سی پیک اور ٹریفک حادثات کا ٹائم بم !!

ہفتہ 29 فروری 2020

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

ٹریفک اور ذرائع  مواصلات جہاں ملکی معیشت کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہیں ذرائع  مواصلات بالخصوص ٹریفک پلاننگ کو اگر نظرانداز کیا جاۓ تو یہی ٹریفک ایک ہجوم کی صورت ملک اور معاشرے کے لیے وبال جان بن سکتی ہے. WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 15 لاکھ افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں. کمزور ملکوں کی معیشت کوان حادثات سے سالانہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچتا ہے.

WHO کی اس رپورٹ کے مطابق 2030 تک ٹریفک حادثات دنیا میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائیں گے. بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹریفک حادثات کی شرح مہذب  دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے.

(جاری ہے)

پاکستان کے قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 15000 حادثات"رپورٹ" ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے ان حادثات میں میں تقریبا 40 ہزار افراد موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ زخمی اور اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے.

پاکستان میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں ہونے والے حادثات بہت زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جن میں شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے. ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ آبادی میں ہر سال اوسطاً 22 افراد ٹریفک حادثات میں جان کی بازی ہارتے ہیں یہ  شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے.ان حادثات میں %76 حادثات کی وجہ انسانی غلطی سے رونما ہوتے ہیں %28 حادثات خراب روڈ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہوتے ہیں جبکہ %5 حادثات خراب اور ان فٹ گاڑیوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں.
ٹریفک کا نظام پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ ہے.

پاکستان میں زیادہ ترحادثات غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کی وجہ سے پیش آتے ہیں. NHA  کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 12 ہزار 8 سوکلومیٹر شاہراہیں ہیں اور پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ  گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں. سی پیک پاکستان کی ترقی کا ایک تاریخ ساز پراجیکٹ ہے جس کے تحت چین پاکستان میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے. سی پیک کے تحت پاکستان میں 3000 کلومیٹر لمبی موٹروے بن رہی ہیں.

سی پیک مکمل ہونے کے بعد پاکستان میں ہر سال چین سے سالانہ 12لاکھ گاڑیاں پاکستانی حدود میں داخل ہوں گی اس میں اگرمقامی گاڑیوں کو بھی شامل کر لیا جاۓ تو آنے والے چند سالوں میں پاکستان کی سڑکوں پرکروڑوں کی تعداد میں مقامی اور چینی گاڑیاں دوڑ رہی ہوں گی. اس وقت اگر پاکستان میں ٹریفک کے نظام پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں پاکستان کی شاہراہیں دنیا کی خطرناک ترین شاہراہوں میں شمار ہوں گی.اگر ہم نے ٹریفک کا  ایک محفوظ، منظّم اور مربوط نظام نہ استوار کیا تو آنے والے وقت میں ٹریفک حادثات کا یہ ٹائم بم کئی انسانی المیوں کوجنم دے سکتا ہے.

اگر ہم نے دور اندیشی سے سی پیک کے بعد والے منظر نامے کو نہ دیکھا اور خود کوآنے والے وقت کے لیے تیار نہ کیا تو پھر خدا نخواستہ ہماری شاہراہیں ترقی کی بجانے حادثات اور ابتلا کا استعارہ نہ بن جائیں اور ہم ان چمکتی دمکتی موٹورویز سے فائدہ سے زیادہ زخمی اور لاشیں نہ اٹھا رہے ہوں. یہ وہ وقت ہے جب ہمارے ارباب اختیار کو دور رس منصوبہ بندی کرنا ہوگی.

ٹریفک سکولز کا ایک جال بچھانا ہوگا. ڈرائیونگ لائسنس کے لیے کڑی اور سخت تربیت کا اعلیٰ معیار طے کرنا ہوگا. ڈرائیورز کو ٹریفک کے اصول اور قوانین پر عمل دار آمد کا پابند کرنا ہوگا. روڈ انفراسٹرکچرعالمی معیار کے لحاظ سے مضبوط اور محفوظ ڈیزائن کرنا ہوگا. ہمیں سی پیک، اپنا مستقبل اگلی نسل ،اپنی  گاڑیاں اورشاہراہیں بہتر اور ذمہ دار ڈرائیور کے ہاتھوں میں دینا ہوں گی تاکہ دوسرے ملکوں کی طرح ہم بھی بلا خوف وخطر اپنی شاہراہوں کو استمعال کر سکیں اور یہ سڑکیں حادثات کا ٹائم بم اور خوف کی علامت بننے کی بجانے ترقی کامیابی اور خوشحالی کا زینہ ثابت ہو سکیں. 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :