اکیسویں صدی کے شیخ چلی

جمعرات 22 جون 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

یہ پانچویں صدی قبل مسیح کی بات ہے یونان کے شہر ایتھنز میں ایک سنگ تراش کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس نے آگے چل کر یونان میں علم فلسفہ کی بنیاد رکھی اور استدلال کے فن کا موجد ٹھہرا۔اس نے اپنے وجدان اور حق گوئی سے یونان کے تمام روائتی دیوی دیوتاؤں کے وجود سے انکار کردیا۔
حاکم شہر نے اس آزادانہ سوچ کو بغاوت قرار دے کر جیل میں ڈال دیا اور عدالت نے اُسے روایات سے بغاوت کے جرم کی پاداش میں سزائے موت دے دی۔

اُسے راہ فرار اور رحم کی اپیل کے مشورے دیے گئے مگر71سالہ اس بوڑھے فلسفی کو”سقراط“کے نام سے جانتی ہے۔سقراط کی موت کے بعد اس کے شاگرد افلاطون اور پھر اس کے شاگرد ارسطو نے اس یونانی فلسفے کو بام عروج تک پہنچایا۔سقراط نے انسانی رویوں اور انسانی نفسیات کے وہ پہلے طیان کیے جو آج صدیاں گزرجانے کے بعدبھی آج کے مہذب دنیا میں ویسے ہی مستند اور معتبر تصور کیے جاتے ہیں جو اپنے ابتدائی دور میں تھے۔

(جاری ہے)

سُقراط نے انسانی حرص کی خصلت کے بارے میں کہاتھا کہ قناعت ایک قدرتی دولت ہے اور عیش وعشرت دراصل مصنوعی زندگی اور غربت کا دوسرا نام ہے۔آپ سقراط کے اس فلسفے کو عملی زندگی میں کسی نہ کسی پہلو میں ضرور استعمال ہوتا دیکھیں گے۔عیش وعشرت اور خواہشات کی کثرت کا مرض اگر حکمران طبقے کو لاحق ہو جائے تو اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی رعایا کے ساتھ ویسے ہی کرتے ہیں جو ان کے پیش رو حکمران صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں۔

جس طرح مچھلی اپنے سر سے گلنا سڑنا شروع ہوتی ہے ملک اور معاشرے اور سے اپنی لیڈر شب کی نااہلی اور کرپشن سے برباد ہونا شروع ہوتے ہیں اور اگر حکمران ایک طرف کرپشن اور دوسری طرف احتساب میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں تو اس ملک پر کیا اثرات ہوتے ہیں یہ سمجھنے کیلئے آپ یہ دو ٹیسٹ کیس اپنے سامنے رکھیں۔
جنوبی کوریا کی سابق صدر گوئن ہائی پارک جنوبی کوریا کی پہلی منتخب خاتون صدر تھیں۔

یہ جنوبی کوریا کے سابق صدر پارک چنگ ہی کی بیٹی تھیں جو 1963 سے 1979 تک جنوبی کوریا کے صدررہے اور انہوں نے اپنے دور صدارت میں جنوبی کوریا کو انڈسٹریلائزیشن اور معاشی اصلاحات سے اور جنگ سے روندی ہوئی قوم سے ایک مضبوط معاشی قوت بنادیا۔صدر مِسز گوئن ہائی پارک کو اپنے والد کی خدمات کی وجہ سے کوریا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔یہ ایک طاقت و ر خاتون صدر تھیں مگر اکتوبر2016 میں اختیارات کے غلط استعمال،رشوت،کک بیک اور ذاتی کاروبار کے مفاد کیلئے سرکاری راز افشا کرنے جیسے 13 الزامات لگے۔

سکینڈل آنے کی دیر تھی پورے ملک میں غصے کی لہر دوڑ گئی نومبر 2016 میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور صدر گوئن پارک سے استعفی کا مطالبہ کرنے لگے۔لوگوں کا اصرار تھا کہ جنوبی کوریا ایک مہذب اور باوقار ملک ہے اور گوئن پارک جیسی کرپٹ سیاست دان ان کی صدر نہیں ہوسکتی۔عوامی دباؤ نے اثر کیا اور پارلیمنٹ متحرک ہوئی اور 9 دسمبر 2016 کو کورین پارلیمنٹ نے صدر کے مواخذے کا اعلان کردیا اور 10 مارچ کو صدر کے مواخذے کا عمل مکمل ہوگیا اور وہ صدارت کے عہدے سے فارغ ہو گئیں۔

کوریا کے لوگ اس مواخذے اور ملک میں قانون اور انصاف کی فتح قرار دیا اور پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ فتح کے جشن منانے اور آتش بازی کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔مِسز گوئن پارک نے 12 مارچ کو صدارتی محل ”بلوہاؤس“چھوڑ دیا اور 31 مارچ کو پولیس نے سابق صدر کو گرفتار کر لیا ۔سابق صدر سے 14 گھنٹے طویل تفشیش ہوئی۔سیول کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں کیس کی 9 گھنٹے طویل سماعت ہوئی۔

ججز نے محسوس کیا کہ یہ کوریا کے مستقبل کا معاملہ ہے اور ملزمہ اپنی سیاسی پارٹی یا سابقہ عہدے سے فائدہ اٹھا کر ثبوت ختم کرسکتی ہیں ۔عدالت نے ملزمہ کو کیس کی مکمل سماعت اور تفتیش تک عارضی جیل میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔یہی نہیں عدالت نے ملزمہ اور سابق صدر کو 70 مربع فٹ کی ایک کوٹھری میں قید کرنے کا حکم دیا جہاں وہ دیگر عام قیدیوں کی طرح جیل کے مخصوص لباس میں ملبوس ہیں اور ان کو روزانہ 1.30 ڈالرز سے زیادہ مالیت کا کھانا نہیں دیا جاسکتا اور نہ باہر سے کھانا منگوانے کی اجازت ہے۔

سابق صدر کو جس سٹیل کے ٹرے میں کھانا دیا جاتا ہے وہ ٹرے بھی انہیں خود دھونا ہوتا ہے۔یہ یاد رہے کہ مِسز گوئن پارک عام شہری نہیں سابق صدر ہیں اور 65 سال یہ خاتون اُس سابق صدر کی بیٹی ہیں جنہوں نے کوریا کی تقدیر بدل دی۔اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ الزام ابھی عدالت میں باقاعدہ ثابت نہیں ہوئے اور نہ عدالت سے ان کو باقاعدہ سزا ہوئی ہے مگر اس کے باوجود ان کو عام ملزمہ کی طرح ہتھکڑی لگا کر اور کبھی کبھی دونوں بازوؤں سے جکڑ کر عدالت میں لایا جاتا ہے۔

اس سارے عمل کے دوران نہ سابق صدر یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر عدالت پر احسان کر رہی ہیں نہ سابق صدر کی پارٹی کے لوگ ملزمہ کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں ۔نہ ان کی پارٹی عدالت کو جیمز بانڈ کا طعنہ دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی کے لوگ عدالت کو قصائی کی دکان کہتے ہیں اور نہ سابق صدر اور ملزمہ کو پروٹوکول اور سینکڑوں لوگوں کے نعروں اور تالیوں کی گونج میں عدالت لایا جاتا ہے بلکہ ان کو ایک عام سرکاری گاڑی میں چار پانچ پولیس اہلکاروں کے ساتھ باقاعدہ ہتھکڑی لگا کر اور کبھی کبھی دونوں بازوؤں کو رسی سے باندھ کر عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

ہمارے سیاسی لیڈر حکمران خاندان کے دفاع کرنے والے جس ”بے رحمانہ احتساب “کا رونا روتے ہیں اگر حقیقی معنوں میں بے رحمانہ احتساب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ جنوبی کوریا کی سابق صدر کے عدالتی ٹرائل کو دیکھ لیں تو شاید ان کو حقیقت کا اندازہ ہو جائے کہ غیر جانبدراور بے رحمانہ احتساب کس کو کہتے ہیں۔
اب آپ پاکستان کی مثال لے لیں اپریل 2016 میں پانامہ پیپرز لیک ہوئے اور ہمارے وزیراعظم کے خاندان پر کرپشن سے پانامہ میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے کی جائیداد بنانے کے الزام لگے۔

میڈیا نے شور مچایا اور اپوزیشن نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا مگر وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دے کر اکتفا کر لیا ۔مگر تحریک انصاف نے پانامہ لیکس پر تحقیقات کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ وزات عظمیٰ کے منصب سے الگ ہوکر تحقیقات کروائیں۔وزیرا عظم نے کرسی چھوڑے سے انکار کر دیا اور خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ میاں صاحب فکر نہیں کرے قوم یہ پانامہ کیس جلد ہی بھول جائے گی۔


مگر داد دینی پڑے گی عمران خان اور تحریک انصاف کو جنہوں نے قوم کو پانامہ ایشو بھولنے نہیں دیا۔تحریک انصاف نے جلسے کئے،ریلیاں نکالیں،دھکے کھائیں،ماریں کھارئیں،اور حکمران خاندان کے احتساب کے معاملے سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے یہاں تک کہ دسمبر 2016 میں پانامہ پیپرز کا سکینڈل آیا تھا اور آج جون 2017 میں بھی اس کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں۔

جبکہ کوریا میں اکتوبر 2016 میں صدر گوئن ہائی پارک کا سکینڈل آیا اور محض پانچ ماہ بعد ان کا مواخذہ بھی ہوگیا اور وہ عارضی جیل میں بھی پہنچ گئیں،آج حکمران خاندان جس احتساب کے ہاون دستے میں پیسے جانے کا کریڈٹ لیتا ہے وہ دراصل کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کیونکہ یہ تحریک انصاف کی جدوجہد سے ممکن ہوا اگر حکمران خاندان نے رضا کارانہ طور پر خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہوتا تو پھر تحریک انصاف کو جلسے ،دھرنے اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کال کی ضرورت ہی پیش نہ آتی،بھلا ہو میڈیا کا جو وزیراعظم کا وہ کلپ بار بار دکھا کر اس قوم کی یاداشت کو جگاتے رہے جس میں وہ اس وقت اپوزیشن میں تھے۔

اور اس وقت کے وزیراعظم گیلانی کو اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے کرسی چھوڑنے اور استعفی دینے کا مشورہ عنائت کر رہے تھے کہ آپ استعفی دیں،عدالت کا سامنا کریں اور عوام میں جائیں اور اگر عوام آپ کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کے منصب پرلے آئیں یو آجائیں مگر جب اپنی باری آئی تو اخلاقیات کے وہ سارے لیکچر اور درس بھول گئے اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ اخلاقیات کے معیار اپوزیشن میں کچھ اور ہوتے ہیں اور حکمرانی میں کچھ اور۔


اگر ہم اپنے ملک کا جنوبی کوریا سے موازنہ کریں تو ہمیں حیرت ہوگی کہ کسی وقت کوریا جاپان کے زیر تسلط اور اس کی کالونی تھا۔15 اگست 1948 میں اس نے آزادی حاصل کی اور زیادہ تر یہاں آمرانہ حکومتیں قائم رہیں۔یوں کوریا کو اور ہمیں تقریباََ ایک جیسا وقت ملا مگر آج کوریا کہاں نکل گیا اور ہم کہاں رہ گئے۔جنوبی کوریا اس وقت ایشیاء کی چوتھی اور دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت ہے دنیا میں پاکستان کی ایکسپورٹس کا 68 واں نمبر ہے اور ہم20.8 ارب ڈالرز کی ایکسپورٹس کرتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا 509 ارب ڈالرز کی ایکسپورٹس کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔

ہماری شرح خواندگی 54.6 فیصد ہے جبکہ جنوبی کوریا کی شرح خواندگی 98 فیصد ہے۔ہماری فی کس آمدنی صرف ایک ہزار چار سو ڈالرز سالانہ ہے جبکہ جنوبی کوریافی کس آمدنی 28 ہزار 500 ڈالرز سالانہ ہے۔ہماری شرح نمو 3 فیصد ہے جبکہ جنوبی کوریا کی معیشت دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت ہے جس کی شرح نمو 6.2 فیصد سے زیادہ ہے ۔الغرض تعلیم ،میڈیکل،انجنیئرنگ بزنس،ہر شعبے میں جنوبی کوریا ریکارڈ ترقی کر رہا ہے۔

اس کے بنائے ہوئے سامسسنگ آج ہردوسرے موبائل صارف کے پاس ہیں اور کوریا کے ہی بنائے ہوئے LG ٹی وی ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔
میں یہ سوچ رہا تھا کے کوریا کو جدید اور خوشحال کوریاکس نے بنایا،وسائل،افرادی قوت،ذہانت، اور ٹیلنٹ میں تو پاکستان بھی کسی کم نہیں تھا مگر مقروض ہوتے چلے گئے اور باقی قومیں کہاں نکل گئیں۔کوریا کی سابق بااثر صدر کے بے رحمانہ احتساب اور عدالتی ٹرائل کی فوٹوز اور ویڈیوز دیکھ کر یہ یقین ہو گیا کہ کوریا کو جدید اور خوشحال کوریا اس کی خاندانی سیاسی جماعتوں نے نہیں بلکہ اس کی آزاد اور غیر جانبدار عدالتوں نے بنایا اور اس کی ایماندار ویژنری حکمرانوں نے اپنی بہتر پالیسیوں سے اپنے ملک اور قوم کی تقدیر بدل دی۔

جنوبی کوریا نے غربت اور افلاس سے ترقی کا یہ سفر صدیوں میں نہیں محض سالوں اور صرف ایک نسل میں مکمل کیا ہے۔دوسری عالمی جنگ میں تباہی کے بعد جرمنی نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اپنی لگن اور جستجو اور محنت سے تباہ حال جرمنی سے خوشحال جرمنی بننے کے اس عمل کو MIRACLE ON RHINE کا نام دیا بالکل ویسے ہی جنوبی کوریا نے اس ترقی کو معجزے سے تعبیر کرتے ہوئے
MIRACALE ON HAN RIVER یا دریائے ہان پر معجزے کا نام دیا۔

یوں جنوبی کوریا نے اپنی آزاد عدالتوں بے رحمانہ احتساب اور ایماندار حکمرانوں کی مدد سے غلام اورجنگوں سے تباہ ملک کو معجزے سے خوشحال ملک اور ایشین ٹائیگر بنادیا جبکہ ہمارے ہاں ہم ابھی تک ایسے مخمے میں ہیں کہ سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی جانبدار ہے یا غیر جانبدار ہے اور ہماری عوام کے ٹیکسز سے تنخواہ لیتے وزیر مشیرعوامی فلاح کے کاموں میں وقت صرف کرنے کی بجائے حکمران خاندان کے کرپشن الزامات کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں پروٹوکول دینے میں مصروف ہیں۔

پوری مہذب دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کا راستہ انصاف قانون اور ایمانداری میں ہے۔جبکہ ہم یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ہم حکمرانوں اور لیڈروں کو ”بھگوانوں“ کا درجہ دے کر ان کی خواہشات کا ایندھن بن رہے ہیں۔ہم ترقی تو جنوبی کوریا جیسی چاہتے ہیں مگر اپنے حکمران خاندان سے کرپشن کا حساب مانگنے کو تیار نہیں۔ہم عروج اور خوشحالی جنوبی کوریا جیسی چاہتے ہیں مگر انصاف اور احتساب ایتھوپیا جیسا چاہتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں۔ہم اکیسویں صدی کے شیخ چلی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :