میرا جسم میری مرضی... جب لاد چلے گا بنجارا !!!

جمعہ 6 مارچ 2020

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

آج کل سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی ٹاک شوز ، گاوں کی چوپال ہو یا آفس کا میٹنگ روم صرف ایک ہی موضوع زیربحث ہےاور وہ ہے ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کی وہ بحث جو ایک ٹی وی ٹاک شو میں ہوئی. ایک طبقہ خلیل الرحمن قمر سے متفق ہے کہ اس نے جو کہا ٹھیک کہا تو وہیں ایک طبقہ ماروی سرمد کے بیانیہ میرا جسم میری مرضی کے ساتھ اتفاق کرتا ہے.


"میرا جسم میری مرضی!!!" یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ایک فکر ہے اوراس سوچ کی بنیاد ملکیت (Ownership) کا وہ قانونی اور اخلاقی جوازہوتا ہے جس کی بنا پر دعویدار شخص یہ کہتا ہے چونکہ یہ چیز "میری" ہے اس لیے اس کے استعمال کا مکمل اختیار اورحق بھی "میرا" ہے.
کسی بھی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کے پیچھے تین وجوہات ہوتی ہیں.
پہلی صورت:  وہ چیز اس نے خود بنائی ہو.
دوسری صورت:  وہ چیز اس نے خرید لی ہو.
تیسری صورت: اس چیز کے استعمال پراس کو مکمّل اختیار دےدیا گیا ہو.


میرا جسم میری مرضی کا ماروی سرمد کا یہ دعویٰ کس قدر درست ہے یہ سمجھنے کیلئے  ہم جذبات سے بالاتر ہو کر حقائق اور ان تین ممکنہ اصولوں کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں.
پہلی صورت: میرا جسم میری مرضی کا یہ دعویٰ اس صورت کرنا درست ہوگا جب مدعی نے اپنا جسم ڈیزائن بھی خود کیا ہواور بنایا بھی خود ہو تو پھر اس کی ملکیت کے دعویٰ کودرست تسلیم کیا جاۓ گا.


مثال کے طور پر ایک شخص نے کثیر سرمایا اکٹھا کیا زمین خریدی نقشہ بنوایا  اورمحنت کے بعد ایک گھر تعمیر کیا. اب وہ شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ گھر چونکہ میں نے بنایا ہے اس لیا یہ گھرمیرا ہے اورمیں اس کا مالک ہوں. اب اس گھر میں وہی ہوگا جو میں چاہوں گا تو اس کا یہ دعویٰ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے درست تسلیم کیا جاۓ گا.
تو کیا اسی طرح انسان نے بھی اپنے جسم  کو خود ڈیزائن کیا ہے یا خود بنایا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس جسم کی ملکیت کا دعویدار ہے اور اس جسم پر اپنی مرضی جتلاتا ہے؟ قرآن پاک میں الله رب العزت ایسے ہی لوگوں سے سوال کرتے ہیں.


أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿٣٥﴾
ترجمہ: کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

یا یہ خود (اپنے آپ کو) پیدا کرنے والے ہیں (القرآن سورہ الطور آیت 35 )
لبرل طبقہ چونکہ قرآنی دلائل سے مطمئن نہیں ہوتے اور وہ سائنس کے جوابات سے زیادہ مطمئن ہوتے ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس سوال کا سائنس صدیوں قبل دے چکی ہے.میڈیکل سائنس کا یہ کہنا ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا بلکہ وہ  اپنے والد اور والدہ کے اختلاط سے وجود میں آیاہے.

انسان کو کس نے اور کیسے بنایا ہےاس کاجواب صرف وہی ہستی دے سکتی ہے جس نے خود انسان کو بنایا ہو. انسان کی پیدائش کے عمل کواس کا پیدا کرنے والا پروردگار قران پاک میں تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے.
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّى مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون بستہ سے پیدا کیا پھر وہ تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر باقی رکھتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو پھر یہاں تک کہ تم بوڑھے ہو جاتے ہو کچھ تم میں اس سے پہلے مر جاتے ہیں بعض کو زندہ رکھتا ہےاور تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچو اور تاکہ تم سمجھو (القرآن سورہ غافر آیت 69 )
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
ترجمہ: اور البتہ ہم نے انسان کومٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا پھر ہم نے حفاظت کی جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا ھر ہم نے نطفہ کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنائی پھر ہم نے اس بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے ایک نئی صورت میں بنا دیا سو الله بڑی برکت والا سب سےبہتر بنانے والا ہے (القرآن : سورة المؤمنون آیت 14 )
اس اعتبار سے یہ تو واضح ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ازخود بنایا ہے.

اپنے آپ کو بنانا تو در کنار ہم میں سے کوئی یہ بھی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے اپنی مرضی اور اپنی پسند ناپسند سے اپنے والدین کا انتخاب کیا ہے یا اپنی پسند کے خاندان ملک قوم قبیلے میں پیدا ہونے انتخاب کیا ہے.
دوسری صورت: کسی چیز پر ملکیت کا دعویٰ کرنے کی دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگرچہ وہ چیز بنائی تو کسی اور نے ہومگر دعویٰ کرنے والے نے اس چیز کی قیمت ادا کر کہ وہ چیز خرید لی ہو.

چیزبنانے والا فروخت کرنے کے بعد اس چیز پر اپنے حق سے دست بردار ہو جاتا ہے اور اس کے بعد چیز خریدنے والے کا پورا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو کس طرح سے استعمال کرے. مثال کے طور پہ ایک کمپنی نے گاڑی ڈیزائن کی، بنائی اورپھروہ گاڑی کسٹمر کو فروخت کردی. گاڑی فروخت کر دینے کے بعد یہ گاڑی کے مالک کی مرضی پر منحصر ہے وہ جس مقصد کے لیے گاڑی کواستعمال کرے.

گاڑی فروخت کرنے کے بعد بنانے والے کمپنی کا اپنی بنائی ہوئی گاڑی پر کسی کسم کا حق جتانے کا کوئی بھی اخلاقی اور قانونی جواز باقی نہیں رہتا. تو کیا انسان نے بھی اپنے جسم اوراپنے آپ کو اپنے مالک سے ایک بھاری رقم کے عوض خرید لیا ہے اس لیے اب اس کی مرضی وہ اس جسم کو جسے مرضی استعمال کرے؟؟؟
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ آپ کے جسم کا ہر ایک عضو انمول ہے کیونکہ  اسے مصنوئی طرح سے پیدا نہیں کیا جا سکتا.

معروف جریدے TIMES  کے مطابق پورے جسم نہیں بلکہ انسانی جسم کے چند اعضاء (جو دوسرے انسان کو پیوند کیے جا سکتے ہیں) کی اگر قیمت لگائی جانے تو وہ 45 ملین ڈالر بنتی ہے باقی اعضاء اور نعمتوں کو اگر شمار کر لیا جانے (جو کہ میرے لحاظ سے ناممکن ہے) تو اس انسانی جسم کی قیمت اس سے تین گنا زیادہ ہوگی. خیر آپ اگر ٹائمز کے اسی اندازے پر ہی اکتفا کریں تو انسانی جسم کی قیمت پاکستانی روپوں میں 7 ارب روپے بنتی ہے.

تو اگر آپ یہ دعوی داخل دفتر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ "جسم میری ملکیت ہے" تو پھر اصولاًسب سے پہلے آپ کو اپنے جسم کےبنانے والے کو7 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی تو پھرآپ کا جسم آپ کی ملکیت بن جانے گا. اپنے جسم کی قیمت ادا کرنے اور ملکیت حاصل کرنے کے بعد میرا جسم میری کا نعرہ لگانا زیادہ مناسب رہے گا. مجھے یقین ہے آپ 7 ارب تو کجا 7 کروڑ بھی ادا کرنے کی اھل نہیں ہوں گے.     
جبکہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے فرمایا
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَـنَّةَ​ ؕ
ترجمہ: بلا شبہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو جنت کےعوض خرید لیا ہے ؕ (القرآن : سورہ توبہ آیت 111 )
اس اعتبار سے جس انسان نے کلمہ پڑھ لیا اور الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیھ وسلم پر ایمان لے آیا تو اس نے تو اپنے آپ کو جنّت کے عوض بیچ دیا ہو تو اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس بدعہدی کا ارتقاب کرے اور اپنے جسم پر اپنی مرضی کا دعویٰ کرتا نظر اۓ.

 
تیسری صورت: میرا جسم میری مرضی کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چیزکا مالک اور اس کا بنانے والا اپنی چیزکو فروخت تو نہ کرے مگر دوسرے کو اس کے استعمال، اس کے نفع و نقصان، سیاہ و سفید کا مختار نامہ (Power of Attorney ) دے دے. مثال کے طور پر ایک کسان نے اپنی زرعی اراضی 5 سال کیلئے دوسرے شخص کو ٹھیکے پر دے دی تو اب ٹھیکیدار کی مرضی وہ اس زمین پر کون سی فضل کاشت کرے اور کون سی فضل کاشت نہ کرے زمین کا مالک زمین کا طے شدہ کرایہ لینے کے بعد اس میں دخل اندازی نہیں کرسکتا کہ کیا کاشت کرے اور کیا نہ کرے۔
تو کیا انسان کوجو جسم دیا گیا ہے اس میں اسے بنانے والے نے  مکمّل آزادی دے دی ہے اور وہ اس قدر خود مختار ہے کہ وہ اسے کسی بھی قاعدے قانون سے ہٹ کر اپنی منشا اور مرضی سے استعمال کر سکتا ہے؟
میڈیکل سائنس از خود اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے کہ آپ اپنے جسم کے ساتھ اپنی من مرضی نہیں کر سکتے چاہے وہ کھانا پینا ہویا روزمرہ زندگی کے معاملات.  آپ کو اپنے جسم کے استعمال میں بہت سے اصول اور ضابطوں کا پابند ہونا پڑے گا.

کھانے پینے میں سونے جاگنے میں  ڈسپلن کی پابندی کرنی پڑے گی. وگرنہ آپ کا جسم بیماریوں کا گڑھ بن جانے گا.
یہی چیز اسلام سمجھاتا ہے کہ اس جسم کو آپ بہتر رکھنا چاہتے ہیں تو اس جسم کے بنانے والے کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا تبھی یہ جسم صحت مند اور بہتر رہے گا. بلکل ویسے جیسے آپ اپنی گاڑی کی دیکھ بھال کے لیا اس کے User Manual  کو فالو کرتے ہیں بلکل ویسے ہی یہاں بھی آپ کو جسم بنانے والے کی ماننی پڑے گی.  آپ کو اس زندگی اور جسم کے استعمال میں بلینک چیک نہیں دیا گیا ہے بلکہ ایک محدود اختیار کے ساتھ  زندگی اور موت کے وقت کے درمیان والے وقت کی ایک مہلت دی گئی ہے تاکہ آپ کو ٹیسٹ کیا جا سکے کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے کے آرڈرز پر کتنا عمل کرتے ہیں.

قرآن پاک میں الله رب العزت فرماتے ہیں.
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ
 جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، (القرآن : سورہ ملک آیت ٢)
اس اعتبار سے اگر غیر جانبدار ہو کر ملکیت کے ان ممکنہ اصولوں پر اس دعوے کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ میرا جسم میری مرضی کا یہ دعوی بالکل باطل اور احمقانہ ہے۔
انسان کتنا ہی طاقتور کیوں نہ بن جاۓ کتنا ہی تعلیم یافتہ نہ کیوں نہ ہوجاۓ، ریسرچ میں کتنا ہی advanced  کیوں نہ ہو جاۓ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان  قدرت کے آگے بےبس اور ہیچ ہے.

ٹیکنالوجی کی معراج پرپہنچ جانے بھی وہ بیماریوں اور موت کے آگے حد تک لڑنے کے بعد ہار جاتا ہے. اگر میرا جسم پرمیری مرضی چلتی تو عام انسان تو عام انسان ابن سینا ، جابر بن حیان الیگزینڈر فلیمنگ اور لوئس پاسچر جیسے طب کی دنیا کے شہسوار نہ مرتے،آئین سٹائن اورسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنس کے برج نہ الٹ جاتے اورمانسا موسیٰ اور ہنری فورڈ جیسے تاریخ انسانی کے امیر کبیر انسان اپنے جسم کوموت کی کشمکش سے آزاد کر دیتے مگر ایسا نہ ہو سکا.


جاتے جاتے رستم زمان گاما پہلوان یاد آ گئے..پوری زندگی دنگل ناقابل شکست رہنے والے پہلوان کو مرض الموت کی نقاہت نےآن گھیر کر چاروں شانے چت کردیا تو کسی نے ان سے پوچھا اس وقت آپ کا دل کس چیز کی تمنا کر رہا ہے توفن پہلوانی پر راج کرنے والے شہنشاہ کی آنکھیں بھر آئیں اور گویا ہوے اور کچھ نہیں بس ایک بار اپنے ہاتھ سے اپنے ناک پر بیٹھی مکھی اڑانا چاہتا ہوں. تو یہ ہے میرا جسم اور میری مرضی کی حقیقت اگر ہم سے پہلے گزرے لوگ اس جسم کو لازوال اور اپنے طابع نہیں کر سکے تو ماروی سرمد یا اس جیسی کسی اور سوچ رکھنے والے کی کیا حیثیت جو وہ اپنا جسم پر اپنی مرضی چلا سکے..بس سب ایک مہلت ہے اس کے بعد سب ٹھاٹھ دھرا رہ جاۓ گا جب لاد چلے گا بنجارا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :