فتنہ ، سیاست کی ایک عام سی انا اور خود سری کی صورت میں اٹھا اور ایک ایسی ہولناک جنگ کی بنیاد رکھ گیا جس کے شعلے کئی عشرے ہوئے بجھنے کو نہیں آ رہے ۔ اس کا سرا افغانستان اور پاکستان کی قیادت سے جڑا ہوا ہے ۔
سردار داؤد خاں ، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے کزن اور بہنوئی تھے ۔ ظاہر شاہ نے سردار داؤد کو افغان فوج کا سربراہ بنا دیا ۔ مارچ 1953ء میں جنابِ ظاہر شاہ نے انہیں اپنے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شرکت کے لئے ماسکو بھیجا ۔ ماسکو میں سردار داؤد خاں پر سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی نظر پڑی یوں وہ سوویت یونین کے فکری حلیف بن کر واپس کابل لوٹے ۔ پشتون قوم پرست رہنما اب ، کے جی بی کی سرپرستی میں تھا ۔
ستمبر 1953ء سے 1962 تک ظاہر شاہ کی بادشاہت کے دوران سردار داؤد خاں افغانستان کے وزیر اعظم رہے ۔ سترہ جولائی انیس سو تہتر کو سردار داؤد خاں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان کے حکمران بن گئے ، روسی کے جی بی کا فکری حلیف اب افغانستان کا کلی مالک و مختار تھا ۔
دوسری جانب پاکستان میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک میں منتخب طاقتور جمہوری حکومت قائم ہو چکی تھی ۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان میں صوبائی وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے گورنر نواب اکبر خان بگٹی کی سربراہی میں صوبائی حکومت قائم کر دی ۔ بلوچستان کے طاقتور دو قبائل مینگل اور مری نے وفاق کے خلاف مسلح عسکری مزاحمت کا آغاز کر دیا ۔ وفاق مخالف کچھ عناصر پناہ اور سرپرستی کے لئے سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے ۔
جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے اسی دور میں اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی کا واقعہ پیش آیا ، الزام براہِ راست سوویت یونین پر لگا ۔
انیس سو تہتر میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خاں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا ۔ ہزاروں کے مجمع پر وفاق حکومت کے ایماء پر گولیوں کی بوچھاڑ میں متعدد سیاسی کارکن مارے گئے جن میں خان عبدالولی خاں کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری جنابِ اجمل خٹک کے بیٹے بھی شامل تھے ۔ جنابِ اجمل خٹک خود کو محفوظ نہ پا کر ہمسایہ ملک افغانستان منتقل ہو گئے اور پشتون قوم پرستی کے جذبات ابھار کر کابل حکومت سے مدد کے جا طلبگار ہوئے ۔
جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے جنابِ عبدالولی خاں کی عوامی نیشنل پارٹی کو غدار کہہ کر پچاس سے زائد افراد کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل قائم کر دیا ۔
بلوچستان میں صوبائی حکومت کی برطرفی اور فوجی آپریشن سے خفا مینگل اور مری قبائل کا افغانستان میں پناہ لے کر پاکستان کی وفاقی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لینا اور دوسری جانب اپوزیشن لیڈر جنابِ عبدالولی خاں کی پشتون قوم پرست جماعت کے مرکزی رہنما جنابِ اجمل خٹک کا افغانستان منتقل ہو کر ، پشتون قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکانا اور پاکستان میں مداخلت کی دعوت دینا ، یوں افغان حکمران سردار داؤد خاں اور ان کی سرپرست سوویت یونین کی ، کے جی بی متحرک ہو گئی اور پاکستان میں عسکری کارروائیوں کا آغاز ہوا ۔ پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی صوبائی حکومت کے سینئر وزیر جنابِ حیات محمد خاں شیرپاؤ بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے ۔
پاکستانی وزیر اعظم جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے کابل یونیورسٹی میں سردار داؤد کے مخالف استاد ربانی ، حکمت یار اور دیگر افغان مذہبی شدت پسندوں کو پشاور بلا کر اپنی سرپرستی میں لے لیا اور کابل میں صدر سردار داؤد کی حکومت کے خلاف عسکری کارروائیاں شروع کرا دیں ۔
یوں دونوں ، مشترکہ ثقافت ، مذہب اور جغرافیائی اعتبار سے باہم جڑے پاکستان اور افغانستان کی مخاصمت کا وہ دور شروع ہوا ، نصف صدی بیت گئی ، دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے شدید مخالف حکمران آتے جاتے رہے ۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف رہتے پشتون قبائل کے دکھوں میں کوئی کمی نہ ہوئی ۔ دکھ درد شکلیں بدل افغان سرزمین کو آگ میں جھلساتے رہے ۔
کس قدر حیران کن حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں ستر کی دہائی میں عروج پر پہنچی ایک دوسرے کے ملک میں شروع عسکری کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرنے والے حکمران نہ صرف اپنی حکومتیں تڑوا بیٹھے بلکہ اپنے بعد آئے ، اپنے شدید مخالفوں سے اپنی جانیں بھی گنوا گئے مگر دونوں ملکوں کے نئے حاکموں نے ایک دوسرے کے ہاں عسکری کارروائیوں کو نہ صرف روکا نہیں بلکہ اسے اور بھی بڑھاوا دیا ۔
کابل کا حکمران سردار داؤد خاں مذہبی شدت پسندوں کی بڑھتی عسکری کارروائیوں سے گھبرا اٹھا ۔ انیس سو چھہتر میں سردار داؤد ، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پاکستان آ پہنچا ، مدد کا طلبگار ہوا ، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے پر تیار ہو گیا
پاک افغان سرحدی تنازعہ حل ہونے کے امکانات پیدا ہوئے مگر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں قبل از وقت قومی انتخابات کا اعلان کر دیا اور اس مسئلے کے حل کو انتخابات کے بعد تک کے لئے ٹال دیا ۔
مارچ انیس سو ستتر میں قومی انتخابات ہوئے ، مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلی اور پانچ جولائی کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی ۔
سردار داؤد ایک بار پھر پاکستان آئے فوجی انقلاب میں حکمران بنے جنرل محمد ضیاء الحق سے مدد مانگی ، پاکستانی عسکری حکمران نے سردار داؤد کی دعوت پر کابل کا دورہ بھی کیا مگر اب پاکستانی عسکری حکمران نے کمزور ہوتے سردار داؤد کو مزید جھٹکے دے کر کابل میں خالصتاً اپنی پسند کی مذہبی حکومت کا خیال دل میں پال لیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے پرامن حل کا تاریخی موقع ایک بار پھر بدقسمتی سے گنوا دیا گیا ۔
بالآخر وہی ہوا جس خطرے کو بھانپ کر سردار داؤد پاکستان سے مدد کی بھیک مانگتا رہا ۔ حالانکہ سردار داؤد نے پاکستان کو خوش کرنے کے لئے کابل میں کیمونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں بھی کیں مگر پاکستان کے عسکری حکمران نے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا دوسری جانب سوویت یونین کی ، کے جی بی نے کمزور ہوتے سردار داؤد خاں سے چھٹکارا پانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔
پاکستانی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں ستر کی دہائی سے شروع مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر کھڑی عسکری مزاحمت کی سرپرستی جاری رکھی اور آخر کار وہی ہوا جس کا خطرہ سردار داؤد محسوس کر رہا تھا ۔
سوویت یونین کی ، کے جی بی کے تعاون سے افغانستان میں جنابِ نور محمد ترکئی اپریل انیس سو اٹھہتر میں افغانستان کے صدر بن گئے ۔ سردار داؤد خاں اپنے خاندان سمیت مارے گئے ۔ جنابِ حفیظ اللّٰہ امین ان کے ساتھی تھے مگر دونوں میں اختلافات ہوئے اور چودہ ستمبر 1979 کو جنابِ حفیظ اللّٰہ امین نے کابل کا اقتدار اپنے نام کر لیا ۔ امین کی مختصر دور کی حکومت عدم استحکام کا شکار رہی ، کابل کے حکمرانوں کو کمزور ہوتے دیکھ کر ان کے خلاف برسرِ پیکار مذہبی شدت پسند گروہوں کی کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ حکومتی بے تدبیری ، کیمونسٹ عناصر کا کمزور ہونا اور دوسری جانب مذہبی شدت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں نے بالآخر سوویت یونین کو ستائیس دسمبر 1979 کو کابل پر براہِ راست فوجی چڑھائی کی راہ دکھا دی اسے " آپریشن طوفان " کا نام دیا گیا ۔
پاکستان کے حامی مزہبی شدّت پسند عسکری گروہ پہلے ہی سے افغانستان میں کیمونسٹ گروہوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے اب ان کے پاس سوویت افواج کی افغانستان میں براہِ راست آمد پر مزاحمت کو مزید بڑھانے کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہ تھا ۔
ادھر پاکستان کو خطرہ لاحق ہوا کہ سوویت افواج کا دباؤ بڑھا تو افغانستان کے مذہبی شدت پسند عسکری گروہ پاکستانی بارڈر کی جانب پلٹیں گے اور سوویت افواج ان کے تعاقب میں پاکستانی بارڈر پر دباؤ بڑھا دیں گی ۔ افغانستان میں موجود پاکستان کے حمایتی مذہبی شدت پسند گروہ عسکری اور نظریاتی طور پر اب اس قدر آگے جا چکے تھے کہ پاکستان اگر چاہتا بھی تو انہیں سوویت افواج کے خلاف ہتھیار پھینکنے اور مزاحمت ترک کرنے پر آمادہ کرنا اب اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا ۔
پاکستان کے حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے سوویت افواج کے خلاف یوں اس افغان جنگ میں پوری توانائی کے ساتھ کودنے کا فیصلہ کر لیا ۔
سوویت افواج کے خلاف ابتدائی مزاحمت میں ابھی تک امریکہ کی جیمی کارٹر حکومت لاتعلق رہی ۔ سوویت افواج کی افغانستان آمد پر افغان شہریوں کی بڑی تعداد نے پاکستانی بارڈر کا رُخ کیا ، افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت نے بھی اس مقصد کے لئے کچھ مالی امداد کی پیشکش کی ۔ پاکستانی حکمران نے امریکی صدر جنابِ جیمی کارٹر کی جانب سے افغان مہاجرین کے لئے مالی امداد کو منگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا ، یاد رہے جیمی کارٹر صدارت کا منصب سنبھالنے سے قبل مونگ پھلی کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔ پاکستان ، سوویت افواج کی کابل میں مزاحمت امریکی شمولیت سے قبل ہی شروع کر چکا تھا ۔ اس دوران امریکہ میں معمول کے مطابق صدارتی انتخابات ہوئے ، نئی حکومت کا قیام عمل میں آ گیا ۔ جنابِ ریگن کی نئی امریکی حکومت نے پاکستانی سرپرستی میں افغان گروہوں کی جانب سے سوویت افواج کی سخت مزاحمت کو دیکھا تو اسے ان کی کامیابی کے امکانات نظر آتے دکھائی دیئے ۔ کولڈ وار کی مخالف کیمونسٹ عالمی طاقت سے اسلام پسندوں کے ذریعے بھڑ جانے کا نادر موقع دکھائی دیا ۔ امریکہ نے سعودی عرب کی نظریاتی اور مالی امداد کو ہتھیار بنا کر سوویت یونین کے خلاف ویتنام جنگ میں ہوئی شکست کا بدلہ لینے اس افغان جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔
دوسری طرف پاکستانی عسکری حکمران اس زعم میں کہ کیمونسٹ سوویت یونین کے خلاف امریکی دشمنی کو وہ کامیابی سے استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے ۔ امریکہ ، اس کے یورپی اتحادی ، سعودی عرب کی فکری اور مالی امداد کو پاکستان کے ذریعے افغانستان میں مذہبی گوریلا شدّت پسندوں کی جنگ انیس سو اٹھاسی میں ہوئے جینوا معاہدے تک جاری رہی ۔
اب مگر جینوا معاہدے نے جنگ کے فاتحین کے درمیان ثمرات سمیٹنے اور خطرات سے نمٹنے کی ایک اور محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی اس کے احوال پر اگلی قسط میں بات ہو گی ۔
ڈیورنڈ لائن ، پاکستان اور افغانستان کی سرحدی حدود ہے ۔ نصف صدی ہونے کو آئی ، اس کے دونوں اطراف لوگ خاک و خون دیکھ جی رہے ہیں ۔
(جاری ہے)
سردار داؤد خاں ، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے کزن اور بہنوئی تھے ۔ ظاہر شاہ نے سردار داؤد کو افغان فوج کا سربراہ بنا دیا ۔ مارچ 1953ء میں جنابِ ظاہر شاہ نے انہیں اپنے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شرکت کے لئے ماسکو بھیجا ۔ ماسکو میں سردار داؤد خاں پر سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی نظر پڑی یوں وہ سوویت یونین کے فکری حلیف بن کر واپس کابل لوٹے ۔ پشتون قوم پرست رہنما اب ، کے جی بی کی سرپرستی میں تھا ۔
ستمبر 1953ء سے 1962 تک ظاہر شاہ کی بادشاہت کے دوران سردار داؤد خاں افغانستان کے وزیر اعظم رہے ۔ سترہ جولائی انیس سو تہتر کو سردار داؤد خاں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان کے حکمران بن گئے ، روسی کے جی بی کا فکری حلیف اب افغانستان کا کلی مالک و مختار تھا ۔
دوسری جانب پاکستان میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک میں منتخب طاقتور جمہوری حکومت قائم ہو چکی تھی ۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان میں صوبائی وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے گورنر نواب اکبر خان بگٹی کی سربراہی میں صوبائی حکومت قائم کر دی ۔ بلوچستان کے طاقتور دو قبائل مینگل اور مری نے وفاق کے خلاف مسلح عسکری مزاحمت کا آغاز کر دیا ۔ وفاق مخالف کچھ عناصر پناہ اور سرپرستی کے لئے سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے ۔
جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے اسی دور میں اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی کا واقعہ پیش آیا ، الزام براہِ راست سوویت یونین پر لگا ۔
انیس سو تہتر میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خاں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا ۔ ہزاروں کے مجمع پر وفاق حکومت کے ایماء پر گولیوں کی بوچھاڑ میں متعدد سیاسی کارکن مارے گئے جن میں خان عبدالولی خاں کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری جنابِ اجمل خٹک کے بیٹے بھی شامل تھے ۔ جنابِ اجمل خٹک خود کو محفوظ نہ پا کر ہمسایہ ملک افغانستان منتقل ہو گئے اور پشتون قوم پرستی کے جذبات ابھار کر کابل حکومت سے مدد کے جا طلبگار ہوئے ۔
جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے جنابِ عبدالولی خاں کی عوامی نیشنل پارٹی کو غدار کہہ کر پچاس سے زائد افراد کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل قائم کر دیا ۔
بلوچستان میں صوبائی حکومت کی برطرفی اور فوجی آپریشن سے خفا مینگل اور مری قبائل کا افغانستان میں پناہ لے کر پاکستان کی وفاقی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لینا اور دوسری جانب اپوزیشن لیڈر جنابِ عبدالولی خاں کی پشتون قوم پرست جماعت کے مرکزی رہنما جنابِ اجمل خٹک کا افغانستان منتقل ہو کر ، پشتون قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکانا اور پاکستان میں مداخلت کی دعوت دینا ، یوں افغان حکمران سردار داؤد خاں اور ان کی سرپرست سوویت یونین کی ، کے جی بی متحرک ہو گئی اور پاکستان میں عسکری کارروائیوں کا آغاز ہوا ۔ پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی صوبائی حکومت کے سینئر وزیر جنابِ حیات محمد خاں شیرپاؤ بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے ۔
پاکستانی وزیر اعظم جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے کابل یونیورسٹی میں سردار داؤد کے مخالف استاد ربانی ، حکمت یار اور دیگر افغان مذہبی شدت پسندوں کو پشاور بلا کر اپنی سرپرستی میں لے لیا اور کابل میں صدر سردار داؤد کی حکومت کے خلاف عسکری کارروائیاں شروع کرا دیں ۔
یوں دونوں ، مشترکہ ثقافت ، مذہب اور جغرافیائی اعتبار سے باہم جڑے پاکستان اور افغانستان کی مخاصمت کا وہ دور شروع ہوا ، نصف صدی بیت گئی ، دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے شدید مخالف حکمران آتے جاتے رہے ۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف رہتے پشتون قبائل کے دکھوں میں کوئی کمی نہ ہوئی ۔ دکھ درد شکلیں بدل افغان سرزمین کو آگ میں جھلساتے رہے ۔
کس قدر حیران کن حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں ستر کی دہائی میں عروج پر پہنچی ایک دوسرے کے ملک میں شروع عسکری کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرنے والے حکمران نہ صرف اپنی حکومتیں تڑوا بیٹھے بلکہ اپنے بعد آئے ، اپنے شدید مخالفوں سے اپنی جانیں بھی گنوا گئے مگر دونوں ملکوں کے نئے حاکموں نے ایک دوسرے کے ہاں عسکری کارروائیوں کو نہ صرف روکا نہیں بلکہ اسے اور بھی بڑھاوا دیا ۔
کابل کا حکمران سردار داؤد خاں مذہبی شدت پسندوں کی بڑھتی عسکری کارروائیوں سے گھبرا اٹھا ۔ انیس سو چھہتر میں سردار داؤد ، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پاکستان آ پہنچا ، مدد کا طلبگار ہوا ، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے پر تیار ہو گیا
پاک افغان سرحدی تنازعہ حل ہونے کے امکانات پیدا ہوئے مگر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں قبل از وقت قومی انتخابات کا اعلان کر دیا اور اس مسئلے کے حل کو انتخابات کے بعد تک کے لئے ٹال دیا ۔
مارچ انیس سو ستتر میں قومی انتخابات ہوئے ، مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلی اور پانچ جولائی کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی ۔
سردار داؤد ایک بار پھر پاکستان آئے فوجی انقلاب میں حکمران بنے جنرل محمد ضیاء الحق سے مدد مانگی ، پاکستانی عسکری حکمران نے سردار داؤد کی دعوت پر کابل کا دورہ بھی کیا مگر اب پاکستانی عسکری حکمران نے کمزور ہوتے سردار داؤد کو مزید جھٹکے دے کر کابل میں خالصتاً اپنی پسند کی مذہبی حکومت کا خیال دل میں پال لیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے پرامن حل کا تاریخی موقع ایک بار پھر بدقسمتی سے گنوا دیا گیا ۔
بالآخر وہی ہوا جس خطرے کو بھانپ کر سردار داؤد پاکستان سے مدد کی بھیک مانگتا رہا ۔ حالانکہ سردار داؤد نے پاکستان کو خوش کرنے کے لئے کابل میں کیمونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں بھی کیں مگر پاکستان کے عسکری حکمران نے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا دوسری جانب سوویت یونین کی ، کے جی بی نے کمزور ہوتے سردار داؤد خاں سے چھٹکارا پانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔
پاکستانی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں ستر کی دہائی سے شروع مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر کھڑی عسکری مزاحمت کی سرپرستی جاری رکھی اور آخر کار وہی ہوا جس کا خطرہ سردار داؤد محسوس کر رہا تھا ۔
سوویت یونین کی ، کے جی بی کے تعاون سے افغانستان میں جنابِ نور محمد ترکئی اپریل انیس سو اٹھہتر میں افغانستان کے صدر بن گئے ۔ سردار داؤد خاں اپنے خاندان سمیت مارے گئے ۔ جنابِ حفیظ اللّٰہ امین ان کے ساتھی تھے مگر دونوں میں اختلافات ہوئے اور چودہ ستمبر 1979 کو جنابِ حفیظ اللّٰہ امین نے کابل کا اقتدار اپنے نام کر لیا ۔ امین کی مختصر دور کی حکومت عدم استحکام کا شکار رہی ، کابل کے حکمرانوں کو کمزور ہوتے دیکھ کر ان کے خلاف برسرِ پیکار مذہبی شدت پسند گروہوں کی کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ حکومتی بے تدبیری ، کیمونسٹ عناصر کا کمزور ہونا اور دوسری جانب مذہبی شدت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں نے بالآخر سوویت یونین کو ستائیس دسمبر 1979 کو کابل پر براہِ راست فوجی چڑھائی کی راہ دکھا دی اسے " آپریشن طوفان " کا نام دیا گیا ۔
پاکستان کے حامی مزہبی شدّت پسند عسکری گروہ پہلے ہی سے افغانستان میں کیمونسٹ گروہوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے اب ان کے پاس سوویت افواج کی افغانستان میں براہِ راست آمد پر مزاحمت کو مزید بڑھانے کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہ تھا ۔
ادھر پاکستان کو خطرہ لاحق ہوا کہ سوویت افواج کا دباؤ بڑھا تو افغانستان کے مذہبی شدت پسند عسکری گروہ پاکستانی بارڈر کی جانب پلٹیں گے اور سوویت افواج ان کے تعاقب میں پاکستانی بارڈر پر دباؤ بڑھا دیں گی ۔ افغانستان میں موجود پاکستان کے حمایتی مذہبی شدت پسند گروہ عسکری اور نظریاتی طور پر اب اس قدر آگے جا چکے تھے کہ پاکستان اگر چاہتا بھی تو انہیں سوویت افواج کے خلاف ہتھیار پھینکنے اور مزاحمت ترک کرنے پر آمادہ کرنا اب اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا ۔
پاکستان کے حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے سوویت افواج کے خلاف یوں اس افغان جنگ میں پوری توانائی کے ساتھ کودنے کا فیصلہ کر لیا ۔
سوویت افواج کے خلاف ابتدائی مزاحمت میں ابھی تک امریکہ کی جیمی کارٹر حکومت لاتعلق رہی ۔ سوویت افواج کی افغانستان آمد پر افغان شہریوں کی بڑی تعداد نے پاکستانی بارڈر کا رُخ کیا ، افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت نے بھی اس مقصد کے لئے کچھ مالی امداد کی پیشکش کی ۔ پاکستانی حکمران نے امریکی صدر جنابِ جیمی کارٹر کی جانب سے افغان مہاجرین کے لئے مالی امداد کو منگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا ، یاد رہے جیمی کارٹر صدارت کا منصب سنبھالنے سے قبل مونگ پھلی کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔ پاکستان ، سوویت افواج کی کابل میں مزاحمت امریکی شمولیت سے قبل ہی شروع کر چکا تھا ۔ اس دوران امریکہ میں معمول کے مطابق صدارتی انتخابات ہوئے ، نئی حکومت کا قیام عمل میں آ گیا ۔ جنابِ ریگن کی نئی امریکی حکومت نے پاکستانی سرپرستی میں افغان گروہوں کی جانب سے سوویت افواج کی سخت مزاحمت کو دیکھا تو اسے ان کی کامیابی کے امکانات نظر آتے دکھائی دیئے ۔ کولڈ وار کی مخالف کیمونسٹ عالمی طاقت سے اسلام پسندوں کے ذریعے بھڑ جانے کا نادر موقع دکھائی دیا ۔ امریکہ نے سعودی عرب کی نظریاتی اور مالی امداد کو ہتھیار بنا کر سوویت یونین کے خلاف ویتنام جنگ میں ہوئی شکست کا بدلہ لینے اس افغان جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔
دوسری طرف پاکستانی عسکری حکمران اس زعم میں کہ کیمونسٹ سوویت یونین کے خلاف امریکی دشمنی کو وہ کامیابی سے استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے ۔ امریکہ ، اس کے یورپی اتحادی ، سعودی عرب کی فکری اور مالی امداد کو پاکستان کے ذریعے افغانستان میں مذہبی گوریلا شدّت پسندوں کی جنگ انیس سو اٹھاسی میں ہوئے جینوا معاہدے تک جاری رہی ۔
اب مگر جینوا معاہدے نے جنگ کے فاتحین کے درمیان ثمرات سمیٹنے اور خطرات سے نمٹنے کی ایک اور محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی اس کے احوال پر اگلی قسط میں بات ہو گی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.