کینیڈا میک اِن انڈیا اور ہماری ون مین شو فارن پالیسی

جمعہ 14 جولائی 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

انگریزی ادب کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ مل جل کر ٹیم ورک میں کام کرنا آپ کے بوجھ کو تو کم کردیتاہے مگر آپ کی ترقی کوگئی گنا سے ضرب سے دیتا ہے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ خواہ وہ ادارے ہوں یا ملک ترقی ہمیشہ ٹیم ورک سے ہی حاصل ہوسکتی ہے آپ جتنے ہی تجربہ کار ،ذہن فطین اور عقل ودانش کے ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان کیوں نہ ہوں جب تک آپ ایک بہترین ٹیم اور پھر اس ٹیم سے ٹیم ورک نہیں لیتے آپ ترقی تو دور اس کی”گرد“کوبھی نہیں پہنچ سکتے۔


کینیڈا کے پُرعظم اور باہمت وزیراعظم جسٹن جیمز ٹروڈو اس فلسفے کی عملی تصویر ہیں۔یہ کینیڈا کے سابق وزیراعظم کے بیٹے ہیں اور انہوں نے اپنے لڑکپن میں ہی کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک کی تقدیر کے فیصلے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہوتے دیکھے ہیں اور کئی عالمی لیڈروں سے ملاقات اور ان کی شخصیات کو قریب سے دیکھا ہے 45 سالہ جسٹن ٹروڈو کینیڈا کی ترقی پسند لبرل پارٹی کے لیڈر ہیں۔

(جاری ہے)

2015 کے جنرل الیکشن میں کامیابی کے بعد جب کابینہ اور وزراء کے انتخاب کا موقع آیا جسٹن ٹروڈو نے اپنے انتخاب سے صدیوں پرانی جمہوریتوں اور ان کے تجربہ کار ”بابے “سیاست دانوں کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا۔انہوں نے اپنی کابینہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی یکساں نمائندگی دی یوں کینیڈا موجودہ دور کا واحد ملک ہے جہاں خواتین وزراء کی تعداد مردوں کے برابر ہے ۔

یہی نہیں اس کابینہ میں دو معذور وزراء،2 قدیم کینیڈا کی نسل کے باشندے بھی شامل ہیں مگر ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم ٹروڈو نے وزراء کا انتخاب اور ان کی وزارت کے قلم دان سیاسی وابستگی ،چاپلوسی اور خاندانی قربت کی بجائے ان کی تعلیمی اور پروفیشنل کارکردگی اور تجربے کی بنیاد پردے یوں اس ”انوکھی کینڈین کابینہ“ کی اصل خوبصورتی یکساں نمائندگی اور تنوع سے زیادہ میرٹ اور پروفیشنل ازم ہے۔

وزیر خزانہ بل مورنو لندن سکول آف اکنامکس سے ایم ایس سی،کامیاب بزنس مین،پروفیسر اور اکنامک کے پروفیسر رہے ہیں وزیر صحت جیسن ملپوٹ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ،ہسپتال کی سربراہ،یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں ڈیپارٹمنٹ آف فیملی میڈیسن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر رہی ہیں اور انہوں نے 20 سال سے زیادہ افریقہ میں ایڈز کے کنٹرول اور میڈیکل کی تعلیم میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔

کینیڈا کے وزیر ٹرانسپورٹ مارک گرانو رائل ملٹری کالج آف انجنئیرنگ کینیڈا سے انجنئیرنگ اور امپریل کالج آف انجنئیرنگ لندن سے انجنئیرنگ میں ”پی ایچ ڈی“ کی ڈگری رکھتے ہیں۔وزیر مارک گرانو وہ پہلے کینیڈین ہیں جو خلاء میں ناساکے مشن میں تین بار جانے کا اعزاز رکھتے ہیں اور یہ کینیڈا کی اوٹاوا یونیورسٹی کے چانسلر اور نیوی سے بطور کیپٹن ریٹائر ہوئے ہیں۔

وزیر خارجہ کرسٹینا فری لینڈ کئی کتابوں کی مصنفہ اور دی گلوب ،میل اور فنانشل ٹائمز جیسے انٹرنیشنل جنریلز کی ایڈیٹر رہی ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں نے نیو یارک بیسٹ سیلر جیسے کئی ایوارڈ جیتے ہیں۔
یہ محض چار وزاء کا مختصرتعارف ہے آپ 30 رکنی پوری کابینہ کی لسٹ نکالیں ان کی رپورٹ کے ساتھ ان کا پروفیشنل ریکارڈ دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کس طرح کینیڈا بھی کے قابل پڑھے لکھے اور پروفیشنل لوگ اس کابینہ میں شامل ہیں اور اگر آپ اس کے مقابلے میں ہماری وفاقی کابینہ کی فہرست اور ان کے قلمدانوں کا جائزہ لیں تو آپ کو شرم سے ماتھے پر پسینہ آجائے گا،گنتی کے ایک دو وزراء کے علاوہ باقی سب وزیر محض تعلق داری یا پھر رشتہ داری کے طفیل جھنڈے والی گاڑی کے مزے لے رہے ہیں۔

لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اور مایوس کن بات یہ ہے کہ بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی کہ اس ملک کے پاس پچھلے 4 سال سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔وزارت خارجہ پچھلے 4 سال سے دو مشیر طارق فاطمی اور سرتاج عزیز چلا تے رہے ہیں۔ اگرچہ مشیر کو بھی وزیر کے برابر کا درجہ حاصل ہوتا ہے مگر بین الاقوامی تعلقات میں جو پروٹوکول اور بات چیت میں کمفرٹ لیول وزیر خارجہ کو حاصل ہوتا ہے وہ مشیر خارجہ کو نہیں ہوتا۔

وزیر خارجہ نہ ہونے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک توشاید کہ پورے ساڑھے تین سو ایم این ایز کے ہاؤس میں ایک بھی قابل اور اہل ایم این اے ایسا نہیں جسے وزیر خارجہ جیسی اہم ذمہ داری سونپی جاسکے یا پھر دوسری وجہ یہ کہ وزیراعظم کسی پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے۔شاید ایوب کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو اور پھر وزیرا عظم گیلانی کی کابینہ میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر شاہ محمود قریشی کا نمایاں ہونا اور ہیرو بننا اہیں نہ صرف یادرہے بلکہ اس سے سبق بھی سیکھ چکے ہیں کہ اگر اپنا وجود اور سیاسی قدکاٹھ قائم رکھنا ہے تو اپنے سے کسی بھی طرح کم تربیتی حیثیت کے حامل شخص کو وزیر خارجہ نہ لگاؤ وگرنہ بھٹو اور شاہ محمود قریشی کی طرح وہ وزیر اعظم سے بھی زیادہ اہم شخصیت بن جائے گا۔

رہی بات کسی قابل شخص کے قومی اسمبلی میں نہ ہونے کی تو جہاں عابد شیر علی اور خرم دستگیر خان جیسے ایم این اے اگر وزیر بن سکتے ہیں تو پھر وزرات کیلئے تعلیم ،پروفیشنل ازم،گرومنگ اور صلاحیت چہ معنی دارد؟
یوں اس ملک کو پچھلے چار سال سے وزیر خارجہ نہ صرف اسی لئے میسر نہیں ہے کہ وزیراعظم اپنے ماتحت آنے والے وزیرسے ہی خائف ہے کہ کہیں وہ اس سے زیادہ اہم ،ناگزیر اور بیرونی سائیں اور مائی باپ لوگوں کی نظر میں منظور نظر نہ ہوجائے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ ہماری وزارت خارجہ کی پچھلے چار سال کی پرفارمنس نکال کر دیکھ لیں آپ کو سفارتی محاذوں پر کامیابی سے زیادہ سفارتی تنہائی غالب نظر آئے گی۔مثال کے طور پر ہماری ناکام افغان پالیسی جس کے نتیجے میں افغانستان ،ایران اور بھارت کا چارہ بہار معاہدہ اور گوادر منصوبے پر اثر انداز ہونے کیلئے چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی ہماری کمزور خارجہ پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے۔

2015ء میں امریکی صدر اوباما بھارت آئے مگر پاکستان آنا گوارانہ کیا۔امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد میں کمی کردی۔پاکستان سفارت خانہ واشنگٹن ہر ماہ 75 ہزار ڈالر ماہانہ ایک فرم کو ادا کر رہا تھا تا کہ وہ امریکی سینٹرز کو پاکستان کے حق میں لوبی کرسکے مگر اب یہ فرم پاکستان کے لئے لابنگ کرنے کو تیار نہیں۔سی پیک کو ایک طرف رکھ کر مشرقی اور مغربی بارڈرز ،ایران کے ساتھ سرحدی جھڑپیں اور ایران کا پاکستان کے اندر داخل ہوکر حملے کی دھمکی یہ سب اُسی کمزور خارجہ پالیسی کا نتیجہ تھی۔

رہی سہی کسر خلیج کی موجودہ سیاسی صورت نے نکال دی ہے جہاں ایک طرف چھ عرب اور دیگر اسلامی ممالک ہے اور دوسری طرف قطر وزیراعظم نے تو دعویٰ کیا کہ جناب ہم نے مصالحت کی کوشش کی مگر سعودی سفیر کی کھلے الفاظ میں تردید نے ہمارا رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا۔سچ ہے مصلحت وہی کرواسکتا ہے جو طاقت ور ہو یا معزز ہو مگر جومالی امداد اور سیاسی جائے پناہ کا متلاشی ہو وہ اپنے سے امیر اور طاقت ور کی مصالحت کیسے کروا سکتا ہے یہ تو فطرت کے برعکس ہے مگر ہمارے ہاں بولنے سے پہلے سوچنے اور تولنے کی روائت مدتوں سے معدوم ہوگئی ہے۔

تبھی ہمیں کوئی خاطرمیں نہیں لاتا۔
ادھر ہماری اس کمزور خارجہ پالیسی کا بھارت نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔کسی دور میں خطے میں زبردست سفارتی توازن قائم تھا اور امریکہ یا کوئی بھی مغربی ملک پاکستان کو نظر اندا کرکے صرف بھارت سے تعلقات استوار نہیں کرتا تھا۔،مگر اب میدان خالی نظر آر رہا ہے اور بھارت کھل کر اس کافائدہ اُٹھا رہا ہے۔

بھارت نے چین کو پچھاڑ کر نیپال میں دنیا کا سب سے بڑا ڈئم بنانے کا آغاز کیا ہے جس سے 85 فیصد پیدا ہونے والی بجلی حاصل کرے گا۔ایران کے ساتھ تیل کی درآمد کا منصوبہ،سری لنکا کے ساتھ بندرگاہ کا معاہدہ پہلے یہ بندرگاہ چین کے پاس تھی۔آسٹریلیا کے ساتھ یورینیم سپلائی کا معاہدہ،42 سال بعد بھارتی وزیراعظم کا کینیڈا کا دورہ اور کینیڈا کے ساتھ بھارتی ایٹمی ری ایکٹر کیلئے یورینیم ایندھن فراہمی کا معاہدہ ،بھارتی وزیر اعظم کا امریکہ کا تاریخ ساز دورہ اور پھر صہیونی ریاست اسرائیل کا دورہ یہ سب کامیاب بھارتی سفارت کی چند مثالیں ہیں مگر اس سے زیادہ اہم کامیابی اور اہم سنگ میل ”میک ان انڈیا“ پروگرام کا آغاز ہے۔

نریندر مودی نے چین کے معاشی انقلاب کا جواب دینے کیلئے 25 ستمبر 2014 کو میک ان انڈیا پروگرام لانچ کیا جس کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بھارت میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی ۔دی اکنامک ٹائمز کے مطابق اس پروگرام کے تحت صرف 2015 وہیں بھارت میں 63 بلین ڈالرز انوسٹمینٹ آئی۔بھارت اپنی امپورٹس کم اور ایکسپورٹس زیادہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ صرف 2020ء تک بھارت کی الیکٹرانکس آئٹمز کی ڈیمانڈ 400 بلین ڈالرز تک چلی جائے گی۔

بھارت 2020ء تک الیکٹرانکس امپورٹس صفر کرنا چاہتا ہے تاکہ جہاں قیمتی زرمبادلہ چین کو نہ جاسکے وہیں ملک میں مینوفیکچرنگ کا انقلاب لایا جاسکے۔
ہم سی پیک سی پیک کے نعرے لگاکے خوش ہورہے ہیں اور ہمارا ہمسایہ ملک خاموشی سے ہمارے ایک سی پیک کے مقابلے میں درجنوں سی پیک اپنی کامیاب سفارت کاری سے لارہا ہے ۔اس کا سب سے بڑا ثبوت فروری 2016ء میں بھارت میں ہونے والا میک ان انڈیا ویک ہے ۔

اس کے نتیجے میں دنیا بھر سے 2500 سے زائد انٹرنیشنل اور 8000 سے زائد لوکل کمپنیوں نے شرکت کی اور 72 سے زائد ممالک کے کاروباری گروپ اور ادارے شامل ہوئے جنہوں نے بھارت میں 240 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا صرف بھارتی ریاست مہاراشٹر میں ہی 120 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان ہوا۔دنیاکی صف اول کی جنگی طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن جو مشہور زمانہ F-16 طیارے بناتی ہے وہ بھارت کی کمپنی ٹاٹا کے ساتھ مل کر اب تک کا جدید ترین F-16 بلاک70 طیارہ نہ صرف بھارت میں بنائے گی بلکہ اس کی ٹیکنالوجی بھی بھارت کو ٹرانسفر کی جائے گی۔

امریکی کمپنی کو 12 بلین ڈالرز کے 150 طیاروں کا یہ آرڈر صرف اسی شرط پر دیا گیا ہے وہ طیارے بھارت میں بنائے اور اس کی ٹیکنالوجی بھی بھارت کو منتقل کرے تاکہ بھارت طیارہ سازی میں نہ صرف خود کفیل بھی ہو بلکہ مستقبل میں ان کی ایکسپورٹس سے قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکے۔
یہ سب بھارت کی کامیاب سفارت کاری اور متحرک وزیراعظم نریندر مودی کی کوششوں سے ممکن ہوا جنہوں نے مل کر امریکہ جیسے ملک کو نہ صرف بھارت میں انویسٹمنٹ کرنے پر مجبور کیا بلکہ دنیا کی جدید ترین ایوی ایشن ٹیکنالوجی بھارت کومنتقل کرنے پر بھی قائل کیا۔

بھارت فرانس سے پہلے ہی 36 رافیل طیارے خرید رہا ہے اس پر دنیا کا جدید ترین F-16 کا ورژن بلاک 70 آنے سے جو ہمیں ائر فورس میں ٹیکنالوجیکل ایڈوانٹیج حاصل تھا وہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
پوری دنیا میں اس وقت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اپنے ملک کے مفادات کی جنگ جاری ہے۔امریکہ میں
”Buy AMERICAN , HIRE AMERICAN
پر عمل ہورہا ہے۔بھارت ”میک ان انڈیا“ کو پروموٹ کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں EMIRATIZATION کا عمل جاری ہے۔سعودی عرب نے حال ہی میں SAUDIZATION پروگرام کا آگاز کردیا ہے تا کہ ملک میں معاشی اصلاحات ہوں۔امریکی صدر نے اپنے لئے 4 ارب ڈالرز مالیت کے جدید ترین بوٹنگ 747 ائر فورس ون کا آرڈر کینسل کر دیا ہے اور F-35 منصوبے پر کام روک دیا ہے تاکہ پیسہ بچایا جاسکے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ایکسپورٹس گر رہی ہے اور امپورٹس پرزور ہے۔


اورنج لائن جیسے منصوبوں پر 2 ارب ڈالرز لگائے جارہے ہیں اور اخراجات میں کمی کا کوئی تصور نہیں ہے۔بھارت اپنی خارجہ پالیسی سے دن رات کامیابیوں کی منزلیں طے کررہا ہے اور ہم صرف سی پیک کو لے کر خوش فہمی کی نیند سو رہے ہیں ۔پوری مہذب دنیا پروفیشنلزم ٹیم ورک ،کامیاب ڈپلومیسی اور قوت ارادی سے اپنے اپنے ملکوں کیلئے نسکوں تک یار رہنے والے پراجیکٹس اور معاہدے کر رہی ہے اور ہم خوش فہمیوں ،غیر یقنی کیفیت کے ساتھ ”ون مین شو“ کو ہی شیکسپیئر کا ہملیٹ ڈرامہ سمجھ کر انجوائے کر رہے ہیں اور دنیا ہماری اس کم عقلی پر تالیاں بجارہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :