صفیں از خود سیدھی ہوجائیں گی !!!

جمعہ 4 جون 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی اپنے مسائل سے لا علم ہے مگر حکومتی صفوں میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ اور ایوانوں کی راہداریوں میں پکنے والی کھچڑی میں بھرپور دلچسپی لیتی ہے کیونکہ سارا دن سیاسی ٹاک شوز میں سیاسی اور صحافتی تجزیہ نگار ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں حتی کہ ملکی و بین الاقوامی ذہنوں میں پلنے والی سازشوں کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں جبکہ ان کا ذریعہ معلومات اور مختلف ضروری معاملات میں نالج بنیادی طور پر یہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہوتا ہے لیکن وہ خود کو نایاب دانشور سمجھ کر جو ذہن میں آتا ہے بولتے اور لکھتے رہتے ہیں حالانکہ ان کی مکمل ترجیحات ان کے ذاتی مفادات اور تعلقات ہوتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر میڈیا اپنی سمتیں درست کر لے تو یہ نظام ٹھیک ہو سکتا ہے چونکہ میڈیا جس برق رفتاری سے کرپشن اور عوامی مسائل کو اعلیٰ حکام تک پہنچا سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا مگر وفاداریوں اور مفادات کے سبب بسا اوقات دوسروں کو گمراہ ہی کیا جا رہا ہوتا ہے بایں وجہ عوام بھی وہی سمجھتے ہیں جو سمجھایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

یقین کریں ایک کچرا اٹھانے والا اور سارا دن آٹو رکشہ چلانے والا بھی آپ کو بتا سکتا ہے کہ آجکل جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے چرچے ہیں اور یہ دھڑے بندی تبدیلی سرکار کو لے ڈوبے گی اگرNROنہ دیا گیا۔

NRO نہ دینے کا بیانیہ تو ایسا پٹا ہے کہ بچے گھروں میں جھگڑے کے دوران اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ میں NRO نہیں دونگا جبتک آپ میری بات نہیں مانیں گے الغرض بچہ بچہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے لیکن یہ کسی کو نہیں پتہ کہ ادراہ شماریات کے سماجی و معیارات زندگی سے متعلق سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 38 فیصد گھرانوں کے معاشی حالات پہلے سے بدتر ہوگئے ہیں‘ 46 فیصد کے پہلے جیسے ہیں اور صرف دو فیصد گھرانوں کے بہتر ہوئے ہیں جبکہ معاشی ابتری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر”فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا ۔

۔ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا “مبینہ چشم پوشی کیوجہ اکثریت کی حکومتی تبدیلیوں میں دلچسپی ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روز سیاستدان بھی کوئی نہ کوئی ایسا ڈرامہ کھیلتے ہیں جوتھڑے باز فارغ البال ذہنوں کو مصروف کر دے۔
ایسا آج یا کل نہیں ہوا بلکہ چوہتر برسوں سے سیاسی خاندان اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مل جل کر ایسے ڈرامے رچاکر عام آدمی کو الجھارہے ہیں ۔

عوام ایسے ڈھیٹ ہیں کہ قسم کھا رکھی ہے یعنی اپنے طور اپنے لیے کچھ نہیں کرنا بس شکوہ کرنا ہے اور حکومتوں کو گالیاں اور بد دعائیں ہی دینی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی مسائل ہیں مگر حل کوئی نہیں ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں عوام جن مسائل سے دوچار ہیں بذات خود ان کے ذمہ دار ہیں۔انھیں یہ تو پتہ ہے کہ حکومت مافیاز کے سامنے بے بس ہے کیونکہ انھیں سیاسی سر پرستی حاصل رہتی ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ ہر شعبے کا ایک سربراہ ہے اور جب اس شعبے میں کرپشن ہوتی ہے تو اس سربراہ کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ اس سے قلمدان واپس لیکر کسی اور کو دے دیا جاتا ہے اور اسے کسی اور عہدے پر تعینات کر دیا جاتا ہے تاکہ کچن کیبنٹ اختلافات سے کرسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔

حالانکہ اقتدار سے پہلے چین کے وزراء کو کرپشن پر دی جانے والی سزاؤں کے قصے سنائے جاتے تھے ۔یہ کہنا ہی آسان ہے کہ میں کسی کو نہیں چھوڑونگا بے شک میری حکومت چلی جائے لیکن آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ”چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی “اقتدار کوبچانے کے لیے صاحب اقتدار ہر قربانی دینے اور اپنے قول و فعل سے مکرنے کے لیے تیار رہے تو عرض ہے کہ آج بھی حضرت انسان اپنی جبلتوں اور جذبات کے گرد ہی گھوم رہا ہے لیکن یہاں دکھ اورہے کہ ”تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فضل کردن آمدی “ تو جوڑ (محبت )پیدا کرنے کے لیے آیا ہے ‘توڑ (نفرت) پیدا کرنے کے لیے نہیں آیایعنی تبدیلی سرکار تو بگڑی بنانے آئی تھی اب اپنی نبیڑنے پر اکتفا ہے ۔


چند روز پہلے انکشاف کیا گیا ہے کہ تاریخ میں پہلی بارایک مالی سال میں لاہور کی ترقی کیلئے مختص بجٹ میں سے 50 فیصد بھی استعمال نہیں کیا گیا ‘صاف پانی ۔تعلیم ،سیورج اور ہسپتالوں میں سہولیات ، سڑکوں اور گلیوں کی پختگی سمیت سبھی منصوبے نامکمل ہیں‘ رپورٹ وزیراعلیٰ کوپیش بھی کر دی گئی ہے دوسری طرف لاہور محکمہ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں کٹو تی کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک التوائے کار جمع کروا دی گئی ہے ۔

تین برس گزر گئے یہی لکھتے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے بہتری کی صورت نکالیں لیکن نصف مشیر و وزیر حکومتی صفوں کو سیدھا کروانے اور باقی اوٹ پٹانگ بیانات داغنے اور شگوفے چھوڑنے میں مصروف رہتے ہیں نتیجتاً سارا دن سیاسی موشگافیوں اور بد حواسیوں کو سننے اور ارتغرل دیکھ کر سونے والے صرف آسمان سے اترنے والی فرشتوں کی جماعت کا انتظار ہی کر سکتے ہیں اور کررہے ہیں کیونکہ قومی سطح پر یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ تبدیلی سرکار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر کمزور ہو رہی ہے جبکہ ن لیگ اپنی کمزور ترین صورتحال کے باوجود بھاری ثابت ہو رہی ہے جو آئندہ انتخابات میں تبدیلی سرکار کو ٹھیک ٹھاک ٹکر دے سکتی ہے۔


بحر کیف یہ اتنا آسان ہوتا تو اتحادی زیاد ہ مضبوط ہیں مزید دھڑے بندیاں بھی سیاسی گرہیں کہ ”اندروں اندر کھائی جاؤ اوتوں رولا پائی جاؤ“تبھی تو جہاں حکمران جماعت میں ممکنہ دھڑے بندی کی باتیں ہیں وہاں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی فارورڈ بلاک نہیں بس پنجاب حکومت کی جانب سے کی جانے والی انتقامی کاروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تشکیل دیا گیا گروپ ہے یقینا یہ سیٹلمینٹ بہت سے سوال چھوڑ جائے گی کیونکہ اپنوں کی مخالفت نے ثابت کیا تھا کہ تبدیلی سرکار کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کی اصل دشمن اپوزیشن نہیں مہنگائی ہے جس پر پر قابو پانے کے لیے وہ ڈٹ چکے ہیں لیکن اب محسوس ہورہا ہے کہ مافیاز واقعی طاقتور ہیں البتہ یہ یاد رہے ظلم کی حکومت نہیں چلتی اور انصاف کی کبھی نہیں گرتی اگر خان صاحب احتساب گھر سے شروع کریں کہ اپنے ارد گرد موجودافراد کا بلاتفریق اور بلا خوف و خطر کڑا احتساب کریں تو صفیں ازخودسیدھی ہوجائیں گی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :