سنجیدگی سے نظر ثانی کی ضرورت ہے

منگل 14 ستمبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

یکساں قومی نصاب کے حوالے سے علمی وسماجی حلقوں میں پھیلی حیرانی اورپریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ اب یکساں قومی نصاب کے تحت شائع ہونے والی کتب کے مواد اور تصویروں پر اختلافی بحث شروع ہوگئی ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ یہ نصاب ایک خاص مائنڈ سیٹ کے تحت تیار کیا گیا ہے جس میں خواتین کی رجعت پسندانہ منظر کشی کی گئی ہے ۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی کس انداز میں عکاسی کر رہے ہیں ‘ان کتب میں آخر کون سی اقدار دکھائی جا رہی ہیں ؟ یکساں نصاب کو رائج کرنے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی جلد بازی بہت سی خرابیاں پیدا کر سکتی ہے جن کا ازالہ آئندہ کئی برسوں تک ممکن نہ ہوگا ۔

لیکن ایسی تمام آراء کو دماغ کا خناس قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعض افراد پاکستان کو رسوا کرنے کے لیے ایسے بحث و مباحثے چھیڑ رہے ہیں حالانکہ ہماری حکومت ایک ایسی جامع سکول ایجوکیشن پالیسی لیکر آئی ہے جس کے نفاذ کو یقینی بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر ہم نے کر دکھایا ہے ۔

(جاری ہے)

یکساں نصاب کو رائج کرنے کے لیے کوئی متفقہ اور با ضابطہ طریقہ کار بھی وضع نہیں کیا گیا پھر بھی سرکاری سکولوں میں لاگو کر دیاگیا ہے لیکن پرائیویٹ سکولوں میں ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ ان میں سے معروف اداروں پر حکومتی اداروں کا چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں ہے اور آئندہ بھی یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی ۔

ہر طرف توواویلا مچا ہوا ہے اورتعلیمی ماہرین ہر پلیٹ فارم پر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے نصاب بارے جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اس کی ترتیب و تنظیم اور مشاورت کے لیے ایسے تعلیمی ماہرین کوبلایا گیاتھا جو کہ ہر حال میں حکومتی ہم نوا ہیں اور اب بعض پبلشرز کو بھی ا جازت دے دی گئی ہے کہ وہ اگر فیس دیں تو کسی بھی قسم کی معاون بکس چھاپ سکتے ہیں۔

انھی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اساتذہ اور پبلشرز سراپا احتجاج ہیں مگر کسی کو فرصت ہی کہاں کہ سوچے کہ ملکی سطح پر کیے جانے والا ہر فیصلہ عوام الناس کے نقصان کا ہی سبب کیوں بنتا ہے ۔خیر! اس بار تو معاملہ زیادہ نازک ہے اگر تعلیمی بنیادیں کمزور ہو گئیں تو ریاستی استحکام اور خوشحالی کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے ”ہر گلے رارنگ وبو دیگراست“ یعنی جو بھی بر سر اقتدار آتا ہے اس کا انداز جدا جدا ہے ۔

انھی تجربات نے ہماری معیشت کو آج تک مستحکم نہیں ہونے دیا ۔
تبدیلی سرکار کے پاس صرف ایک دلیل ہے کہ تعلیمی مساوات قائم کی جارہی ہے کیونکہ طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے درحقیقت ایسا ناممکن کیونکہ طبقاتی نظام کی تقسیم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہوتی ہے جو کہ اشرافیہ کے مفادات کے لیے بنائی جاتی ہیں جس کی چکی میں عام آدمی پس جاتا ہے ۔

مذکورہ پالیسی میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے کہ مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کی بجائے پورے ملکی نظام تعلیم کو مدارس کے طرز تعلیم پر استوار کیا جائے تاکہ شعور و آگاہی کو محدود کیاجائے ۔ایسی کوشش پرویز مشرف دور میں بھی کی گئی جسے ہمارے وزیراعظم اپنا خواب بتا رہے ہیں لیکن اب 25 برس پرانی دنیا نہیں تھی بلکہ جدید علوم کی ضرورت تھی مگر ہمارا کوا کل بھی پیاسا تھا اور آج بھی پیاسا ہے ۔

ہمارے باپ دادا نے بھی” اولڈ مین اینڈ دی سی“ کو پڑھا اور ہم بھی پڑھ رہے ہیں۔ اگر کچھ کرنا تھا تو اسلامی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب تعلیم کو جدید تعلیمی تقاضوں سے آراستہ کرتے تاکہ افسر شاہی اور وڈیرہ شاہی طبقات کے بچے جو کہ بیرون ممالک اور ایچی سن جیسے اداروں سے پڑھ کر حکمرانی کرنے کے حقدار بنتے ہیں‘ ان کی شعبدہ بازیوں کو عام آدمی بھی سمجھ سکے لیکن یہ تو سراسر تعلیمی سطح اور صلاحیتوں کو کچلنے کا منصوبہ ہے ۔

عجیب ”اندھا گائے بہرا بجائے “والا معاملہ بنا ہوا ہے ۔
خدا لگتی کہوں تو ہمارے وزیراعظم کے خطابات ، بیانات اور منصوبہ جات معاشرتی اور اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن کام اسکے برعکس ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو افراد ارد گرد بیٹھے ہیں انھیں جوڑ توڑ کرنے اوربیانات کو ڈیفنڈ کرنے سے فرصت نہیں ملتی اورحکومتی پالیسیوں بارے اتحادیوں اور اپوزیشن راہنماؤں کا روز اول سے ایک ہی جواب رہا ہے کہ ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا ۔

اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے ۔۔چند روز پیشتر پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات چوہدری منور انجم کی جانب سے ساؤتھ ایشین کالمسٹ کونسل (ساک) کے اعزاز میں ملک کے نامور صحافیوں اور کالم نگاروں کو کاسموپولیٹن کلب میں پر تکلف عشایہ دیا گیا جس میں پنجاب اسمبلی پارلیمانی لیڈر اور نو منتخب جنرل سکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سید حسن مرتضی نے پارٹی کے موجودہ اور آئندہ مستقبل کے لائحہ عمل بارے بریفنگ دی ۔

اس موقع پر سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیاتھا تو ہم نے بھی سوال کیاکہ اس وقت اہم ایشو یکساں قومی نصاب کا نفاذ ہے تو پیپلز پارٹی کا یکساں نصاب کے حوالے سے کیا مئوقف ہے ‘اب جبکہ پبلشروں اور سکول مالکان کے نقصانات بارے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا تو پیپلز پارٹی کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہے؟منور انجم نے ٹالنا چاہا مگر ہم نے وہی سوال دوبارہ دوہرایا اور حسن مرتضی سے کہا کہ ہمیں اس کا واضح جواب نہیں ملا! تو انھوں نے دوٹوک جواب دیاکہ پہلی بات یہ ہے کہ ہم سے مشورہ نہیں لیا گیا تاہم پیپلز پارٹی یکساں نصاب کے حق میں ہے مگر طریقہ کار غلط ہے اور بہت جلد اس بارے ہم احتجاج کا اعلان کرنے والے ہیں ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنے اہم فیصلے میں دوسروں کے تجربات سے استفادہ نہیں کیا گیاالمختصر ۔۔قبل ازیں عام آدمی جو عہدے اور وزارتیں پا لیتا تھا وہ خواب بن کر رہ جائے گا کیونکہ ایچی سن اور پرائیویٹ سکول کے بچے پہلے بھی برابر نہیں تھے تو اب خاص مفادات سے وابستہ افراد کی زیر نگرانی جو نصاب تیار کیا گیا ہے اس کو پڑھ کر بچے امراء و روؤسا کے بچوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ دیکھنا تویہ ہے کہ اپوزیشن اپنی تجاویزات حکومت تک کب پہنچائے گی اور متاثرین کے لیے احتجاج کا اعلان کب کرے گی۔ کیونکہ یہ طے ہے کہ مذکورہ فیصلہ نظر ثانی کا متقاضی ہے چونکہ ملک و قو م کامستقبل داؤ پر لگا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :