
عادی سازی با اسرائیل، اتحاد امت کے خلاف سازش
ہفتہ 17 اپریل 2021

صابر ابو مریم
یہاں یقینا نوجوانوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہو گا کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا عادی سازی کی اس قدر مخالفت کیوں کی جاتی ہے ;238; اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہ میں یہ بات جان لینی چاہئیے کہ حقیقت میں اسرائیل کیا ہے ;238; اسرائیل ایک ایسی ناجائز ریاست کا نام ہے جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر سنہ1948ء میں غاصبانہ تسلط حاصل کر کے امریکی و برطانوی آشیر باد کت ذریعہ مسلط ہوئی ہے ۔
(جاری ہے)
مسئلہ فلسطین ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ جو دنیا میں سب سے اولین درجہ کی اہمیت رکھتا ہے ۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مشترکہ طور پر نا انصافی کی ہے ۔ ان کی زمینوں پر اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے ۔ سب سے بڑھ پر مسلمانوں کا قبلہ اول جو مسلم امہ کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے آج بھی صہیونیوں کی بدترین سازشوں کا نشانہ بن رہا ہے ۔ قبلہ اول بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں شب معراج پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) مسجد الحرام سے یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں اس مقام پر آپ (ص) نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی ۔ اب آئے روز صہیونی قبلہ اول کا تقدس پائمال کر رہے ہیں ۔ شعائر اللہ کو نقصان پہنچایا جا رہاہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ۔ فلسطینی عوام کو بے دردی سے قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا عمل گذشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے ۔ کئی ایک جنگیں مسلط کی گئی ہیں ۔ اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی زمینوں پر بھی غاصبانہ تسلط قائم کر لیا ہے ۔ داعش جیسے فتنہ کو اسرائیل ہی نے جنم دیا تا کہ خطے کو آگ وخون میں غلطاں کر کے اپنے ناپاک عزائم حاصل کرے ۔ ان تمام تر معاملات اور وجوہات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین مسجد اقصی ٰ یعنی قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظہر رہا ہے ۔ دنیا میں چاہے مسلمانوں میں آپس کے کچھ بھی اختلافات موجود ہوں لیکن جب بھی بات انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین فلسطین کی ہو یاقبلہ اول بیت المقدس کی بات ہو تو مسلم امہ کے عوام متحد اور یکجا نظر آتے ہیں ۔ اس کی کئی ایک مثالیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں کہ فلسطین و القدس کے پرچم تلے مسلمان اقوام آپس میں متحد و یکجا نظر آتی ہیں ۔ اس قسم کے مشاہدات موجودہ دور میں ہ میں خود پاکستان کی سرزمین پر بھی مشاہدے میں آئے ہیں ۔
عالمی استعمار اور اس کے شیطانی چیلے چاہے وہ براہ راست اسرائیل کی صورت میں ہوں یا یورپی ومغربی سامراج کی صورت میں ہوں ، مسلم امہ کے مابین مسئلہ فلسطین سے متعلق پائے جانے والے اتفاق اور اتحاد سے خاءف رہتے ہیں ۔ کیونکہ مسلمان اقوام کا اتحاد اور وحدت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو دنیا کی ظالم و استکباری قوتوں کی ناک کو زمین پر رگڑ رہا ہے ۔ اسلام ومسلمین کے دشمنوں نے گذشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ جنگ کے میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تو کہ مغربی استعمار غاصب اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کئے گئے وعدوں کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کو یقین دلوا سکے ۔
یوں تو اسلام و مسلمین کے دشمنوں نے ماضی میں فرقہ واریت، لسانیت اور نہ جانے کس کس طرح کے نعروں کو ایجاد کر کے خرافات کے مسلمان اقوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں لیکن حالیہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی و برطانوی استعمار اور ان کے دم چھلوں نے باقاعدہ مسلم اقوام کے مابین خلیج جنم دینے کے لئے جس ہتھیار کا استعمال کیا ہے وہ عادی سازی با اسرائیل کا ہتھیار ہے ۔ یعنی مسلم دنیا کی ان چند حکومتوں اور حکمرانوں کو کہ جو پہلے ہی مغرب زدہ ہو چکے ہیں اور مسلم امہ کی صفوں میں غدارتصور کئے جاتے ہیں ۔ ان ہی کے ذریعہ مسلم امہ کے قلب میں ایک اور خنجر گھونپنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے ۔ یعنی چند عرب مسلم حکمرانوں کے ذریعہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلانات اور پھر اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری جیسے معاملات کے آغاز کے ذریعہ وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق مسلم دنیا کی ایک آواز کو تقسیم کر دیا جائے تا کہ ایک طرف فلسطین کاز کمزور ہو جائے تو دوسری طرف عالمی استعماری قوتوں کا اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کیا جانے والا وعدہ بھی یقینی ہو سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر گوش و کنار میں بسنے والے حریت پسند اسرائیل کے ساتھ عادی سازی کو مسلم امہ کے اتحاد کے لئے ایک زہر قاتل اور قلب میں خنجر کی مانند تصور کرتے ہیں ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اقوام اپنے خلاف ہونے والی ان سازشوں کو سمجھیں اور درک کریں ۔ اسرائیل کے ساتھ عادی سازی صرف اور صرف فلسطین اور فلسطینی عوام کے خلاف ہی سازش نہیں ہے بلکہ اگر اس کو ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو دنیا کی تمام مظلوم اقوام کی حق تلفی کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے مابین نفاق کا بیج بونے کے مترادف ہے ۔ آج جن مسلم اور عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے فلسطین پر قائم صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو ا سکا مطلب صاف ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے فلسطینی عوام کے خلاف جاری ایک سو سال ظلم کو بھی تسلیم کر لیا ہے ۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بطور پاکستانی اگر ہم مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں تو یہ عرب حکمران جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں آخر کس طرح یہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق کی حمایت کریں گے ;238; یقینا جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی حق تلفی ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام بشمول کشمیر کے عوام کی بھی حق تلفی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی مسلمان عرب ریاستوں کے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مسلم امہ کے مابین نفاق ایجاد کرنے کی ان گھناءونی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے فلسطین کاز کے لئے متحد ہو جائیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر دنیا کے مسلمان اقوام باہمی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ فلسطین کاز کے لئے سرگرمیاں انجام دیں تو اسرائیل جو کہ مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے زیادہ دیر تک اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ٹکا نہیں رہ سکتا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صابر ابو مریم کے کالمز
-
اسلام فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
جمعرات 27 جنوری 2022
-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول جارحیت کی مذمت
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
اتوار 19 دسمبر 2021
-
اعلان بالفور اور فلسطینیوں پر مصیبت کے سو سال
منگل 2 نومبر 2021
-
انسانی حقوق اور مغرب کا دوہرا معیار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
منگل 28 ستمبر 2021
-
ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے!
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
ایران یا امریکہ: فاتح کون ہے؟
پیر 6 ستمبر 2021
صابر ابو مریم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.