مستقبل کا خوف

جمعرات 25 فروری 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

انسان اشرف المخلوقات ہے جس کو کائنات میں اتنی عزت دی گئی ہے کہ تخلیق ہوتے ہی فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا اور جس نے انکار کیا وہ عزازئیل سے ابلیس بن گیا جس سے ابلیس کو انسان سے حسد ہو گیا اور اسی حسد نے اسے انسان کا سب سے بڑا دشمن بنا دیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ دشمن انسان کو خود انسان سے بھی ذیادہ جانتا ہے ۔ انسان خو د اپنی کمزوری کو نہیں سمجھتا لیکن یہ دشمن سمجھتا ہے۔

شیطان نے انسان کی تخلیق کے وقت کہا تھاکہ وہ انسانوں کو بہکانے کے لیے آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے آئے گا۔ آگے سے مطلب مستقبل کا خوف دلائے گا ، پیچھے سے مطلب ماضی کے پچھتاوے میں مبتلا کرے گا۔ دائیں سے مطلب نیکیوں کے غرور میں مبتلا کرے گا اور بائیں سے مراد گناہ کی رغبت دلائے گا۔

(جاری ہے)


 انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی کمزوری گناہ کی طرف مائل ہو جانا ہے اور یہی شیطان کا سب سے بڑا وار ہے لیکن شیطان نے اپنی پلاننگ میں اس کو آخر پر رکھا ہے۔

سب سے پہلا اور مضبوط وار مستقبل کا خوف ہے اور یہ وار ابتدا ء سے ہی کار گر ثابت ہوا ۔ جو دھوکہ جنت میں شیطان نے انسان کو دیا تھا اس میں بھی مستقبل کا خیال ہی تھا کہ ہمیشہ کی زندگی مل جائے گی۔ اور اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ آج بھی یہی پہلا وار سب سے ذیادہ خطر ناک ہے کیونکہ مستقبل کا خوف انسان سے ہر برا اور غلط کام کروا لیتا ہے ۔

انسان کو دوسروں کا دشمن بنا دیتا ہے۔ اس وقت معاشرے پہ نظر دوڑائیں کہ کتنی ساری برائیاں مستقبل کے خوف کی وجہ سے ہیں۔ رشوت، چوریاں ، ملاوٹ، سود ، قتل و غارت سب کی وجہ مستقبل ہے کسی کو مستقبل میں امیر بننا ہے ، کسی کو مشہور اور کسی کو طاقتور ۔اور جب یہ خوف حد سے بڑھتا ہے تو مایوسی میں بدل جاتا ہے جس سے خود کشی جیسا جرم جنم لیتا ہے ۔ اس ساری افراتفری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔

مستقبل کا خوف ۔ باقی سب وار اس سے کم درجے کے ہیں۔ ماضی کا پچھتاوا بھی مستقبل سے کم ہوتا ہے ، نیکی کے غرور سے بھی کوئی بچ جائے ، گناہ سے بھی بچ جائے لیکن مستقبل کے خوف سے نہیں بچ سکتا۔
یہ سب سے مضبوط وار ہے۔ جس کا شکار ہر کوئی ہو سکتا ہے۔ امیر ، غریب نیک ، بد سب ہی ۔ یہ خوف انسان میں مایوسی اور مایوسی سے نا شکری کو جنم دیتا ہے۔ جس سے بندے کا تعلق اللہ سے کمزور ہو جاتا ہے اور اس لا تعلقی نے اکثریت کو ڈ یپریشن کا مریض بنا دیا ہے ۔ یہ خوف زندگی سے نکل جائے تو معاشرے میں سکون آ جائے گا لیکن اس زندگی میں اس خوف سے وہی پیچھا چھڑا سکتا ہے جس کا اللہ کی ذات پہ یقین مضبوط ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :