
سوشل میڈیا، الزامات اور سیاسی ورکرز
منگل 3 ستمبر 2019

صاحبزادہ آصف رضا میانہ
متمول اور ترقی پذیر ملکوں اور قوموں کی نفسیات اور سماجی رویوں میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد کیا تبدیلیاں آئی ہیں یہ سمجھنے کے لیے ہم آپ کو ماضی کے جھروکوں سے لندن کے ہائیڈ پارک لے چلتے ہیں.
1637 سن عیسوی میں لندن کے وسط میں 350 ایکڑز پر قائم ہونے والا ہائیڈ پارک برطانیہ کے شہرہ آفاق پارکوں میں سے ایک ہے. پارک میں ہزاروں مختلف قسم کے پرانے پیڑ ، سرسبزو شاداب گھاس کے میدان اور خوبصورت جھیل اور پھولوں کے باغیچے ہیں جن کی سیر کے لیے سالانہ تقریبا 80 لاکھ لوگ ہائیڈ پارک کا رخ کرتے ہیں. لیکن صرف یہی سب ہائیڈ پارک کی وجہ شہرت نہیں ہے. ہائیڈ پارک کی تاریخی شہرت کی ایک اہم وجہ اس میں قائم " سپیکر'ز کارنر " ہے. سپیکر'ز کارنر کی تاریخ بہت دلچسپ ہے. 1855 میں برطانوی حکومت نے "سنڈے بل " کے نام سے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت حکومت نے اتوارکے دن خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی. چونکہ ورکنگ کلاس نے اتوار کا دن چھٹی اور خرید و کروخت کے لیے مختص کیا ہوتا تھا انہوں نے اس فیصلے کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف جان کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا یہ احتجاج آگے چل کر کارل مارکس کے بقول " انگلش انقلاب" کی بنیاد بنا. پارک کے وسیع و عریض ہونے کے باعث انقلاب کی لیڈرشپ نے کارکنان کی آسانی اور رہنمائی کے لیے پارک کے ایک مخصوص حصّے کو "سپیکر'ز کارنر" کا نام دے دیا.تحریک کے رہنما اور کارکنان "سپیکر'ز کارنر" میں جمع ہوتے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف بحث و مباحثے کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جاتا. تحریک کے بانیوں نے "سپیکر'ز کارنر" میں بحث و مباحثے کے کڑے اصول وضع کر رکھے تھے. بحث و تکرار میں کسی پر تنقید سے پہلے تحقیق،الزام سے پہلے ثبوت اور گالم گلوچ، غیر اخلاقی گفتگو اور الزام تراشی کی جگہ مضبوط اور ٹھوس دلائل فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہوتے تھے .انگلش انقلاب کی تحریک کی آبیاری اور فتح میں "سپیکر'ز کارنر" نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور سپیکر'ز کارنر نے پورے برطانیہ میں اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ لندن کے ہائیڈ پارک کے بعد برطانیہ کے دوسرے شہروں کے ساتھ ساتھ کینیڈا آسٹرلیا اٹلی ہالینڈ نیوزی لینڈ اور امریکہ سمیت کئی دوسرے ممالک نے اپنے پارکس میں سپیکر'ز کارنرز قائم کر دیے. سپیکرز کارنرز میں مختلف سیاسی اور سماجی نظریات رکھنے والے لوگ اکٹھے ہوتے اور کسی ایک عنوان پر بحث کے طے شدہ اصول اور ضوابط کے تحت اپنا تبادلہ خیالات کرتے. ان سپیکر'ز کارنرز نے ان لوگوں میں صحت مند اور تعمیری بحث و مباحثے کو پروان چڑھایا اور مختلف سوچ رکھنے والے حزب مخالف کی راۓ کو جھوٹ اور الزام تراشی کی بجاۓ دلیل کے ساتھ جواب دینا سکھایا. یہی اصول آگے چل کر ان ملکوں کے کلچر اور اس کے ساتھ ان کے قانون کا حصّہ بن گئے. آپ ان ملکوں میں کسی پر بغیر ثبوت کرپٹ کہہ کر کوئی الزام نہیں لگا سکتے کیوں کہ وہ آپ کو گھسیٹ کر عدالت میں لے جاۓ گا آپ نے الزام ثابت کر دیا تو ٹھیک نہیں تو الزام لگانے والے کو جھوٹا الزام لگانے اور اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر معافی مانگنے کے ساتھ ہرجانہ بھی ادا کرنا ہوگا. مختلف سیاسی یا مذہبی نقطہء نظر کو برداشت کرنا ہوگا اور اختلاف راۓ روا رکھنے کا ایک طریقہ کار ہے آپ کسی کی ذات کو نشانہ نہیں بنا سکتے اس کے اہل خانہ یا خاندان کو ان معاملات میں نہیں گھسیٹ سکتے اور نہ ہی کسی کو اس کے مذہب اس کی جنس یا اس کے رنگ یا اس کی نسل کی بنیاد پر اس کو برا بھلا کہ سکتے ہیں. یہی اصول سوشل میڈیا کے لیے بھی ہے آپ نے اگر سکول میڈیا پر کسی شخص یا کسی کمیونٹی پر کوئی الزام لگا دیا یا اس کے مذہب اس کی جنس یا اس کے رنگ یا اس کی نسل کی بنیاد پر کوئی پروپیگنڈا کر دیا اور مذکورہ شخص یا کمیونٹی عدالت میں چلی گئی تو الزام کا بار ثبوت آپ پر ہوگا آپ الزام ثابت کر پاۓ تو ٹھیک نہیں تو پھر سزا یا ہرجانہ میں سے کوئی ایک چیز آپ کو جھیلنی پڑے گی . اس لیے مہذب ملکوں میں لوگ سماجی تربیت اور قانون کے بندھن میں اس حد تک بندھے ہے ہیں کہ حد درجہ سیاسی رقابت اور اختلاف راۓ رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوۓ ان اصولوں سے انحراف نہیں کر سکتے.
اب آپ ہمارے معاشرے کو سامنے رکھیں. ہمارے یہاں اختلافات سیاسی ہوں یا مذہبی ان کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے . سماجی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے اشیا تو ہیں استعمال کا ڈھب اور ڈھنگ میسّر نہیں ہے. انفرادی اور اجتماعی سطح پر گفت و شنید اور بحث و مباحثے میں تنقید سے پہلے تحقیق، الزام سے پہلے ثبوت اور اختلاف میں دلیل کی روایت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے. آزادی راۓ کے نام پر جس کا جو چاہے وہ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر ڈال سکتا ہے چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ ، الزام ہو یا حقیقت،کسی ظالم کی حقیقت آشکار ہو یا جھوٹے الزام کی صورت میں کسی کی پگڑی اچھالی جاۓ، معاشرے کے لیے اس سے معاشرے میں اچھائی پیدا ہو یا بگاڑ... وہ سوشل میڈیا پر شایع کو بالکل آزاد ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر کسی بھی مواد کی اشاعت کے مستند اور درست ہونے،جانچ پڑتال یا سنسر شپ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہے.
اس سوشل میڈیا کے بے جا اور اندھا دھند استعمال نے معاشرے میں تلخی اور رشتوں میں کڑواہٹ کا زہر ڈالنا شروع کر دیا ہے. بدقسمتی سے سیاسی ورکرز سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط اور برداشت کا دامن چھوڑ رہے ہیں اور نتیجے میں سوشل میڈیا سیاسی ورکرز کی گالم گلوچ ،الزام تراشیوں کا ایسا بدبو دار جوہڑ بن چکا ہے جس کے قریب جانے سے ہی دل گھبراتا ہے اور اگر میں حیث القوم سوشل میڈیا کا درست استعمال نہ کرنا سیکھا یاحکومت اور متعلقہ اداروں نے سوشل میڈیا کے مثبت اور بامقصد استعمال کے لیے کوئی با قاعدہ منصوبہ بندی اور اس مئی منفی استعمال کے روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی نہ کی تو سوشل میڈیا کا یہ شتر بے مہار ہماری سماجی ہم آہنگی اور اخوات پر مبنی روایات کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کا امن سکون نگل جاۓ گا�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صاحبزادہ آصف رضا میانہ کے کالمز
-
ایف سولہ حادثہ۔۔۔آخر پائلٹ نے ایجیکٹ کیوں نہ کیا؟؟؟
جمعہ 13 مارچ 2020
-
میرا جسم میری مرضی... جب لاد چلے گا بنجارا !!!
جمعہ 6 مارچ 2020
-
سی پیک اور ٹریفک حادثات کا ٹائم بم !!
ہفتہ 29 فروری 2020
-
سوشل میڈیا، الزامات اور سیاسی ورکرز
منگل 3 ستمبر 2019
-
برسات، لمبے دعوے اور لمبے بوٹ
جمعہ 23 اگست 2019
-
ملک کو اسلحہ سے پاک کرلیں،جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے!!
بدھ 16 اگست 2017
-
نوشتہء دیوار
جمعرات 10 اگست 2017
-
کینیڈا میک اِن انڈیا اور ہماری ون مین شو فارن پالیسی
جمعہ 14 جولائی 2017
صاحبزادہ آصف رضا میانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.