
صرف جیو ہی کیوں؟؟؟
منگل 17 جون 2014

رؤ ف اُپل
(جاری ہے)
۔یہ وہ چینل ہے جس نے اجمل قصاب کو پاکستانی ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
۔ ہم نے حامد میر کو خود ایک گاؤں میں گھومتے اور اسے اجمل قصاب کا گاؤں کہتے اور یہ ثابت کرتے سنا کہ اجمل قصاب اسی گاؤں میں رہتا۔ ۔اسے جہاد کا بہت شوق تھااور وہ جہادی تنظیم میں شامل ہوا وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ کامران خان اپنے پروگرام میں بار بار دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان میں ہونے کی نشاندہی باآوازِ بلند کرواتا رہتا تھا۔ ۔نجم سیٹھی کا اس ادارے سے وابستہ ہونا ہی شک و شبہ سے خالی ناں تھا۔ ۔ جیو کی بے لگام کردار کشی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کے سلامتی کے اداروں تک پہنچ گئی ۔جیو نے انٹر ٹینمنٹ کے پردے میں غیر اخلاقی انڈین پروگراموں ، غیر اخلاقی ڈراموں اور فلموں کو پاکستان میں متعارف کروایا ۔۔ ہر روز نیا انڈین سٹیج شو۔ ۔ بے ہودہ ڈانس کے پروگرام ٹی وی کے ذریعے گھروں کی زینت بننا شروع ہوگئے۔۔ نعتیہ مقابلوں اور مشاعروں کی جگہ میوزک کے پروگرامز نے لے لی ۔۔ عامر لیاقت مذہبی پراگرام اور رمضان اسپیشل سے شہرت حاصل کرکے نوٹنکی کے اسم سے مشہور ہونے لگا۔ ۔ عامر لیاقت کا یہ اعزاز ہے کہ وہ بری شہرت سے ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخر محسوس کرتا ہے۔۔جیو کی دیکھا دیکھی دوسرے چینل بھی انٹر ٹینمنٹ کی آڑ میں غیر اخلاقی پروگرام دکھانے لگے۔ ۔تمام چینل پر مارننگ شو سے لے کر خبروں تک کو گلیمررائز کر کے پیش کیا جانے لگا ۔ ۔آج جیو اور دوسرے چینلز میں فرق صرف اور صرف سیاسی پالیسی کاہے ۔
یقینا جیو پا لیسی کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا۔ ۔ مگر جو نقصان بے ہودہ تفریحی پراگرامز کے ذریعے تمام چینل پہنچا رہے ہیں ان کی طرف دھیان کون دے گا۔ ۔ یہاں سب سے اہم اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جیو پر پا بندی لگا کر ہم سیاسی طور پر ان چینلز کے لیے ایک سیاسی ضابطہ اخلاق تومرتب کرلیں گے مگر اخلاقی برائیاں کبھی دور نہیں کر پائیں گے۔ ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ناں صرف میڈیا کے لیے سیاسی پالیسی مرتب کی جائے بلکہ اس سے بڑھ کر میڈیا اخلاقی پالیسی مرتب کرنا اس سے بھی ضروری اور اہم ہے ۔ ۔ کیونکہ سیاسی بگاڑ کو قابو پانا نسبتا آسان اور بگڑے اخلاق کو سدھارنا نسلوں کا کام ہے ۔
چند دن پہلے جیو کے خلاف اہلِ بیت کی شان میں گستاخی پر ہر لیول پر پرزور احتجاج کیا گیا، جو بقینا کرنا بھی چاہیے تھا۔ ۔ جیو کے خلاف اس آواز میں جیو پر پابندی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ۔۔کیونکہ آقا ﷺ اور ان کے کنبے کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ۔ ۔ یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان کے خلاف کسی نا زیبا بات کو برداشت نہیں کرتا۔ ۔ مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اسی قسم کے پروگرام کی ویڈیو جب ایک دوسرے چینل کی طرف سے منظر ِ عام پر آئی تو اس کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی اورناں کاروائی کرنے کا سوچا گیا۔ ۔ دوسرے چینلز کی طرف سے اہلِ بیت کی شان میں گستاخی کو کیوں نظر انداز کردیا گیا۔۔ کیا جیو کے علاوہ سب چینلز کو آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کی اجازت ہے۔۔؟ ۔۔اگر جیو کے خلاف چینل بند کرنے کا فیصلہ صرف سیاسی پالیسی یا اداروں کے کردار کو مجروح کرنے کے حوالے سے کیا گیا تو یہ اسلامی مملکت میں انصاف تصور نہیں کیا جائے گا۔ ۔ سیاسی ضابطہ اخلاق کے ساتھ ساتھ مذہبی ضابطہ اخلاق کا خیا ل کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رؤ ف اُپل کے کالمز
-
ثواب کی فیکٹریاں
جمعہ 3 اپریل 2020
-
عائشہ بمقابلہ عائشہ
اتوار 6 اگست 2017
-
مصطفی کا کمال
بدھ 27 اپریل 2016
-
پاناما ہنگامہ
اتوار 17 اپریل 2016
-
امام کربلا سے مدینہ تک
ہفتہ 24 اکتوبر 2015
-
ٹاپ ٹین
پیر 14 ستمبر 2015
-
ایسے ہوتے ہیں قائد
جمعرات 25 دسمبر 2014
-
گو نواز گو
جمعہ 28 نومبر 2014
رؤ ف اُپل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.